ملک کا سیاسی منظر نامہ کسی بڑی اَن بوجھ پہیلی کی صورت اختیارکرتا جارہا ہے ۔سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین سیاست نے کچھ برسوں قبل مودی حکومت کی پالیسیوں اور ان کے نفاذ کے طریقوں کو ایمرجنسی کی آہٹ سے تعبیر کیا تھا اور تقاضا کے مطابق جمہوریت کی حفاظت کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر مختلف شکلوں میں عملی طور پر صدائے احتجاج بھی بلند کیا ۔برسر اقتدار پارٹی کے سینئر رہنمائوں کی سر پرستی میں حب الوطنی کے نام پر طرح طرح تماشے دکھائے گئے ۔آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے ملک کی تعلیم گاہوں میں جس خوف کا ماحول قائم کیا اور بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس کرادیا کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام کی کوئی چڑیا ہندوستان میں بسیرا نہیں کرسکتی اور اگر کسی کو سچ بولنا ہے تو اسے ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے ۔اگر بات صرف روہت ویمولا اور جے این یو کی ہوتی تو اسے شاذ کے قبیل سے سمجھا جاتا مگر اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی جے این یو ہی میں اے بی وی پی کے ارکان نے نجیب احمد کو نہ صرف بری طرح پیٹا بلکہ اسے غائب بھی کردیا اور آج تقریباً پانچ ماہ ہونے کو ہے مگر اب تک انٹلی جنس بیورو اور حکومت نجیب احمد کی بازیافت میں ناکام ہے۔مسلسل پانچ ماہ سے نجیب کی ماں کی چیخیں ایوان حکومت سے ٹکرا کر دم توڑ رہی ہیں اور تمام سرکاری مشینری چین کی نیند میں ہے۔جے این یو کا واقعہ دہلی یونیورسٹی میں دہرایا گیا ،الہ آباد یونیورسٹی میں اس کی دھمن محسوس کی گئی ،رامجس کالج کی طالبہ گرمہر کور جس بہادری کے ساتھ جمہوریت کے تحفظ کے لئے آگے بڑھی اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ قابل تقلید ٹھہرا ،امبیدکر یونیورسٹی دہلی میں اظہار رائے کی آزادی پر منعقدہ ہونے والے سمینار کو ملتوی کروایا گیا اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں بھی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کارکنوں نے یہ ثابت کردیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کس موضوع پر سمینار ،ورکشاپ اور سمپوزیم کریں گے اس کا فیصلہ اے پی وی پی کرے گی۔ان تمام واقعات پر اگر غور کریں تو ہر جگہ جمہوریت کی حفاظت اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے ملک کے دانشور اور طلبہ اپنی جلوہ سامانی کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں لیکن ان حالات میںاپوزیشن پوری طرح سے منظر نامے سے غائب نظر آتا ہے ۔حالانکہ جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے ۔وہ نہ صرف حکومت کی کارکردگی اور اس کی پالیسی پر ترچھی نظر رکھتا ہے بلکہ وہ عوام کی ترجمانی بھی کرتا ہے اس لئیجمہوریت میں اپوزیشن کے رول کو حکومت کے معاون کا درجہ دیا جاتا ہے ۔اپوزیشن ہی حکومت کے منہ میں لگام لگاتا ہے اور اس کی عوام مخالف پالیسیوں سے ملک کو بروقت آگاہ کرکے حکومت کو اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور کرتا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں اپوزیشن پوری طرح بے جان نظر آتی ہے ۔رسوئی گیس،پٹرول اور اشیائے خوردنی کے دام آسمان چھو رہے ہیں ، ملک مخالف سرگرمیوں میں برسر اقتدار پارٹی کے لیڈران پکڑے جارہے ہیں اور اس پارٹی کے لیڈروں کے ذریعہ ننھے منے بچوں کی اسمگلنگ کے واردات سامنے آرہی ہیں ،اس کے بعد بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں مستی میں ہیں ۔ حکومت سے کوئی اچھی توقع ہے ہی نہیں لیکن یقیناً اپوزیشن کا افسوسناک رویہ ملک کے جمہوری اقدار کو خطرے میں ڈالنے والا ہے۔
انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس)نے مدھیہ پردیش کے چار شہروں سے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے گیارہ ایجنٹوں کو گرفتار کیا اور عوام اس وقت حیران رہ گئے کہ ملک کی سیکورٹی کو خطرے میںڈالنے والے افراد کا تعلق اسی طبقہ سے ہے جو مسلمانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگتا ہے ۔بی جے پی آئی ٹی سیل کے کنوینئر دھر و سکسینہ سرغنہ نکلا ۔