معراج وانی
ہم جب بھی کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے جس چیز پر قدم رکھتے ہیں، وہ دہلیز ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی سی پٹی، جو باہر کی دنیا سے گھر کے اندر کی فضا کو جدا کرتی ہے۔ یہ صرف لکڑی یا پتھر کی ایک ساخت نہیں بلکہ ایک علامت ہے — گھر کی پہلی محافظ، پہلی نگہبان اور پہلی تاثراتی شناخت۔
اگر میں کہوں کہ دہلیز دراصل ایک بیوی ہے — تو شاید کچھ لوگ چونک جائیں۔ لیکن غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ جس طرح ایک اچھی بیوی گھر کو سکون، تحفظ اور وقار فراہم کرتی ہے، ویسے ہی دہلیز گھر کی پرائیویسی اور حرمت کی علامت بن جاتی ہے۔اسی علامتی مفہوم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تاریخی واقعے نے ابدی بصیرت میں ڈھال دیا۔
حضرت ابراہیمؑ جب سرزمینِ فلسطین سے سرزمینِ عرب کی طرف اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خبرگیری کے لیے نکلے، تو بیٹے کی عدم موجودگی میں ان کی پہلی زوجہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے کچھ سوالات کیے:گھر کی حالت کیسی ہے؟ روزگار، رزق اور معاملات کیسے چل رہے ہیں؟مگر جواب شکایت بھرے تھے، ناشکری سے لبریز۔ حضرت ابراہیمؑ نے، گو بیٹے سے ملاقات نہ کی، مگر جاتے ہوئے یہی پیغام زوجہ کو دے دیا کہ:’’اپنے شوہر سے کہنا کہ وہ اپنی دہلیز کو بدل دے۔‘‘حضرت اسماعیلؑ گھر لوٹے، بیوی سے باپ کے متعلق پوچھا اور پیغام سن کر فوراً فہم لیا کہ والد کا اشارہ ان کی زوجہ کے کردار اور رویے کی طرف ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس دہلیز کو بدل دیا —، یعنی اس بیوی کو طلاق دے دی۔کچھ وقت گزرا۔ حضرت ابراہیمؑ دوبارہ تشریف لائے، اس بار حضرت اسماعیلؑ کی دوسری بیوی سے ملاقات ہوئی۔وہ شکر گزار، بااخلاق، بردبار اور گھر کے سکون کی ترجمان تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے جاتے ہوئے یہی پیغام دیا:’’اپنے شوہر سے کہنا کہ اپنی دہلیز کو قائم رکھے — یہ بہت اچھی ہے۔‘‘
یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بیوی، یعنی دہلیز، نہ صرف گھر کی فضا کی عکاس ہے بلکہ اس کے مستقبل کی معمار بھی ہے۔اسی لیے قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’پس نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں، اور اللہ کی نگہبانی کے باعث پوشیدہ باتوں کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘(النساء: 34)اور نبی کریمؐ نے فرمایا:’’دنیا ایک ساز و سامان ہے، اور اس کا بہترین سامان نیک بیوی ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
ایک نیک بیوی کی صفات، جو دہلیز کی خوبیوں کو ظاہر کرتی ہیں، کچھ یوں ہیں: جو ہر فیصلہ اور عمل کو خدا کے خوف اور رضا سے جوڑ دے، جو فقر میں شاکر اور مصیبت میں صابر ہو، جو شوہر کے ساتھ محبت و اطاعت سے پیش آئے، جو کردار کا آئینہ ہو، جو نسلِ نو کو صالح بنائے، جو زبان اور لہجے سے دل کو جیت لے، جو کفایت، صفائی اور نظم سے گھر کو جنت بنائےاور اسی کے ساتھ ایک شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دہلیز کی حفاظت کرے، اس کی عزت کرے اور اس کے ساتھ شفقت، وفا اور دیانت داری سے پیش آئے۔ کیونکہ دہلیز اگر مضبوط ہو، تو گھر میں ایمان، محبت اور تربیت کا ایسا ماحول قائم ہوتا ہے جہاں سے معاشرے کو صالح، باکردار اور باہمت نسلیں ملتی ہیں۔گھر میں داخل ہونے سے پہلے اگر دہلیز پر سوچا جائے —تو شاید ہم بہتر انسان، بہتر شوہر، اور بہتر والد بن سکیں۔کیونکہ دہلیز صرف گزرگاہ نہیں، یہ گھر کی بنیاد اور روح کی حد بندی ہے۔ یہ جیسی ہو، ویسا ہی پورا گھر ہوتا ہے۔