پرویز مانوس
وحیدہ نے فجر کی نماز ادا کرکے دْعا مانگ کر آمین کہا اور مصلیٰ تہہ کرکے طاق پر رکھ کر کھڑکی کا پردہ سرکایا تو باہر پرندوں کی چہچہاہٹ سْن کر مسحور ہوگئی۔ کیا دیکھ رہی ہو؟ اکرم نے بیڈ پر دراز ہوکر پوچھا-
دیکھو تو پرندوں کی کتنی سْریلی آوازیں فضا میں گونج رہی ہیں، آج سامنے کے پیڑ پر طوطوں کی ایک جوڑی بھی بیٹھی ہے۔ بالکل ہماری طرح، جیسے ہم دونوں پچھلے کئی برس سے دُنیا کے درخت کی اس ٹہنی پر ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔
ارے…! میں کب سے بولے جارہی ہوں اور تم ہو کہ چْپ چاپ اس بیجان کلینڈر کو گھور رہے ہو- وحیدہ نے نحیف آواز میں کہا-
دیکھ رہا ہوں کہ ہماری زندگی بھی اسی کلینڈر کی طرح ہوگئی ہے، ہر سال گزرنے کے بعد جس طرح اسے ردی میں پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح آ?ج کی اولاد بھی اپنے والدین کو در در بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے .
آج سات اپریل ہے نا؟ اکرم نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے کہا-
ہاں تو؟ سات اپریل کو کیا خاص ہے؟ آپ کو کسی تقریب میں جانا تھا کیا؟
وحیدہ نے اْس کے پیروں کی جانب بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا-
اکرم نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا” ارے نہیں…! لاکھ کوششیں کرنے کے باوجود پْرانی یادیں پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں، سچ میں تجھے کچھ یاد نہیں ؟
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یاداشت بھی کم ہوتی جاتی ہے، کیا خاک یاد رہے گا ،وحیدہ نے ادویات کے ڈبے سے ایک ٹکیا نکال کر ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا،،
اری …! آج اپنے ساحل کی سالگرہ ہے -اکرم نے چشمہ اتار کر گیلی آ?نکھیں ملتے ہوئے کہا۔
“ارے ہاں …….!!! آج ہی کے دن تو ساحل اس دنیا میں آ?یا تھا، میں بھی کتنی بھْلکڑ ہوں” وحیدہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، اور اچانک اْس کی آنکھوں کے سامنے گھر کے آ?نگن میں ننھے ننھے قدم اْٹھاتا ہوا ساحل رقص کرنے لگا –
اکرم اور وحیدہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا گھر شہر کی سرحد پر واقع تھا، جہاں وہ اپنی زندگی کے کئی سال گزار چکے تھے۔ اکرم سرکاری ملازم تھا اور وحیدہ ایک گھریلو خاتون۔ ان کی تین اولادیں تھیں ،دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ ساحل، جو سب سے چھوٹا تھا، اُسے وحیدہ اور اکرم نے پیروں، فقیروں اور درگاہوں میں منتیں مانگ مانگ کر حاصل کیا تھا۔ ساحل اپنی بہنوں سے پندرہ برس چھوٹا تھا۔ دونوں بیٹیوں کی شادی وہ اپنی محدود وسائل میں کر چکے تھے اور اب ان کی ساری توجہ ساحل پر مرکوز تھی۔ ایک دن ساحل نے اکرم سے کہا-“اباجی…! کالج میں امتحان کا فارم بھرنا ہے اْس کے لئے کچھ رقم چاہئے – اکرم جو کچن گارڑن میں تھوم کی گْڑائی کر رہا تھا بولا،
” بیٹا اندر میری پتلون کے جیب سے لے لو، تھوڑی دیر کے بعد ساحل کمرے سے نکلا اور باپ سے کہنے لگا ابا جان میں نے بارہ سو روپے نکالے ہیں لیکن آپ کی جیب سے کچھ رسیدیں ملیں ،یہ کیا ہے؟ اکرم نے پسینہ پو نچھتے ہوئے کہا” بیٹا یہ اْس عمارت کی ہیں جو اْن لوگوں کے لئے تعمیر ہو رہی ہے جن بزرگوں کو اولاد گھر سے نکال دیتی ہے‘‘ تو ساحل نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا” کیا ایسی اولاد بھی ہے جو اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دے ؟‘‘
