بلال فرقانی
سرینگر//سرینگر کے اچھن علاقے میںسالہاسال سے جمع کچرے کے ڈھیرکے زہریلے اثرات نہ صرف مٹی اور زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر رہے ہیں بلکہ زرعی پیداوار، سبزیوں، اور دودھ کی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔اچھن کے اردگرد کے علاقوں سعد پورہ،عیدگاہ، زونی مراور نورباغ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ کچرے کی بدبو اپنی جگہ، اصل زہر وہ ہے جو ان کی زمین میں جذب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی تازہ سبزیوں، چاول اور دودھ کیلئے مشہور اچھن اور اس کے گردونواح کے علاقے اب خطرے کی علامت بن چکے ہیں۔مقامی کاشتکاروحید احمد نے بتایا’’ہم یہاں سبزیاں، مکئی اور چارہ اگائے جاتے تھے جو سرینگر کے بازاروں میں فروخت ہوتا تھا، لیکن اب تقریباً 600 سے 800 ایکڑ زمین متاثر ہو چکی ہے ‘‘ ۔ان کا کہنا تھا کہ فصلیں وقت سے پہلے مرجھا جاتی ہیں، مویشیوں کے دودھ میں بدبو آتی ہے، اور خریدار اسے لینے سے انکاری ہیں۔سماجی کارکن منظور احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ گائے اور بھیڑیں اکثر فضلہ گاہ کے آس پاس چرنے چلے جاتے ہیں، جہاں وہ آلودہ گھاس کھاتے ہیں۔ ان کے بقول’’ان جانوروں کے دودھ سے اب بْو آتی ہے، جسے لوگ پینے سے کتراتے ہیں۔زرعی یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کی ڈاکٹر شائستہ اسلام اورحلیمہ بانو، بیسک سائنس اینڈ ہیومنٹیز کے ڈاکٹر آصف عزیز ملک اور کنگ سعود ی یونیورسٹی کے کالج آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر سائنس میں شعبہ ارضیات کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر فہد العتیبی کی ایک تحقیقی رپورٹ لینڈفل لیچیٹ: ہمالیائی خطوں کی مٹی کے معیار کیلئے ایک پوشیدہ خطرہ‘‘میں بتایا گیا ہے کہ اچھن کی زمین میں خطرناک حد تک تیزابیت، غذائی عدم توازن، اور بھاری دھاتوں کا جمع ہونا پایا گیا ہے۔تحقیق کے مطابق مٹی کی پی ایچ پیمائش6.2سے 6.7کے درمیان پائی گئی، جو مٹی کے تیزابی ہونے کی علامت ہے جبکہ سیسہ کی مقدار 98.3 ملی گرام/کلو گرام تک پائی گئی، جو محفوظ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دیگر دھاتیں جیسے کیڈمیم، کرومیم، نکل، آرسینک، زنک اور مینگانیز بھی خطرناک سطحوں پر موجود تھے۔ان کے مطابق یہ زہریلا لیچیٹ مٹی کی زرخیزی کو ختم کر رہا ہے اور نائٹروجن، فاسفورس اورپوٹاشم جیسے ضروری غذائی اجزاء کی مقدار میں شدید کمی لا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں فصلیں کمزور اورپیداوار گھٹ گئی ہے اور سبزیوں و چارے میں بھاری دھاتوں کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ زہریلے عناصر پودوں سے ہوتے ہوئے جانوروں تک اور پھر دودھ و خوراک کے ذریعے انسانی جسم تک پہنچ رہے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی کے ویٹرنری ماہرین کے مطابق آلودہ چارہ کھانے والی گائیںکم دودھ دیتی ہیں نیز تولیدی مسائل اور ہاضمے کی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں۔علاقے کے زیر زمین پانی میں بھی زہریلی دھاتوں اور امونیا کی مقدار مقررہ حد سے تجاوز کر چکی ہے،جبکہ آبپاشی کیلئے استعمال ہونے والا پانی اب ناقابلِ برداشت بو دیتا ہے۔ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سرینگر کے شمالی علاقوں کی زمین مستقل طور پر بنجر ہو سکتی ہے۔زرعی یونیورسٹی کی محققہ ڈاکٹر شائستہ اسلام کا ماننا ہے، ‘‘اچھن کا معاملہ صرف کچرے کے انتظام کا نہیں بلکہ سرینگر کے خوراکی نظام کی تباہی کا آغاز ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو زرعی بنیاد ہی ختم ہو جائے گی۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے’’یہ صرف ہمارے علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری وادی کی صحت اور خوراک کا سوال ہے اور حکومت کو ابھی قدم اٹھانا ہوگا ورنہ سرینگر کی زمین زرخیزی کے ساتھ اپنی پہچان بھی کھو دے گی۔‘‘