اس کارگۂ حیات میں کوئی آسمان سر پر کیوں نہیں اٹھاتا کہ فن ِشیشہ گری کے زمانے اور بے حسی کے جہاں میں جب امن و سکون اور آشتی کی سرحدیں مسمار ہوچکی ہیں ،ہر طرف بدامنی اور بے چینی کا عالم بپا ہے،کہ یہ حالت زار دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ خاص کر مسلم ممالک کے خلاف ہر ایک زور آور قوم اور ملک برسرپیکار ہے ۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف انتشار،بگاڑ،افراتفری،نفاق،نفرت اور منافرت کی بدبوہے۔ دوستی کے عوامل،رشتہ ناطوں کا جوڑ،خلوص و پیار محبت کا بندھن،انسانی برادری، انسانی رواداری،شرافت حقیقی وغیرہ کی معنویت ہمارے ذہنوں سے مٹ ہی گئی ہے ۔ لہٰذا انسانیت لاچار ہے ،احساس زیاں کوتاہ بینی کے ہاتھ یرغمال ہے، عدل وانصاف ناپید ہے ،بے سروسامان اور بے یارو مددگار لوگ انصاف انصاف کی دہائیاں دے ر ہے ہیںمگر سنتا کون ہے ؟ غرض آج کل عقل و شعور ہی غائب نہیں بلکہ دل کے تقاضوں کی جانب بھی عدم توجہی ہے۔ چین و سکون اور امن و آشتی ناپید ہونے کی ایک یہ وجہ بھی ہے کہ مادہ پرستی کے ترقی کے اس دور میں امراء و روساء سادہ لوح اور مجبور انسان کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیںکیونکہ ان پر دولت کی بھوک اور کر سی کا نشہ حاوی ہے ، یہاں تک کہ اپنے اپنے دائرے میں یہ درندہ خصلت انسان کمزوروں، شریفوں اور مظلوموں پر حکمران وآقابنے نظر آرہا ہے ۔یوں احترام آدمیت سے زندگی کاسارا قافلہ عاری ہوتا جارہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ زورازوری کا عالم یہ ہے کہ انسان انسان سے، بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے، ، بیٹا باپ سے، میاں بیوی سے بات بات پر لڑتا جھگڑتا ہے۔اُدھرالم ویاس وقنوطیت اور غم وحزن کا پت چھڑ زندگی کے گلشن کو الگ سے اُجاڑر ہا ہے جب کہ انسان نما گدھ پر پھیلائے اپنے بے دست وپا شکار کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ۔ ہنددستان میں اس کی ایک مہیب شکل قومی انتشار ، سماجی عدم مساوات ، اخلاقی بگاڑ، معاشی ناآسودگی اور آدم خورانہ ذہنیت کا فروغ ہے جو سرکاری چھتر چھایہ میں بڑی تیزی سے گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارے کی روایات کو نوچ کھارہی ہے۔ کشمیر میں اس کی بدنمائی قتل و خون کاتسلسل ہے ۔ انسانی ذہن خلش اور تناؤ میں جکڑا ہوا ہے، سکون بے ثباتی اور بے قراری اور دیگر مشکلات نے ہر انسان کو گھیرا ہوا ہے۔ سماج میں مختلف جرائم خود رو پودوں کی مانندجنم لے رہے ہیں، ڈکیتی، چور بازاری، رشوت، کورپشن، دھوکہ بازی، عیب جوئی، بغاوت، چغل خوری، منافرت اور دوسرے رذائل عروج پر ہیں، فیشن کی آڑ میں جنسی بے راہ روی، برہنگی، اور اغواء کاری اور نفسیاتی پریشانیوں نے اپنا جال بچھا دیا ہے ، مادہ پرستی اور خود غرضی میں پڑ کر انسان اپنے ہی ہم جنس کا گلا گھونٹ رہاہے ، طاقت ور قومیں کمزور قوموں کو دبا رہی ہیں، جنگ وجدل عام ہے ۔ بے شک ایسے میں دونوںفرشتہ صفت انسان بھی نظرآتے ہیں شیطان خصلت ا فراد بھی،درویش صفت منش بھی یا کم ظرف عیار بھی ۔ ہمارے سماج میں سنجیدہ ذہن کا مالک ہر وکیل ہو یا لیڈر، عالم ہویا سیاستدان، ڈاکٹر ہویا انجینئر، استاد ہو یا طالب علم، شہری ہو یا دیہاتی ،وہ زندگی کے اس رنگ روپ پر نوحہ خواں ہے اور قریہ قریہ مرثیہ کر رہا ہے کہ چین لٹ گیا سکون چھن گیا کہ زندگی خوف و خطر اور اندیشوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
اور ہاں!اس نگری کے نامساعدحا لات میں اُلجھے انسان بے ہنگم زندگی کی بھول بھلیوں میں ہے کہ شرم وحیا،ندامت،عجزو انکساری احساس، صدق و صفا نام کی قدریں اسے بے قیمت لگتی ہیں۔ اس لئے یہ مثل " تنگ آئے ہیں ہم امیری سے اٹھالو پاندان اپنا" کے مصداق میں سب چہروں پر ناامیدی ہی ناامیدی چھائی ہوئی ہے۔ خون آشام ماحول انسان کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح طواف کررہا ہوتو آزادی کی سانسیں لینے کی فرصت کہاں ملے؟ قیامت یہ کہ ا س جہنم زار میں بہ بانگ دہل جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، جمہوری اقدار کے نام پر فوج،اسلحہ اور بارود کی بدبوئیں پھیل رہی ہیں ۔ فکر کی آنکھ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہواور دل کی دھڑکن پابہ زنجیرہو ، تو کیاا سے چین سے جینا کہیں گے؟ اس نگری میں جہاں رنگ برنگے پھول اور غنچہ کی چٹک اور پھول کی مسکان اور خوشبو ئیں ہیں مگر اب پھول وقت سے پہلے مرجھاجاتے ہیں کہ یہ چمن رونقوںسے خالی پڑتا جارہا ہے ۔بقولِ ظفر گورکھپوری ؔ ؎
