سرینگر//90کی دہائی میں اسلحہ کی تربیت حاصل کرنے پاکستان کے زیر انتظام کشمیرچلے گئے نوجونوں کو واپس لانے کی غرض سے اگرچہ سال2010میں عمر عبدا للہ کی سربراہی والی سرکار نے ایک بازآباد کاری پالیسی کا علان کیا اور اس پالیسی کے تحت اگرچہ سینکڑوں افراداپنے بیوی بچوں سمیت واپس اپنے آبائی گھر لوٹ آے لیکن 6برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ایسے افراد کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آسکا ہے۔ایسے افراد کو نہ ہی اپنوں نے اپنایا ہے اور نہ ہی سرکار نے کہیں بسایا اور ایسے میں یہ لوگ بے یارومدد گار ہو کرذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ایسے لوگ معاشی ،مالی اور سماجی بدحالی کا شکار ہیں اور کہتے ہیں کہ سرحد پار سے واپس لوٹ آنا اُن کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ سرحد کے اُس پار اُن کی زندگی آرام سے گزر رہی تھی، وہاں سماج میں عزت تھی، مالی حالت بھی ٹھیک تھی، لیکن یہاں آکر نہ صرف وہ دانے دانے کے محتاج ہیں بلکہ انہیں نہ ہی اپنے اپنا رہے ہیں اور نہ سرکار ایسے افراد کیلئے کوئی بہتر اقدمات کررہی ہے ۔واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے2010میں بڑے جوش وخراش کے ساتھ اس بات کااعلان کیا تھا کہ سرحد پار مقیم نوجوانوں کی گھر واپسی کیلئے باز آبادکاری پالیسی ترتیب دی گئی اور انہیں عزت سے گھر واپس لاکر ان کی بازآبادکاری یقینی بنائی جائے گی ۔ ان سابق جنگجوئوں میں سے کئی ایک کی بیویاں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں جو چا ہ کر بھی اب اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کو ملنے نہیں جا سکتیں کیونکہ ان کنبوں کو سرکار کی جانب سے نہ ہی روٹ پرمٹ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ویزا۔ایسے افراد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ خبر سنی کہ ریاستی سرکار سرحد پار گئے نوجوانوں کو واپس لانے کیلئے باز آباد کاری پالیسی شروع کر رہی ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ رہا۔ اس دوران اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے لئے کئی کنبے بے چین ہوگئے ،کئی ایک نے آنے کیلئے وہاں ہی درخواستیں جمع کیں اور پھر کچھ نے نیپال کے راستے اور کچھ ایک نے دیگر علاقوں سے غیر قانونی طور سرحد پار کر کے اپنے آپ کو سیکورٹی ایجنسیوں کے حوالے کر دیا۔ایسے افراد کا کہنا ہے کہ یہاں آکر انہیں اپنے گھر میں رہنے کی اجازت تو دی گئی لیکن نہ ان کی باز آباد کاری کیلئے سرکار کی جانب سے کوئی بھی اقدام کئے گئے اور نہ ہی سماج میں انہیں وہ عزت وقد رمل رہی ہے جس کے وہ حق دار تھے۔ایسے لوگوں کے بچوں کی جہاں تعلیم متاثر ہو رہی ہے بلکہ راشن کارڈ ، شناختی کارڈ اور آدھار کارڈ سے بھی ایسے لوگ محروم ہیں۔ ظہور احمد سلطان نامی ایک ایسے شہری کا کہنا ہے’’ ہم مہاجر پاکستان میں نہیں تھے بلکہ یہاں آکر مہاجر ہو گئے ہیں اور ہماری حالت پر کوئی بھی رحم نہیں کھا رہا ہے‘‘ ۔ظہور کے مطابق موجودہ سرکار نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ اُن کی باز آبادکاری کی جائے گئی جس سے اُن کی حالت میں سدھار آئے گا لیکن سدھار آنے کے بجائے ہم مزید مشکلات میں پھنس گئے ہیں‘‘۔ظہور کہتا ہے کہ اگر سرکار کچھ نہیں کر سکتی توانہیں ایسے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کاکوئی حق نہیں بنتاہے۔پلوامہ کے ایک سابق جنگجو نے سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب باز آباد کاری پالیسی کا علان ہوا تو وہ بھی 2013میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی رہنے والی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ اپنے اصل گھر لوٹ آیا،مگر یہاں اُس کی حالت بھی پتلی ہو چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بازآباد کاری کیلئے کئی بار سرکاری وزراء کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن وہاں سے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا اور اب حالت ایسی ہے کہ وہاں سے آنے والے لوگ یہاں آکر بے گانگی کے احساس میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔محمود نامی ایک نوجوان، جو کچھ برس قبل کیرن کے راستے سے اپنے آبائی گھر آیا ہے،بھی اب یہاں در درکی ٹھوکریں کھا رہا ہے ۔اگرچہ وہاں سے آنے کے بعد کچھ وقت تک اُسے اپنوں نے سہارا دیا اور اپنے خاندان میں شادی کرائی لیکن اب اُس کیلئے بھی بچوں کا پیٹ پالنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے اور ایسے میں وہ مزدوی کر کے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔محمود کا کہنا ہے کہ کبھی مزدوی ملتی ہے اور کبھی نہیں ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 90کی دہائی یا اُس کے فوراً بعد وادی سے 4587نوجوان لائن آف کنٹرول عبور کر کے اسلحہ کی تربیت حاصل کرنے کیلئے پاکستانی زیر انتظام کشمیر چلے گئے تھے ،جن میں سے سرنڈر اور بازآبادکاری پالیسی کے تحت 2003سے 22مئی 2016تک 489نوجوان اپنے بیوی بچوں سمیت نیپال اور دیگر راستوں سے واپس کشمیر لوٹ آئے۔سرکاری ذرائع کے مطابق 2010میں 29سابق جنگجو اپنے بیوی بچوں سمیت وادی لوٹ آئے جبکہ2011میں54جنگجو، جن میں سے16سابق جنگجوئوں نے اپنے بیوی بچے بھی ساتھ لائے تھے،واپس لوٹ آئے۔اسی طرح 2012میں150سابق جنگجو پاکستان یا اس کے زیر انتظام کشمیر سے غیر قانونی طور وادی واپس لوٹ آئے جن میں سے 90جنگجو اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔سال2013میں 2سابق جنگجو اپنے کنبہ سمیت غیر قانونی طور واپس لوٹ آئے۔اسی طرح 2014،2015اور2016میں تاحال 254جنگجواپنے بیوی بچوں کے ساتھ وادی واپس لوٹ آئے ہیں۔