پرویز احمد
سرینگر // جھیل آنچار سال 1977کے بعد بھی کئی دہائیوں میں ’’ندرو‘‘ کیلئے پورے جموں و کشمیر میں مشہور ہے لیکن شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی تعمیر سے یہ جھیل زہریلے پانی اور گندگی کی ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ آنچار نالہ گلسر اور خوشحال سرکے درمیان نالہ امیر خان کے ذریعے جھیل ڈل سے ملتا ہے ۔آنچار چوڑائی میں 3.5کلومیٹر ہے اور اس کو نگین سے پانی فراہم ہوتا ہے جو خود دریائے جہلم سے پانی حاصل کرتا ہے۔نگین کا پانی نالو ںکے ذریعے امداکدل سے بہولوچی پورہ سے گذرتے ہوئے آنچار میں جا ملتا ہے۔ آنچار 1675ہیکٹر اراضی پر محیط شالہ بگ آبی گاہ کا ایک لازمی حصہ تصور کیا جاتا تھا لیکن سکمز صورہ کی تعمیر کے بعدسب سے زیادہ جھیل آنچار متاثر ہوا کیونکہ جموں و کشمیر سرکار نے سکمزسے نکلنے والے مواد کیلئے جھیل آنچار کو فروخت کیا ۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق آنچار کی 500کنال اراضی سکمز کو فروخت کی گئی جس میں سے پچھلے تین دہائیوں میں 75کنال اراضی پر لوگوں نے ناجائز قبضہ کیا جبکہ 425کنال اراضی 2022میں سکمز نے اپنی تحویل میںلی ۔ اچھن کے کچرے کے پہاڑوں سے نکلنے والے مواد اور زہریلا پانی 500میٹر دور آنچار میںچلا جاتا ہے۔اس زہریلے پانی سے جھیل آنچار میں پائی جانی والی مچھلیاں اور دیگر آبی نباتات اور کیڑے مکوڑے ختم ہو رہے ہیں،ندرو کی فصل نایاب ہورہی ہے، یا اس کی لذت ختم ہوگئی ہے، اور نہ صرف آنچار بلکہ گل سر، خوشحال سر اور شالہ بگ آبی پناہ گاہ بھی تباہ ہورہی ہے۔ ایس ایم سی کمشنر نے گزشتہ سال دسمبر میں نیشنل گرین ٹریبونل کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ Leachate Treatment Plant کو جون 2025تک شروع کردیں گے ۔ اس دوران گرین ٹریبونل نے سرینگر میونسپلٹی پر سال 2017سے لیکر سال 2025تک 12کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔اس کے بائوجود بھی اچھن سے آنے والے گندے پانی کو صاف کرنے پر سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سکمز صورہ سے نکلنے والے گندے پانی کیساتھ کیمیائی ذررات اور اچھن سے نکلنے والے زہریلے موادسے نہ صرف پورے علاقے میں بدبو پھیل رہی ہے بلکہ اس بد بو کی وجہ سے مقامی لوگ چھاتی اوردمہ کے امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ آنچارکے نزدیگی علاقوں میں ڈانگر پورہ بستی کے بیشتر لوگ چھاتی کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ آنچارجھیل کی آلودگی پر بات کرتے ہوئے سکمز کے سابق ڈائریکٹر اورامراض چھاتی کے معروف معالج ڈاکٹر پرویز احمد کول نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ آلودہ پانی اور ہسپتال سے نکلنے والے مواد کیلئے کوئی بھی سہولیات دستیاب نہیں تھی ،اسلئے سکمز انتظامیہ نے 1970کی دہائی میں حکومت سے یہ زمین خریدی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اُسوقت آنچار میں کوئی بھی آبادی نہیں تھی اور سرکار نے اسے یہ جھیل کا ایک حصہ سکمز سے نکلنے والے پانی کی نکاسی کیلئے فراہم کیا تھا ۔ ڈاکٹر پرویز کول نے بتایا ’’ سکمز نے جو اراضی خریدی تھی وہ سکڑ کر تقریباً 425کنال رہ گئی ہے اور سال 2022میں اسی زمین کی نشاندہی کر کے اسے تحویل میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکمز نے آنچارکو پانی کی نکاسی کیلئے خریدا تھا لیکن کچرا الگ کرکے اسے اچھن بھیجا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ Sewage treatment plantمیں پہلے صاف کیا جاتا ہے اور بعد میں آنچار میں ڈالا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اچھن اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں کافی لوگ بدبو کی وجہ سے چھاتی کے امراض جیسے سی او پی ڈی، دمہ اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔معروف ماہر ماحولیات مطہرہ شفیع دیوا نے کشمیر عظمیٰ کوبتایا ’’ گرین ٹریبونل نے کئی نوٹسیں جاری کیںلیکن یہاں گرین ٹریبونل کو کوئی نہیں مانتا ۔ انہوں نے کہا کہ سکمز صورہ سے کوڑا سیدھے آنچار میں جاتا ہے کیونکہ وہاں کا ایس ٹی بی خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چیزیں نصب تو کرتے ہیںلیکن جب یہ خراب ہوتی ہے ، تو ان کو ٹھیک کرنے کیلئے تربیتی عملہ موجود نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایئر ایکٹ1981، واٹر ایکٹ 1974، ماحولیات بچائو قانون 1986 اور بائیو میڈیکل ویسٹ منیجمنٹ ایکٹ 2016کے تحت کوئی بھی شخص آبی ذخائر کو نہیں خرید سکتا لیکن اسکے باوجود اسے سکمز کو فروخت کیا گیا۔