“بیٹا تو ابھی چھوٹاہے ان باتوں کو نہیں سمجھے گا، جا کالج دیر ہوجائے گی۔‘‘ رسیدیں ٹیبل پر رکھ کر ساحل لکڑی کے گیٹ سے نکل کر کالج کی جانب چل پڑا۔
وحیدہ اور اکرم بے حد خوش تھے کہ ساحل نے گریجویشن مکمل کرلی – وحیدہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا رتھا کہ یہ وہی ساحل ہے جو کل تک چھوٹا سا بیگ لٹکائے باپ کی انگلی پکڑ کر اسکول جاتاتھا –
گریجویشن کرنے کے بعد اکرم نے ساحل سے پوچھا، بیٹا آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے، تو ساحل نے کہا” ابّا جان آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میری طرح کتنے ہی نوجوان اعلی تعلیم حاصل کرکے بے روزگار بیٹھے ہیں، سرکوری نوکری پر تکیہ کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے، اس لئے میں سوچتا ہوں کوئی اچھا سابزنس شروع کروں۔ آج کروں گا تو آہستہ آہستہ اسٹیبلش ہوجاوں گا، بیٹا میں بھی یہی چاہتا ہوں، اچھی بات ہے۔
لیکن ابا جان اس کے لئے کافی رقم درکار ہے، اْس نے والدین کے سامنے یہ تجویز رکھی تو وحیدہ نے اکرم سے کہا ” دیکھو یہ تمام جائیدادآج بھی ساحل کی ہے اور بعد میں بھی، ہمارا کیا ہے اور کتنے دن ہیں زندگی کے، اس کی زندگی سنور جائے تو یہ ہماری روح کو سکون ملے گا ۔ جب یہ بات بیٹیوں نے سْنی تو وہ بھائی کے حق میں اپنے حصہ سے دستبردار ہوگئیںکیونکہ وہ اْن کا بہت ہی چہیتا تھا، پھر کافی سوچ بچار کے بعد اکرم نے زمین اور مکان کی رجسٹری ساحل کے نام کروادی جس پر بینک سے کافی سارا لون لے کر اْس نے کاروبار شروع کردیا۔ جب اکرم اور وحیدہ نے دیکھا کہ ساحل اچھا خاصا کمانے لگ گیا ہے تو انہوں نے اْس کی خواہش کے مطابق ساحل کی شادی ایک پڑھے لکھے رئیس خاندان کی لڑکی ریحانہ سے کر دی۔ریحانہ بڑے گھر کی ہونے کی وجہ سے تھوڑا تْند مزاج اور انّا پسند تھی، وہ ساس سسر کو کم تر اور خود کو برتر سمجھتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ بات وحیدہ کی سمجھ آنے لگی تھی لیکن وہ منکسرالمزاج تھی-
اکرم کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد گھر کے معاملات بدلنے لگے۔ تین سال اچھی طرح گزر گئے، ساحل کے ہاں چاند سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔
ایک روز ساحل کام سے لوٹا تو دیکھا گھر کے آنگن میں کچھ بزرگ کرسیوں پر بیٹھے چائے نوش فرما رہے ہیں۔ اُسے کافی ناگوار گزرا، اْن کے جانے کے بعد ساحل نے باپ سے بڑے تلخ لہجے میں کہا” ابا جی…! آپ نے اس گھر کو ہوٹل بنادیا ہے ہر ہفتے یہ لوگ یہاں آکر گپیں ہانکتے اور چائے پیتے رہتے ہیں، ریحانہ کو یہ سب اچھا نہیں لگتا – گھر کے کاموں سے ہی اْسے فْرصت نہیں اور آپ۔۔۔۔۔۔!
اکرم نے بیٹے کو بڑے تحمل سے سمجھاتے ہوئے کہا” بیٹا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی اولاد کے ٹھکرائے ہوئے ہیں، دل بہلائی کے لئے یہاں آتے ہیں، اگر تمہیں بْرا لگا تو آئندہ نہیں آئیں گے –
میں نے دیکھا ہے کہ آپ اکثر ان لوگوں کو عطیہ وغیرہ دیتے ہیں، ہمارے اپنے اخراجات کیا کم ہیں، ادھر دھندہ بھی مندا چل رہا ہے اور آپ ہیں کہ…!