سلطنت، فوج، اسلحہ، بارود
مجھ کو تجھ سے یہ سب نہیں درکار
میری دھرتی کو چاہئے خوشبو
میرے آنگن کو رنگ کی بوچھار
میں نہیں کہتا تو میری خاطر
آسمان اک نیا فراہم کر
جی سکو ںزمین پہ عزت سے
ایسی آب وہوا فراہم کر
یہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے کہ سیاست کے پیچ وخم میں اور اس کی زلفوں میں نہ وہ آب و تاب ہے اور نہ ہی وہ گرمیاں اور شوخیاں… اور حکم حاکم مرگ مفاجات کے کا سلسلہ یوں چل رہاہے کہ مورکھ حکم چلاتے ہیں ، بے چاری عام جنتا پسی جارہی ہے ، اعلیٰ و ادنیٰ ہی نہیںمتوسط طبقہ بھی اس حال سے بے حال ہے ۔ اس نگری میں یہ کیفیت ہورہی ہے کہ ہر شخص پریشاں سا ہے اور بلک بلک کر روئے بقولِ حبیب جالبؔ زمانے کا یہ نوحہ پڑھے ؎
اونچے اونچے ایوانوں مورکھ حکم چلائیں
قدم قدم اس نگری میں پنڈت دھوکے کھائیں
دھرتی پہ بھگوان بنے ہیں دھن ہے جن کے پاس
کل تک تھا جو حال ہمارا حال وہی ہے آج
جالب اپنے دیس میں سکھ کا محال وہی ہے آج
پھر بھی موچی گیٹ پہ لیڈر روز کریں بکواس
گویا سلطانی جمہور کے زمانہ میں نقش کہن مٹا کے بھی اس نگری اور میری دنیا کے لوگ اداس ہیں مایوس اور رنجیدہ خاطر اور حیرت زدہ بھی ہیں،ہر طرف ویرانی سی ویرانی چھائی ہوئی ہے اور خوف ودہشت کا ماحول بنا ہے۔ زندگی کا قافیہ تنگ ہو کر رہ گیا ہے، لوگ گھر سے بے گھر نڈھال ہیں اور دشت دیکھ کے بھی اپنا گھر یاد نہیں آتا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایک طرف حضرت انسان نے کائنات کے راز منکشف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی ہے، دوسری جانب الیکٹران،پروٹان،نیوٹران، یورینیم،اور نیوکلیس کے منہ میں پڑ کر خود کے لئے بے شمار زہریلے مادے تیار کر کے انسانی زندگی کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، یورینیم اور ایٹم نے سانٹھ گانٹھ کر کے انسانی زندگی کو داؤ پر لگا کر لاجواب کیا ہوا ہے ۔ لوگ ورطۂ حیرت میںہیں کہ سائنسدان خود بھی پراگندہ حال ہیں کہ یہ شائد سائینس کی اتنی ترقی کیوں ہوئی ہے ، سائنسی انقلاب کس کام کا ؟اب توایٹم کے بل میں ایسے زہریلے مادہ تیار ہوئے کہ ایک ہی مشت میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم جیسے مہلک اور خطرناک ہتھیار ایجاد کئے جس سے نہ صرف عالم انسانیت کو قیامت کبریٰ جیساخطرہ لاحق ہے بلکہ ان کے استعمال سے چشم زدن میں سے کرہ ٔارض پر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں محال ہوگا ۔ اس بیچ ہر فرد بشر ذہنی دباؤ، انتشار،بدامنی، بے چینی اور عدم سکونی بے یقینی کا مریض بن چکا ہے اور اس مشینی حکومت کا بقولِ علامہ اقبال ؔحال یہ ہے ؎
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
انسانی دنیا میں چین وسکون کی نعمت غائب کرنے کے پیچھے کئی اور محرکات ہیں ۔ اس سلسلے میں یورپ کی وہ قومیں اور ممالک اولین ذمہ دار ہیں جو اپنے کلچر اور ترقی کو ایڈوانسڈ مانتی ہیں اور جن سے دنیا مرعوب ہوکر ان کی کھلے عام تعریفیں کررہی ہیں ۔اصلاً دیکھا جائے تو یہاں مادی ترقی کے چکاچوند محلات کے سائے میں تہذیبی خرمستیاں ہیں، اباحیت پسندی ہے ، فحاشیت کا زورہے ، بے ا طمینانیوں کی حکمرانی ہے ،من مانیاں اور رسہ کشیاں ہیں، نفسانفسی کا عالم ہے کہ اس مرہم معجون میں بے چینی حد سے تجاوز کرگئی ہے اور سکون بے چارہ کوہ بیابانوں میں جا چھپا ہے کہ زندگی خودایک پہیلی بن گئی ہے۔اس خر خشے میں ہم لوگ نہ اَدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ اب مسیحا بن کر آئے کون آئے جب کہ حال یہ ہو ؎
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
…………………
رابطہ/7298430453