یہ بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں کا قریبی ہے ،فیس بک پروفائل پر آپ کو دھرو کی بی جے پی کے کئی لیڈروں کے ساتھ تصویر دیکھنے کو مل جائے گی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دھروبی جے پی کی آئی ٹی سیل میں بھاجیمو کے ضلع کنوینر کے عہدے پر مامور تھا ،وہ سینئر بی جے پی لیڈر کیلاش وجے ورگیہ ،وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان ،بھوپال میئر آلوک شرما ،بھوپال ایم پی آلوک سنجر کے ساتھ بھی اسٹیج شیئر کرچکا ہے ۔اس کی ایسی کئی تصاویر فیس بک اکاونٹ پر پڑی ہوئی ہیں ۔یہ تمام گیارہ جاسوس ہندوستانی فوج کے جائے وقوع اور فوج کے افسروں کی سرگرمیوں کی معلومات ایک ٹیلی فون ایکسچینج چلاکر بیرون ملک تک پہنچاتے تھے۔اس کے لئے انہیں وہاں سے موٹی رقم بھی ملتی تھی ۔اس معاملے میں اب تک تین کروڑ روپے کے حوالہ کا معاملہ سامنے آچکا ہے ۔یہ لوگ انٹر نیشنل کال کو جدید ٹیکنا لوجی کی مدد سے اینٹلی جنس کو دھوکہ دینے کے لئے لوکل کال میں تبدیل کرتے تھے ۔اس انکشاف کے بعد بھی اپوزیشن کہیں سوتا ہوا نظر آیا ۔ہاں مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ وگ وجے سنگھ نے یہ ٹویٹ کرکے کہ بھوپال میں پکڑے گئے آئی ایس آئی کے ایجنٹوں میں ایک بھی مسلمان نہیں۔ان میں سے ایک بی جے پی کا رکن ہیں ۔مدھیہ پردیش میں ہی جیل سے نکال کر سیمی کے مبینہ کارکن کو فرضی انکاونٹر میں مارنے کے واقعات کے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں ۔مطلع پوری طرح صاف ہونے کے باوجود اس وقت بھی اپوزیشن کا کوئی رول سامنے نہیں آیا ۔تازہ معاملہ میں راجستھان کے جیسلمیر کے باڑمیر اور جودھپور سے ملک کی فوجی سرگرمیوں ، اہم اسٹریجک اہداف کی خفیہ اطلاعات اور فوٹو گراف پاکستانی اینٹلی جنس آئی ایس آئی کو بھیجنے کے الزام میں تین پاکستانی جاسوس ساتا رام مہیشوری ، وجود کمار اور سنیل کمار کو گرفتار کیا ہے ۔وہ لوگ باڑمیر جیسلمیر ، جودھپور پوکرن فوجی مشق ،آرمی موومنٹ اور فضائی کی سرگرمیوں کے بارے میں آئی ایس آئی کو مسلسل معلومات بھیج رہے تھے ۔ان کے قبضے سے کئی اقسام کے فوجی دستاویزات ، فوٹو گرافس اور خفیہ دستاویزات ملے ہیں۔اسی دوران یہ خبر آئی کہ ملک میں بڑھتے ریل حادثوں کے پس پردہ غیر ملکی ہاتھ ہے اور اس میں بھی بھوجپوری فلم انڈسٹری کے سرکردہ افراد ملوث ہیں۔اس میں نیپالی شہری شمس الہدی کا نام اچھالا گیا اور اس پر میڈیا میں حسب توقع خوب دھماچوکڑی مچائی گئی لیکن میڈیا کے منہ پر اس وقت تالا لگ گیا جب این آئی اے اور اینٹلی جنس بیورو نے برج کشور گری عرف باباکرنل ،شمبوگری اوماشنکر پتیل ، موتی لال پاسوان اور مکیش یادو کو گرفتار کیا ۔اس وقت ملک کے انصاف پسند عوام اپوزیشن سے بڑی امید قائم ہوئی تھی لیکن یہاں اپوزیشن تو پوری طرح غیر حاضر رہی ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے یو پی کی ایک ریلی میں سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے اسے اپنے کھاتے میں کیش کرالیا یعنی ع
وہی ذبح بھی کرے وہی لے ثواب الٹا
مغربی بنگال میں ایک دل کو دہلانے والے بچوں کے اسمگلنگ ریکٹ کا پردہ فاش ہوا اور اس میں بھی بی جے پی خواتین سیل کی لیڈر جوہی چودھری کی گرفتاری ہوئی اور تحقیقات میں بی جے پی لیڈر و سابق اداکارہ روپا گنگولی اور کیلاش وجے ورگیہ کے کردار سامنے آئے۔مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی کی ایک عدالت نے بچوں کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار بھارتیہ جنتا پارٹی کی خواتین ونگ کی لیڈر جوہی چودھری کو بارہ دنوں کے لئے کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی)کے ریمانڈ پر بھیج دیا ۔نونہالوں کی لاشوں کی سودا گری کے انکشاف کے باوجود آپ کو اپوزیشن کا ڈھونڈنے پر بھی کہیں پتہ نہیں ملتا ہے ،ہر طرف خموشی اور سناٹا نظر آتا ہے۔ہندوستانی جمہوریت اپنے نازک دور سے گزررہا ہے ،سچ بولنے پر زبان بند کرنے کے لئے ہر حربے اپنائے جارہے ہیں ،روہت ویمولا ،نجیب احمد اور مہاراشٹر میں امبیدکر وادیٔ مورخ کرشنا کروالے کا قتل اس کی مثالیں ہیں ۔ہمیں سخت حیرت ہے کہ سچ کی ترجمانی کرنے والی طالبہ گرمہر کورکو اجتماعی عصمت دری کرنے کی دھمکی دی گئی اور اوزیشن کی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو گرم نہیں ہوا،ملک کے انصاف پسند عوام میں کوئی حرکت محسوس نہیں کی گئی اور حساس طبقہ نے صرف مذمتی بیان پر خود کو محدود کرلیا ۔یقیناً ہمارا یہ رویہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے سچے نگہبان کی تکذیب کرتا ہے ۔موجودہ حالات میں اپوزیشن کی کمزور ،نحیف آواز جمہوری نظام کے لئے نیک شگون ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