اکرم اپنے مخصوص لہجے میں جواب دیتا، “بیٹا، یہ دنیا فانی ہے۔ اپنے سے زیادہ ضرورت مندوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘‘
ساحل کے اس رویئے پر وحیدہ حیران تھی لیکن مصلحتاً خاموش رہی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اکرم کا زیادہ تر وقت اپنے پوتوں کے ساتھ گزرتا۔ صبح انہیں اسکول بس تک لے جانا اور دوپہر کو واپس لانا اکرم کا معمول بن گیا تھا۔ لیکن گھر کے اندر حالات کچھ اور تھے۔ ریحانہ، جو تیز مزاج خاتون تھی، اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر وحیدہ سے بحث کرتی۔ وہ اپنے میکے سے آنے والے مہمانوں کے سامنے اکرم اور وحیدہ سے نوکروں جیسا سلوک کرتی۔ وحیدہ کو یہ سب برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر جب بھی وہ ساحل سے شکایت کرتی، وہ ہمیشہ اپنی بیوی کی طرفداری کرتا۔
“ماں! آپ کو ریحانہ کی ہر بات سے مسئلہ کیوں ہوتا ہے؟ وہ گھر کی ذمہ داریاں نبھاتی ہے۔”آخر وہ بھی اس گھر کی ذمہ دار فرد ہے، کوئی ملازمہ نہیں۔
یہ سْن کر وحیدہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے، لیکن وہ کچھ نہ کہہ پاتی اور سوچتی یہ وہی ساحل ہے، جس کے لئے وہ درگاہوں پر منتیں مانگتی پھرتی تھی۔
اکرم کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کا مزاج بھی سخت ہوتا جا رہا تھا۔ ریحانہ کی بدسلوکی اور ساحل کا لاپرواہ رویہ اسے سخت تکلیف دیتا۔ ایک دن جب ریحانہ نے اکرم سے بدتمیزی کی تو اکرم نے غصے سے ساحل سے کہا-
“بیٹے، میں نے تجھے آستانوں اور درگاہوں سے مانگ مانگ کر اس لئے لیا تھا کہ تو اپنے بزرگ والدین کی یوں بے عزتی کرے؟”
ساحل نے سرد لہجے میں جواب دیا،،
یہ آپ کی خواہش تھی ،آپ کو اپنے خاندان کا وارث چاہئے تھا-
“دیکھئے اگر آپ کو ہمارے ساتھ رہنے میں کوئی مسئلہ ہے، تو کہیں اور چلے جائیں۔
کہیں اور چلے جائیں؟ یہ تو کیا کہہ رہا ہے، میرا گھر اور میں ہی چلا جاوں، اکرام نے غْصے میں کہا تو ساحل بولا” جائیداد تو آپ پہلے ہی میرے نام کر چکے ہیں اور وہ میں نے اپنی ریحانہ کے نام کر دی ہے۔اب کیسا آپ کا گھر؟
واااااااااہ…! بہت اچھا کیا، تم سے یہی امید تھی۔
یہ سن کر اکرم اور وحیدہ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس گھر میں مزید نہیں رہ سکتے۔ اکرم نے اپنے تھوڑے بہت کپڑے اور ضروری سامان ایک پرانے بکسے میں رکھا۔ وحیدہ بھی خاموشی سے اپنے چند کپڑے سمیٹ رہی تھی۔ ان دونوں کا دل ٹوٹ چکا تھا، لیکن وہ اس حقیقت کو تسلیم کر چکے تھے کہ ان کے اپنے گھر میں اب ان کے لئے جگہ نہیں رہی۔
جب وہ دونوں سامان گھر کے باہر کھڑے آٹو میں بھر رہے تھے تو ان کا چھوٹا پوتا، جانو، ان کے پاس آیا۔
“دادا جی، آپ کہاں جا رہے ہیں؟” جانو نے معصومیت سے پوچھا۔
اکرم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا، “بیٹا، ہم تو یہاں کرائے دار تھے۔ اب ہم اپنے گھر جا رہے ہیں۔”
جانو کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ “دادا جی، اب مجھے اسکول بس تک کون لے جائے گا؟”
اکرم نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا، “بیٹا، تم بڑے ہو گئے ہو۔ اب خود جا سکتے ہو۔”
اتنے میں ریحانہ کی ا?واز گونجی: “جانو، اندر آو! جانے دو انہیں۔ دیکھتی ہوں، کتنے دن برداشت کرتے ہیں یہ لوگ!”
