ممتاز میر
ملت کی اصلاح کرنے والے ،اسے خبر دار کرنے والے ،اس کا شعور بیدار کرنے والے حضوراکرم ؐ کے بعد ہی سے وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں۔جیسے خلافت راشدہ جب ملوکیت میں تبدیل ہوئی توصرف آٹھ دہائیوں بعد عمر بن عبد العزیز ؒنے اسے دوبارہ راہ راست پر لادیا۔اور اس کی قیمت انھیں اپنی جان سے چکانی پڑی۔گو کہ ان کا دور حکومت بڑا مختصر تھا مگر اثرات بڑے دور رس تھے۔بالکل یہی کام اُن سے پہلے حضرت امام حسین ؓ بھی کر چکے تھے۔اسی طرح امام غزالی ؒ ہیں، امام ابن تیمیہؒ بھی ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی ہیں ، سلطان رکن الدین بیبرس بھی ہے جس نے منگول آندھی کا رخ پھیر دیا تھا،مگر اورنگ زیب کے بعد ملت کو کوئی ایسا لیڈر میسر نہ آسکا جو اس کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے حسب موقع کام لے سکتااور تبھی سے امت مسلمہ زوال کا شکار ہے ۔اُمت مسلمہ میں انتہا درجے کی بے چینی پھیلی ہوئی ہےاوراب ملت کے ہرذی حِس فرد کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہم میں غیر معمولیpotential پوشیدہ صلاحیتیں ہیں،لامحدود امکانات ہیں۔اللہ نے ہمیں ان صلاحیتوں سے لبا لب بھرا ہوا ہے ۔بس اس potential ان امکانات سے کام لینے والا کوئی نہیں ۔یہ کام رہنما کرتا ہےجو ہیں بھی تو اُن میں عزم و ہمت اور حوصلے کا فقدان ہے۔ان کوخود اپنے اندر موجود پوشیدہ صلاحیتوں کا کما حقہ شعور نہیں۔غور کریں!جب منگول عباسی خلافت کو روند چکے تھے،دنیا پر اپنی قوت،ہیبت اور وحشت کا سکہ بٹھا چکے تھے۔ایسے حالات میں مصر کا سپہ سالار رکن الدین بیبرس دنیا کا واحد آدمی تھا جو کہتا تھا کہ میں منگولوں کو شکست دوں گا۔آج امریکہ اور افغانستان کا قصہ سمجھ لیں۔امریکہ بھی روس کا افغانستان سے جانا نا ممکن سمجھتا تھا۔بیبرس بھیس بدل بدل کر منگولوں کے لشکر میں جا گھستا اور ان کے طریقۂ جنگ کا مطالعہ کرتا اور پھر اس کے جواب کے لئے اپنے لشکر کو تیار کرتا ۔یہ ہوتا ہے لیڈر جسے اپنے ماتحتین کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ ان سے کام لینا جانتا ہے ۔وہ یہ اس وقت کر رہا تھا جب بغداد میں ایک نہتی منگول عورت ۳۰۔۳۰ مسلح سپاہیوں کو گرفتار کر رہی تھی ۔اسی وقت مصر کے سپاہیوں نے بیبرس کی کمان میں لڑ کر منگول لشکر کو شکست فاش دی تھی۔یہ تھا مسلمانوں کا اپنے لیڈر کے زیر کمان پوٹینشیل۔آج بھی ہے مگر افسوس صد افسوس! اس کا شعور موجودہ مسلم حکمرانوں کو نہیں۔اس کے باوجود نہیں کہ افغان فاقہ مستوں نے ۳۰ ؍۳۵ سال میں دو سپر پاوروں کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔اس کے باوجود نہیں کہ گزشتہ۳۷ سالوں سے اپنے خول میں بند اور چپ چاپ رہنے والے ایران نے دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد ،سب سے بڑے مغرور کی رعونت کو مٹی میں ملا دیا ان کی رعونت کا عالم یہ تھا امریکی صدر سے وہ غلاموں کا سا برتاؤ کرتے تھے جبکہ سارے عرب امریکی صدر کو سجدہ کرتے ہیں۔یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے سعودیوں کے تعلق سے کہا تھا کہ اگر ہم دو ہفتے ان کی پشت پر کھڑے نہ رہیں تو ان کی حکومت نہ رہے گی۔۱۲ دنوں میں ایران نے جو کیا ،اس نے دنیا کے ہی نہیں ٹرمپ کے بھی ہوش اڑادئے۔ورنہ یہ دوغلے اتنی شرافت سے سیز فائر کی بات کرتے اور آخری وقت تک ایران کے طمانچوں کو برداشت کرتے ۔سیز فائر کے نام پر آج تک جو اسرائیل کرتا آیا ہے وہ اس بار ایران نے کیا۔اگر ایران یا اور کوئی مسلم ملک مار کھا رہا ہوتا تو یہ سیز فائر کرتے کرتے آدھا ملک تباہ کروادیتے اور باقی آدھا ملک باز آبادکاری کے قرضوں میں گروی رکھ لیتے۔حیرت کی بات یہ کہ ٹرمپ نے چند ہفتوں میں دوبار منہ کی کھایا ہے۔