کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے اِس ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں کو یکجا کر دیااور ایسا لگتا ہے کہ یہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔کانگریس جو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے، کرناٹک کے نتائج دیکھنے کے بعد خود کو دوسری صف میں کھڑے رہنے کے لئے تیار ہو گئی اوروقت کے تقاضے کو ملحوظِ خاطر رکھا ورنہ آج کرناٹک بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتا۔اگرچہ اسے بی جے پی سے بھی زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن جنتادل سیکولر کے میدان میں رہتے بی جے پی نے بہت سی جگہوں پر بہت کم ووٹوں کے فرق سے بازی مار لی تھی۔تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اور جنتادل کا اتحاد انتخابات سے پہلے ہواہوتا تو اِس اتحاد کو ۱۵۰؍ سیٹیں آسانی سے مل جاتیں۔اِس رو سے وزیر اعلیٰ بھی کانگریس کا ہوتا اوراسے دوسری صف میں رہنیکی نوبت بھی نہ آتی۔لیکن کانگریس تو اپنے زعم میں مبتلا تھی اور یہ زعم کچھ حد تک سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا کے مرہون ِمنت تھا۔سدا رمیا کا آؤ بھاؤ جسے باڈی لنگویج کہتے ہیں یہ بتلا رہا تھا کہ وہ حددرجہ پُر اعتماد ہیں اور اُن کی جیت پکی ہے۔حالانکہ سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھالیکن جنتا دل کی طاقت کو جس طرح سے کانگریس کی صوبائی اکائی نے مسترد کیا تھا، اُسی طرح مرکزی اکائی نے بھی جلتی میں گھی کا کام کیا تھا۔راہل گاندھی کے اُس بیان کو اگر یاد کیا جائے جس میں اُنہوں نے جنتا دل ایس کو بی جے پی کا بی ٹیم گردانا تھا تو ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ایسی بات قطعی نہیں تھی ۔یہ اور بات ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ کمار سوامی نے اقتدار کی لالچ میں بی جے پی سے ماضی میں ہاتھ ملایا تھا لیکن بقول اُنہی کہ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا جو ان کے والد ہیں اور جنتادل ایس کے بانی ہیں،بے حد ناراض تھے ۔اُن کی ناراضگی کو دور کرنے اور اُس داغ کو دھونے کے لئے ہی کمارسوامی نے کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے جو داغ بی جے پی کے ساتھ کبھی چلے جانے سے لگا تھا۔
ایچ ڈی دیوگوڑا نے انتخابات سے قبل کانگریس سے ہاتھ ملانے کی بات کی تھی لیکن کانگریس اس خام خیالی میں تھی کہ دیوگوڑا کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ان کی پارٹی بمشکل ۲۰؍سیٹیں ہی حاصل کر پائے گی۔کانگریس چاہتی تھی کہ جنتا دل ایس کو ختم کر دے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور زمینی سطح پر دیکھیں تو سدا رمیا کو اِس الیکشن میں جنتادل کے ہی ایک دوسرے دیوگوڑا نے ہرایا اور سدارمیا بمشکل ’بادامی‘ سیٹ جیت سکے اور اِس طرح اپنی عزت بچائی۔مزے کی بات یہ ہے کہ جنتادل ایس نے ۳۸؍سیٹوں میں سے ۲۵؍سیٹیں کانگریس کو ہرا کر جیتی ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ جنتا دل ایس جس میسور حلقے میں مضبوط ہے وہاں کے ووٹ بینک وہی ہیں جو کانگریس کے ہیں۔اسی لئے کانگریس کو اتحاد کرنے میں پریشانی ہو تی ہے۔اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ تو مستقبل کے لئے نکالنا ہی ہوگا۔یہی حال آسام میں بھی ہے۔کانگریس جانتی ہے کہ آسام میں بدرالدین اجمل کی اے یو ڈی ایف پارٹی ایک فورس ہے لیکن یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ دونوں(کانگریس اور اے یو ڈی ایف) کے ووٹ بینک ایک ہی ہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بدرالدین اجمل کانگریس سے نہیں ہارتے۔اس کے باوجود اجمل کی پارٹی کو اچھی خاصی سیٹیں آئیں۔اگر دونوں میں انتخابات سے پہلے اتحاد ہواہوتا تو بی جے پی کی پیش رفت کو روکا جا سکتا تھا۔ایسے موقعوں پر اتحاد کیسے ہو ،یہ کانگریس کو سوچنا ہے۔حکمت عملی طے کرنے سے فائدہ دونوں پارٹیوں کو ملے گا۔کرناٹک کی حلف برداری کے موقع پر اجمل موجود نہیں تھے ۔اگر انہیں بلایا گیا ہوتا تو وہ ضرور تشریف لاتے!اسی طرح فاروق عبداللہ یا عمر عبداللہ بھی نہیں دیکھے گئے جس سے کانگریس کاان پارٹیوں کے تئیں تحفظ کا پتہ چلتا ہے۔
