Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

اپنے ہی کھیتوں میں بیگانہ | کشمیری دیہی خواتین کا زراعت سے غائب ہوتا وجود زراعت

Towseef
Last updated: June 13, 2025 9:55 pm
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

محمد امین میر

کشمیر میں جون کا مہینہ کبھی تازہ جُتی ہوئی دھان کی زمین کی خوشبو، پانی سے بھرے کھیتوں میں عورتوں کے پاؤں کی چھپاک چھپاک، اور کھیتوں میں گونجتے لوک گیتوں کی آوازوں کے ساتھ آتا تھا۔ حاجرا بھی انہی خواتین میں سے ایک تھی، جنہوں نے نسل در نسل دھان کی کاشت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ آج جب وہ جنوبی کشمیر کے اپنے آبائی کھیت کے کنارے کھڑی ہے، تو اس کی آنکھیں بہار کے ان مناظر کو ترستی ہیں—اب وہی کھیت غیر مقامی مزدوروں کے ہاتھوں مشینی انداز میں بوئے جا رہے ہیں۔ وہ ہاتھ جو کبھی اس کی پہچان تھے، اب خاموشی سے اس کی پشت پر بندھے رہتے ہیں۔

’’ہم سورج نکلنے سے پہلے شروع کرتے تھے اور شام تک کھیتوں میں رہتے تھے‘‘۔ حاجرا بتاتی ہے’’تھکاوٹ ضرور تھی، مگر کھیتوں سے ہمارا رشتہ روحانی تھا۔ ہم ہنستے تھے، گاتے تھے، اور جیتے تھے ان کھیتوں میں‘‘

حاجرا کوئی انوکھی عورت نہیں تھی، وہ نمائندہ تھی ان ہزاروں دیہی کشمیری عورتوں کی جو زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی تھیں۔ کھیت کی جُتائی ہو یا دھان کی پنیری لگانا، نرائی ہو یا کٹائی—ہر مرحلے پر خواتین کا ہاتھ ہوتا تھا۔ ان کا کام بغیر اجرت کے ہوتا، مگر عزت و وقار سے بھرپور۔

1990 کی دہائی میں کشمیر کی زمین نے کروٹ لی۔ سیاسی حالات اور مسلح جدوجہد نے دیہی زندگی کے معمولات بدل ڈالے۔ مرد حضرات سرکاری ملازمتوں یا شہروں میں روزگار کی تلاش میں نکل پڑے۔ ایسے میں کھیتوں کی ذمہ داری یا تو بزرگوں پر رہ گئی یا عورتوں پر۔

لیکن جلد ہی ایک اور تبدیلی آئی۔ بہار اور دوسرے صوبوں سے آنے والے مزدور—جنہیں محنتی اور کم اجرت پر کام کرنے والا سمجھا جاتا ہے—دیہی کشمیر میں عام ہونے لگے۔ ابتدائی طور پر یہ مزدور صرف فصل کاٹنے جیسے کاموں کے لیے بلائے جاتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہیں پورے زراعتی عمل میں شامل کر لیا گیا۔

’’میری بیٹیاں پڑھ رہی ہیں، بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں، اور میں بوڑھا ہو گیا ہوں،‘‘۔بشیر احمد، ایک کسان بتاتے ہیں’’بہاری مزدور صبح جلدی آتے ہیں، کم وقت میں زیادہ کام کرتے ہیں۔ مجبوری ہے‘‘۔مگر اس مجبوری کی قیمت صرف اجرت کی نہیں، تہذیب کی بھی ہے۔

آج کے کشمیر میں، خاص طور پر پلوامہ سے بانڈی پورہ تک کے دیہی علاقوں میں، دھان کے کھیتوں میں مرد مہاجر مزدوروں کی موجودگی عام ہے۔ خواتین یا تو غیر حاضر ہیں، یا محض نگرانی تک محدود رہ گئی ہیں۔زرعی محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ دو دہائیوں میں کشمیری خواتین کی زراعت میں عملی شرکت میں 40 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ جو کام کبھی خاندانی ورثہ اور نسلی تجربہ تھا، وہ اب اجرتی، غیر مقامی، اور مردانہ دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے۔

یہ تبدیلی کئی وجوہات کی بنا پر آئی:

تعلیم: زیادہ سے زیادہ دیہی گھرانوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانی شروع کی، جس سے وہ کھیت کے کام سے دور ہو گئیں۔
صحت کے مسائل: گیلے کھیتوں میں مسلسل کام کرنے سے پیٹھ، جوڑوں، اور جلدی بیماریوں نے بزرگ خواتین کو مجبوراً پیچھے ہٹا دیا۔

سماجی نظریات میں تبدیلی: تعلیم یافتہ خاندانوں میں خواتین کا کھیت میں کام کرنا اب غیر مہذب یا پسماندہ سمجھا جانے لگا ہے۔
مشینی ذرائع اور مزدوری کا رجحان: ٹریکٹرز، پاور ٹیلرز، اور مزدوروں کی آسان دستیابی نے خواتین کی شمولیت کو غیر ضروری بنا دیا ہے۔
یہ تبدیلی صرف ایک عملی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی زوال بھی ہے۔

