سائرہ الفت
انسان جب کسی چیز کی تخلیق کرتا ہے تو اُسے اس چیز کا پورا علم ہوتا ہے کہ کس چیز کے کتنےفائدے ہیں اور کس چیز کے نقصانات۔ یہ تو ایک انسان کی ہی تخلیق ہوتی ہے جو بے جان چیز ہوتی ہے لیکن پروردگار نے تو ہمیں ایک جان دی ہے جس میں ایک دل و دماغ بھی رکھا ہوا ہے۔جس میں سوچ و فکر اور تدبر کا مادہ موجود ہوتا ہے،گویا انسان کی زندگی میںایک پورا عالم ہے کہ کون سی چیز ہمارے لیے فائدہ مند ہے اور کون سے نقصان دہ۔ چنانچہ جن چیزوں سے ہمیں اللہ نے روکا ہے، بعض اوقات ہم وہی چیز کرتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ انسان اپنی من مانی کر کے گھاٹے کا سودا کرتا ہے، اس کو لگتا ہے کہ میں شاید آزاد نہیں ہوں اور جب وہ اپنے خالق کی بندشوں کو آزادی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا ہے۔دینِ اسلام نے ہمیں ولادت سے مرنے تک سب کچھ سکھا کےرکھا ہے،کسی چیز پر نرمی کا حکم دیا گیا تو کسی چیز پر سختی کا حکم دیا گیا، لیکن ہم خود اس میں رد بدل کرتے رہتے ہیں۔اسلام میں یہ اس چیز پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی غیر مرد سے نرم لہجے میں بات نہ کریں کیونکہ اگر اس کے دل میں کوئی مرض ہو گا، نرم لہجہ دیکھ کر ان کا وہ مرض بڑھتا جائے گا اور یہ بھی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں ایک اکیلی لڑکی اور لڑکا ہوتا ہے، وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم غیر مردوں کو گھر میں لاتے ہیں، انہیں اپنی فیملی کا حصہ بناتے ہیں اور ان کو اپنے گھر کے مسائل میں بھی داخل کراتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ہمارے گھر کے ہر ایک راز سے باخبر رہتے ہیں اور ان کی نظر ہماری بہن بیٹیوں پر ہوتی ہے،جس کے زیادہ تر منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ذرا غور کیجئے ، اس چیز کا موقع ہم انہیں خود فراہم کرتے ہیں اور اپنے ہی گھر میں اپنی بہن بیٹیوں کی عزت کو کھو دیتے ہیں۔ نہ صرف کنواری لڑکیوں کی بلکہ ہماری معاشرے کی شادی شدہ خواتین پر بُرے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ظاہر ہے بیشتر لوگوں کے یار دوست ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے ہیں،ایک دوسرے کی بیویوں سے بھی ملتے رہتے ہیں،لیکن سبھی دوست مومن نہیں ہوسکتے ہیں۔ان میں سے کچھ گندے کیچڑ سے بھی بدتر ہوتے ہیں،جن سے ہماری عورتوں کی زندگی برباد ہو رہی ہے۔بلاشبہ ذمہ دار ہمارے گھر والے ہی ہیں۔ ایک لڑکی کے لئے اس کا محافظ صرف اس کا سگا بھائی اور باپ ہی ہو سکتا ہے، ان کے دوست نہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی آپ کی نظر میں یہ بات آئی ہوگی کہ کس طرح عرفان امہ لڑکی کی ٹکڑے کئے گئے، وجہ صاف ہے کہ ہم ہر ایک انسان پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنی بہنوں بیٹیوں کی عزت خود اپنے ہاتھوں سے برباد کرتے ہیں۔ اپنے گھر کی عورتوں کو ہر کسی غیر محرم سے بچا کے رکھنا چاہئے، چاہے وہ دیندار ہو یا بے دین، کیونکہ یہ واقعہ بڑا مشہور ہےکہ ایک گاؤں میں برصیصا نامہ ایک شخص تھا ،جو بڑا ہی قابل اور دیندار آدمی تھا۔ برصیصا عبادت گزار شخص تھا، اس نے چالیس سال ایک ہی جگہ پر عبادت کی تھی، یہ شخص اتنا پاک دامن انسان تھا کہ اس پر کوئی بھی بھروسہ کر سکتا تھا ،اسی طرح اس پر بھروسہ اُن بھائیوں نے بھی کیا جن کو جہاد پر جانا تھا ، اُن کے گھر میں ایک اکیلی بہن تھی، اُن کو یہ مناسب نہ لگا تھا کہ اُن کی بہن گھر میں اکیلی رہے ۔وہ برصیصا سے ملے اور انہیں اپنی بہن کا رکھوالا بننے کی التجا کی۔اور کہاکہ ہم کسی اور پر بھروسہ نہیں کرسکتے،اورہم آپ کی پاکدامنی اور آپ کے عالم ہونے کی گواہ ہیں۔ لیکن برصیصا نے نہیں مانا۔ انہوں نے ان دو بھائیوں سے کہا کہ کہ جہاں پہ ایک مرد اور ایک عورت ہوتی ہے، وہاں پر تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔لیکن وہ اصرار کرتے رہے ۔یہاں تک کہ برصیصا نے حامی بھرلی۔
برصیصا ایک دن عبادت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کو اچانک سے یاد آتا ہے کہ مجھ پر تو اس لڑکی کی ذمہ داری ہے۔ کیا پتہ اُس لڑکی کے پاس کھانا ہوگا یا نہیں؟ تو برصیصا اس کے گھر کے پاس گئے، دروازہ پر ہی کھانا رکھا اور چلے آئےاور پھر عبادت میں مشغول ہوئے لیکن شیطان نے اُسے وسوسے میں ڈال دیا ،ورغلایا،بہکایا اور وہ سوچنے لگا کہ آیا اس لڑکی نے کھانا اُٹھایا ہوگا یا نہیں !چنانچہ برصیصا دوبارہ وہاں گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ،وہاں پہ پہلی دفعہ لڑکی سے ملاقات ہوئی اور پھر سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ وہ قریب آتے گئے، اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ زنا کے مرتکب ہوگئے ۔ پھر جب لڑکی حاملہ ہوگئی تو برصیصا نے اپنی عزت بچانے کے لئے اُس کاقتل کردیااوراس طرح اپنی عمر بھی کی عبادت و ریاضت اور پاکدامنی کو خود ہی غارت کرگیا،نہ دین کا رہا اور دنیا کا رہ گیا اور بالآخر اس لڑکی بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہوکر رُسوا ئے زمانہ بن گیا۔یہ واقعہ بھی ہمارے لئے عبرت حاصل کرنے کا درس دیتا ہے۔لہٰذا جہاں ہمیں اپنی بہن بیٹیوں کا خود محافظ بننا چاہئے وہیں دینِ اسلام کے احکام و قواعد کے تحت اپنے گھروں کا ماحول بنانے کی اشد ضرورت ہے۔