کرناٹک بی جے پی کے ہاتھ سے کیا گیا کہ برقی میڈیا کے بیشتر چینل اور کچھ پرنٹ میڈیا کے بی جے پی حامی یہ اصرار کرنے لگے کہ یہ جو اتحاد ہے وہ ناپاک اتحاد ہے اور صرف بی جے پی کو یہ حق تھا کہ وہ حکومت بناتی کیونکہ نتائج اس کے حق میں تھے۔ اس کے علاوہ وہ مودی جی کی مقبولیت کا سروے کرنے لگے اور یہ بھی اعداد وشمار پیش کرنے لگے کہ اگر اپوزیشن کے یہ تمام لوگ ایک ہو جائیں تب بھی بی جے پی کو ہرا نہیں سکتے اور ان کے خیمے میں مودی جی کا کوئی مد مقابل نہیں۔ایک معاصر اخبار نے ایک سروے ٹیبل کی صورت میں پیش کیاکہ بی جے پی کو ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں جو ۲۸۲؍سیٹیں ملی تھیں،اُس میں سے صرف۵۶؍سیٹیں ہی کم ہوں گی اور وہ بھی یوپی میں ۴۶؍سیٹوں کی صورت اگر ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد برقرار رہا۔اپوزیشن کے اتحاد کی صورت میں باقی ماندہ صوبوں سے صرف ۱۰؍سیٹیں ہی کم ہوں گی۔یعنی اب بھی معاصر اخبار جو کہ ہندوستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار ہے،کانگریس کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھتا۔بی جے پی کو پہلے کی طرح گجرات میں۲۶؍سیٹیں، راجستھان (۲۵؍)،مدھیہ پردیش(۲۳؍پہلے سے ۴؍کم) ، مہاراشٹر (۲۳؍) ،جھارکھنڈ (۱۱؍پہلے سے ایک کم)،اتراکھنڈ(۵؍) ،دہلی(۷؍) بہار(۲۴؍پہلے سے ۲؍زیادہ)، کرناٹک(۱۵؍پہلے سے ۲؍کم)او رہریانہ میں۷؍ سیٹیں دیتا ہے۔خیر اسی اخبار کا مان لیں تب بھی بی جے پی کو۲۲۶؍ سیٹیں ہی ملتی ہیں جو کہ اکثریت سے ۵۰؍سیٹیں کم ہیں۔شیو سینا کے علاوہ بی جے پی کا کوئی بڑا اتحادی تو دکھائی نہیں دیتا اور شیو سیناسے بھی اس کے رشتے اچھے نہیں ہیں یہ ایک دنیا جانتی ہے ۔ تویہ کم پڑ رہی ۵۰؍سیٹیں بی جے پی کو کہاں سے آئیں گی یہ سوچنے کا مقام ہے۔جس طرح کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے کانگریس نے گیم کھیلا اور دوسری تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر نظر آئیں،اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں بھی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک ہو جائیں گی۔تمل ناڈو کی ایک ’اے آئی ڈی ایم کے‘پارٹی بچتی ہے جو ممکن ہے کہ بی جے پی کی حمایت کر ے لیکن آنجہانی جے للیتا کے بعد اِس پارٹی کا مستقبل تاریک ہے۔اس کے علاوہ اگر خدا نخواستہ بی جے پی کسی طرح حکومت بنانے کے لئے صدر محترم کے ذریعے بلا بھی لی جاتی ہے تو نریندر مودی تو وزیر اعظم قطعی نہیں ہوں گے کیونکہ حامی پارٹیاں ان کی قیادت پر قدغن لگا دیں گی۔
لیکن اس کے امکانات کم ہیں۔اوپر قوسین میں دیئے گئے ہندسوں کو اگر کچھ کم کر دیا جائے ،کیونکہ اس کے خاطر خواہ امکانات ہیں،تو بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ ۱۵۰؍سیٹیں ہی مل پائیں گی۔کیونکہ کانگریس گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، جھارکھنڈ،بہار،اتراکھنڈ،ہریانہ ،دہلی اور کرناٹک نیز جنوبی ہند کے دوسرے صوبوں میں اچھا مظاہرہ کرنے والی ہے ،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اے بی پی کے ایک سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آج اگر راجستھان اور مدھیہ پردیش میں انتخابات ہو جائیں تو بی جے پی کا صفایا ہو جائے گا۔ایک دوسرے سروے میں مقبولیت کے گراف میں راہل گاندھی (۲۶؍فیصدی) نریندر مودی(۳۵؍فیصدی) سے صرف ۹؍فیصدی ہی پیچھے ہیں اور ابھی ایک برس باقی بھی ہے۔اس کے ساتھ ہی پیٹرول کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور ڈالر کے مقابلے روپیہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔مودی جی کے وزیر یہ کہتے ہیں کہ یہ اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔یہی حالات رہے تو پیٹرول بچے ہوئے ایک برس میں ۱۰۰؍روپیہ فی لیٹر ہو جائے گا اور ایک ڈالر ۷۵؍ روپیہ کے قریب۔حکومت مخالف رجحان جسے انگریزی میں اینٹی اِن کمبینسی کہتے ہیں ایک برس میں مزید توانا ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ ’ہندتوا‘ کچھ کا م نہ آسکے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ کانگریس خود کو آگے کرے اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کو لے کر ایک مہا گٹبندھن بہار کے طرز پر قائم کرے۔آج اپوزیشن کے سہارے اور مل کر ۲۰۱۹ء میں حکومت کرلے پھر بعد میں اپنے کیڈر کو مضبوط کر کے تنِ تنہا میدان میں آئے۔یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883