زرعی اعتبار سے، کئی بزرگ کسان اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ خواتین کھیتوں کو بہتر جانتی تھیں۔ “خواتین کو معلوم ہوتا تھا کہ کس طرف پانی زیادہ دینا ہے، کہاں کی زمین کمزور ہے،” غلام نبی، ایک ریٹائرڈ پٹواری بتاتے ہیں۔

ثقافتی طور پر بھی نقصان ہوا ہے۔ وہ لوک گیت، وہ مل بیٹھ کر کھانا کھانے کا دستور، وہ فصل کی برکت کی دعائیں—سب ماضی کی بات بن چکی ہیں۔ حاجرا کہتی ہے’’ہمارے کھیت تہوار تھے۔ اب وہ محض مزدوری کی جگہ ہیں‘‘۔اور جذباتی لحاظ سے، بزرگ خواتین اپنے ہی کھیتوں میں اجنبی محسوس کرتی ہیں۔ ’’ کہا جاتا ہے کہ تم سست ہو گئی ہو،‘‘فاطمہ، 63 سالہ خاتون کہتی ہیں۔‘‘ہو سکتا ہے، مگر میں اپنے دل سے کام کرتی ہوں۔

امید کی کرنیں اب بھی باقی ہیں۔

بڈگام میں خواتین کی ایک خود مدد گروپ (Self-Help Group) نے چھوٹے پلاٹس پر نامیاتی سبزیاں اگانے کا کام شروع کیا ہے، جہاں روایتی مہارت کو جدید مارکیٹ سے جوڑا جا رہا ہے۔ اننت ناگ میں زرعی تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں بزرگ خواتین کو کھیتوں کے جدید طریقے سکھا رہی ہیں۔

حکومت نے بھی خواتین کو زراعت کی طرف راغب کرنے کی کئی اسکیمیں شروع کی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر یا تو ناکام ہیں یا ثقافتی حقائق سے ناآشنا۔ ورمی کمپوسٹ یا ڈیری فارم کا کورس ان جذبات کی تلافی نہیں کر سکتا جو دھان کے کھیتوں سے جڑے ہوئے تھے۔

ضرورت صرف مالی ترغیب کی نہیں، بلکہ تہذیبی شناخت کی ہے—اس کردار کو تسلیم کرنے کی جو کشمیری دیہی خواتین نے زراعت میں ادا کیا ہے اور اب بھی کر سکتی ہیں

کشمیر کے کھیت آج بھی ان قدموں کو یاد کرتے ہیں جو پانی میں رقص کرتے تھے۔ ان ہاتھوں کو جو ہر پنیری میں امید بویا کرتے تھے۔ بہاری مزدور شاید کام مکمل کر لیں، لیکن وہ تعلق کبھی قائم نہیں کر سکتے جو حاجرا جیسی خواتین کا اپنی زمین سے تھا۔

کشمیر کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ زراعت کا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتا ہے؟ صرف تیز اور اجرتی؟ یا مقامی شناخت، محبت، اور روایت سے جڑا ہوا؟
ماضی کو رومانوی رنگ دینا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم خواتین کے کردار کو نئے طریقے سے تسلیم کریں، ان کی جگہ بحال کریں—نہ صرف کھیت میں بلکہ ہماری سماجی سوچ میں بھی۔
شاید اگلی بار جب ایک پنیری زمین میں دبائی جائے، تو کسی کو یاد آئے کہ یہ کام کبھی گیتوں، دعاؤں، اور حاجرا جیسے ہاتھوں کے ساتھ ہوتا تھا۔
(محمد امین میر ایک قانونی محقق اور کالم نگار ہیں جو دیہی کشمیر میں زمین، طرز حکمرانی اور سماجی تبدیلیوں پر لکھتے ہیں۔)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
امر ناتھ یاترا سے قبل ڈی جی پی کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی جائزہ میٹنگ
تازہ ترین
وہ سیاحتی مقامات جو محفوظ ہیں اب کھل جانے چاہئے: ناصر اسلم
تازہ ترین
امرناتھ یاترا: صوبائی کمشنر کی جموں بھگوتی نگر بیس کیمپ پر تمام کام 20 جون تک مکمل کرنے کی ہدایت
تازہ ترین
ایل جی منوج سنہا کا پہلگام میں ملی ٹینٹ حملے میں جاں بحق عادل کے گھر کا دورہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

ماہنامہ حکیم ُالامت کا بشیر احمد شاکر نمبر

June 13, 2025
کالممضامین

مرحوم غلام محی الدین بلپوری۔فن اور فکر کا سنگم فن اور فنکار

June 13, 2025
کالممضامین

دلشاد مصطفیٰ کا شعری مجموعہ ’’أش ٹٔاری‘‘ تبصرہ

June 13, 2025
کالممضامین

حیوات الحیوان —۔علم، ادب اور فطرت کا حیرت انگیز مرقع تبصرہ

June 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?