پھر بھی اربوں کھربوں کا اسلحہ جمع کرنے والے اسرائیل یا امریکہ سے ڈرتے ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس آب وگل کے بنے ہوئے ہیں۔ہمارے مطالعے کے مطابق آب وگل بھی اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ہمارے نبیؐ نے تو کئی بار فاقہ کشی کی حالت میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو پچھاڑا تھا،تو کیا یہ ان کی اولاد نہیں ہیں؟نہیں! یہ ہے تو ان کی ہی اولادیںمگر خود نبیؐ کے قول کے مطابق انھیں وہن کھا گیا ہے ۔اب انھیں موت سے کیا اپنی عیش وعشرت کے چھن جانے سے ڈر لگتا ہے ۔محل تو محل ہیں انھوں نے مسجدوں کو بھی عیش گاہوں میں تبدیل کردیا ہے۔مسلمانوں کی مسجدیں جفا کشی کی تربیت گاہیں ہوا کرتی تھی۔اب مسجدیں قالینوں اور ائر کنڈیشنوں کے ساتھ عیش گاہوں میں تبدیل ہوگئیں ہیں۔ بے وقوف عوام بھی خوش کہ واہ مسجدوں میں کیا شاندار انتظام کیا جا رہا ہے ۔کوئی نہیں سوچتا کہ حریت پسندی کو عیش پرستی میں ڈھالا جا رہا ہے۔
ان تمام خامیوں کے باوجود امت مسلمہ میں غضب کا پوٹینشیل ہے ۔ارطغرل ہو یا عثمان بنیادی طور پر یہ خانہ بدوش چرواہے تھے ۔انھیں رہنے کے لئے مستقل جگہ چاہئے تھی۔انھوں نے اپنے اور اپنے لوگوں کے اندر موجود امکانات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا،گو ان کے پاس نہ ڈھنگ کے ہتھیار تھے نہ بہترین لڑاکا سپاہی ۔مگر عزم تھا ہمت تھی حوصلہ تھا، جرأ ت تھی۔انھوں نے ایک ترک ریاست کا خواب دیکھا۔اللہ نے ان کی نیت اور محنت کو دیکھتے ہوئے ریاست کیا، انھیں وہ سلطنت عطا کی جو ۳ براعظموںپر پھیلی ہوئی تھی۔اب آج کے ترکوں کو دیکھئے۔ اب یہ جانباز نہیں بنئے بن گئے ہیں۔جدید ترین ہتھیاروں کے ڈھیر لگا رہے ہیں مگر لڑنے کے لئے نہیں ،بیچنے کے لئے۔روز انہ اخباروں میں خبر شائع ہوتی ہے کہ فلاں ملک نے اتنے فائٹر جیٹ کا آرڈر دیا ہے،فلاں ملک نے اتنے ٹینک خریدے اور فلاں نے اتنے ڈرون۔لگتا ہے یہ بھی دو ملکوں کو لڑا کر ہتھیار بیچنے لگے ہیں۔جیسے آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ۔ان کے ڈرونوں نے کئی جنگوں کا پانسہ پلٹ دیا ہے،مگر ان میں کسی پر حملہ کرنے کا دم نہیں ۔بس ۲۴ نومبر ۲۰۱۵ کو امریکہ کے اچکانے پر روس کا جنگی جہاز مار گرایا تھا۔یعنی صلاحیت تو ہے ہمت نہیں۔ابھی چند ہفتے پہلے تک ہزار خامیوں کے باوجود ترکی عالم اسلام کا لیڈر بنا ہوا تھامگر حالیہ چند ہفتوںمیں پاکستان اور ایران مسلم قیادت کے افق پر ابھر آئے ہیں اور اردگان میاں face saving کے لئے ثالثی ثالثی کھیل رہے ہیں ۔ایران اسرائیل جنگ اردگان کے لئے اپنے آپ کو ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا مگر مال کی ہوس نے ترک جانبازوں کو بنیاء بنا کر رکھ دیا ہے۔
کیا کہیں ؟ کس کس کا رونا روئیں؟اللہ نے اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی دشمنوں کے دلوں میںاس امت کا خوف کچھ نہ کچھ تو رکھاہی ہے۔اگر ترکی اور پاکستان بھی اس جنگ میں کود پڑتے اور ایران کی طرح امریکہ کے ایک آدھ فوجی اڈے کو تباہ کردیتے تو امریکہ کا حال بھی اُس باکسنگ چیمپئن کی طرح ہوتاجو ہمیشہ un beaten رہتا تھا مگرفریق مخالف کاایک گھونسہ اسے ہمیشہ کے لئے باکسنگ چھوڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔صرف اسلئے کہ اسے یہ اندیشہ ہی نہیں ہوتا کہ کوئی اسے مار بھی سکتا ہے۔عالم اسلام کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اب امریکہ کے دن گنے جا چکے ہیں اور واپسی کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے ۔ کاش مسلم حکمران اس بات کو سمجھ سکتےاور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے۔
رابطہ۔7697376137
[email protected]>