یہ جملہ اکرم کے دل میں چھری کی طرح لگا، مگر اس نے خاموشی اختیار کی۔
اکرم اور وحیدہ آٹو میں بیٹھے اور “اپنا گھر” کے پتے کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے بھر وحیدہ خاموش رہی، لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اکرم بھی اندر ہی اندر ٹوٹ چکا تھا، مگر وہ اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکا۔
“اپنا گھر” پہنچ کر دونوں کا استقبال محبت سے کیا گیا۔ یہ ادارہ بزرگوں کے لئے بنایا گیا تھا، جو اپنے گھروں میں نظر انداز ہو چکے تھے۔ یہاں کے افراد نے انہیں اپنے جیسا محسوس کرایا۔ اکرم نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا کہ اس کا عطیہ کسی کام آیا۔
ادھر ساحل اور ریحانہ کے گھر میں چیزیں بدلنے لگیں۔ جانو اکثر اپنے دادا دادی کو یاد کرتا اور ان کے بارے میں سوال کرتا۔
“امی، دادا جی کب واپس آئیں گے؟”
ریحانہ جھنجھلا کر جواب دیتی، “اب وہ یہاں نہیں آئیں گے۔”
لیکن جانو کی معصوم باتیں ساحل کو سوچنے پر مجبور کر دیتیں۔ وقت کے ساتھ اُسے احساس ہونے لگا کہ اس نے اپنے والدین کے ساتھ بہت بْرا سلوک کیا-
آج کافی دنوں کے بعد اْس نے مسجد میں جْمعہ کی نماز ادا کی تو اْس کوسکون میسر ہوا۔
اْسے مولوی صاحب کی تقریر یاد آگئی”
“والدین کبھی غلط نہیں ہوتے، اگر کبھی اْن سے غلط فیصلے ہو بھی جائیں لیکن اْن کی نیت صاف ہوتی ہے اور اْنہی کی دعاوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں، والدین اور درخت دونوں بوڑھے ہوجاتے ہیں لیکن اْن کی چھاوں ہمیشہ گھنی رہتی ہے۔
ہمارے بزرگ ہمارے گھر میں رحمت کا خزینہ ہوتے ہیں –
دادا جی….! کی آواز پر دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا تو سامنے اْن کا پوتا جانو کھڑا تھا –
ارے تْو؟ وحیدہ نے بیڈ سے آہستہ آہستہ اْٹھتے ہوئے کہا،، سْنتے ہو جانو آیا ہے، پھر دونوں دروازے پر پہنچے جہاں ساحل جانو کے پیچھے دروازے کی اوٹ میں کھڑا تھا –
ساحل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
“ابا، مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ دونوں کے ساتھ بہت زیادتی کی۔”
آپ کے جانے کے بعد ہماری زندگی پر منحوسیت چھا گئی، کاروبار ٹھپ ہوگیا، ریحانہ کی ٹانگیں بیٹھ گئیں، جانو کی طبیعت خراب ہوگئی، آپ کیا گئے گھر سے رحمتیں ہی چلی گئیں۔
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اکرم نے کہا، “بیٹا، ہم نے تمہیں معاف کیا، لیکن واپسی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں گے۔”
ابا جی…! خدا معاف کرتا ہے، رسولؐ معاف کرتا ہے آپ بھی ہمیں معاف کردیں، آج میری سالگرہ ہے، آپ سمجھیں میں آج نیا پیدا ہوا ہوں، آپ دونوں کو اللہ کا واسطہ ہے، اماں…! تو ہی کچھ سمجھا اباجی کو-
وحیدہ جو اپنے پوتے کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی، کہنے لگی۔
آپ نے بھی ضد پکڑ لی ہے، یہ وہی ساحل ہے جس کے لاغر ہونے پر آپ برف میں کئی میل سفر کرکے پیر صاحب کے پاس گئے تھے، بچہ معافی مانگ رہا ہے۔
“تو چپ کر، اس کا کیا بھروسہ یہاں سے لے جا کر پھر وہی حرکت کرے- اکرم نے غْصے سے کہا،،
نہیں ابا جان…! بالکل نہیں، کبھی خواب میں بھی میں آپ کو خود سے الگ نہیں ہونے دوں گا، ریحانہ بھی اپنے برتائو پر شرمندہ ہے _ آپ کا اپنا گھر یہ نہیں وہ ہے، یہ رہے آپ کی جائیداد کے کاغذات، مجھے کچھ نہیں چاہئے، مجھے صرف آپ چاہئیں۔
ہاں دادا جی…! اگر آپ گھر نہیں چلیں گے تو میں بھی آ?پ کے ساتھ اسی گھر میں رہوں گا- جانو نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا تو اْس کی آنکھوں سے گرتے اشک دیکھ کر اکرم کا دل پسیج گیا، اُس نے آگے بڑھ کر جانو کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا –
نہیں میرے بچے…! نہیں، میں بھی تیرے بغیر ادھورا ہوں، میں اپنے جانو کو اسکول بس میں چڑھاوں گا، چل وحیدہ سامان باندھ اپنے اصلی گھر چلیں گے۔
تھوڑی دیر بعد جب اکرم اور وحیدہ “اپنا گھر ” کے گیٹ سے باہر نکلے تو اْن کے ساتھ کافی سارے بزرگ تھے جنہیں دیکھ کر ساحل نے کہا” آپ سب سے میری گزارش ہے کہ آپ پہلے کی طرح اَبا جی سے ملنے آتے رہا کریں _۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142