اُسے اس بات کا پورا یقین تھا کہ موت اٹل ہے اور اس کا ایک دن معین ہے مگر قسمت کے لکھے کا کوئی کیا کرے۔ آج اچانک غم کا پہاڑ اس پر ایسے ٹوٹ پڑا تھا کہ وہ لڑھک کر نیچے آگیا اور بت بنا دیکھتا رہ گیا۔ اُسے لگا جیسے اسکی حالت اس پرندہ کی سی ہو کر رہ گئی جو دور نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں اپنے ہم سفر سے الگ ہوکر بھٹک رہا ہو اور جسکے نیچے چاروں جانب آخری دھوپ اپنے پر سمٹ رہی تھی۔ ایک انجانا سا خوف اسکے رگ و پے میں اُتر گیا امد اس کا وجود سہم گیا۔ قدم ڈگمگاتے ہی اسکے یقین میں تغیر و تبدیل سا ہوگیا۔ جس سے اسکی زندگی کی بساط الٹ کر رہ گئی اور اپنے ہی گھر میں اسے اپنا وجود اجنبی سا لگنے لگا۔
مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ جو ہونا تھا ہوچکا۔
اماں جی کی موت نے انور حسین کو جیسے کہیں اندر سے توڑ کر رکھدیا۔ اس کے دل کی دھڑکن کو بے آواز کردیا اور چہرے کا رنگ اڑا دیا تھا۔ اب اماں جی کی تصویر کے سامنے گھنٹوں بیٹھا کرتا اور ٹو ٹی ہوئی اُمیدوں کے ساتھ کسی گھائل پنچھی کی طرح خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہتا۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ نہ موت کو گلے لگا سکتا اور نہ جینا چاہتا، یہ سوچ کر وہ بڑبڑا بنا رہتا۔
اماں جی کو اتنی جلدی کیا تھی کہ اسے اس طرح اکیلا چھوڑ گئی جس کی کسک وہ عمر بھر محسوس کرتا رہے گا۔ اس کی یاد آتے ہی اسکی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھا اور اپنا منہ چھپا کر زار و قطار رونے لگا۔
استخراق کے عالم میں ڈھیر ساری یادیں اسکے ذہن میں رقص کر رہی تھیں اور اُسے جوانی کا وہ عہد یاد آرہا تھا جب وہ نوکری کے سلسلے میں سات سمندر پار گھر سے دور تھا۔ تب بھی اس نے اماں جی کی کمی اتنی شدت سے کبھی محسوس نہیں کی تھی لیکن آج داعی طور پر اسکے چھوٹ جانے کی کسک بری طرح محسوس کر رہا تھا۔ اب وہ کیا کرے اپنا غم کس کے ساتھ باٹنے؟۔ کون سنے گا؟۔ ان باتوں نے انور حسین کو مزید مضطرب اور پریشان کر دیا تھا۔ اس نے اپنے بکھرے جذبوں کو سمیٹ لیا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر فریاد کرنے لگا۔
یا اللہ ! یہ اچانک کیا ہوگیا۔ تونے اماں جی کو اپنے پاس بلالیا۔
جوں ہی اس کے دل میں بے یقینی کا خیال آیا تو وہ ندامت سے سربسجود ہوکر اپنی بات پر پچھتا نے لگا۔ اس نے اس بات کا پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو اب وہ آئیندہ کبھی ایسا خیال دل میں نہیں لائے گا۔ لیکن بارود کے ڈھیر پر بیٹھا آدمی کب تک زندگی کی خیر منائے۔ اپنے دل پر بھاری پتھر رکھتے ہوئے بھی وہ ہیجانی کیفیت سے باہر نہ آیا۔ اس کا من اندر سے ڈول رہا تھا۔
جذبات سے مغلوب ہوکر وہ کچھ دیر کیلئے خاموش بیٹھا کسی سوچ میں پڑگیا اور اپنے آپ سے بڑبڑا تا رہا۔
یہ بوڑھا جسم کب تک ساتھ دے گا۔ ستر سال کی عمر میں یتیم ہوگیا۔ یہ کہتے ہوئے پورا دکھ اسکے چہرے پر سمیٹ آگیا تھا اور دل کی کیفیت بھی عجیب ہوگئی تھی۔
اماں جی کی موت ہے جہاں اپنے پرائے سبھی دکھی تھے وہیں انور حسین بھی اسکے اٹھ جانے کی فراق میں زندگی سے بے زار ہوچکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اندر سے ٹوٹ کر اس کا وجود سوکھے زرد پتے کی مانند ہوا ہیں بھٹکنے کیلئے منتشر ہوگیا تھا۔
انور حسین کا گھر کوئی چھوٹا سا معمولی گھر نہ تھا۔ ایک بڑا خوش حال کنبہ تھا۔ خدا نے اُسے سب کچھ دیا تھا۔ گھر میں زنیت بیگم، جو انکی نصف بہتر تھی اور جسے سب لوگ اماں جی کے نام سے پکارتے تھے، کے علاوہ دو جوان بیٹے ان کی بیویاں اوران دونوں کی سات اولادیں تھیں ۔ سب کے سب بڑے ہونہار، معصوم اور پیارے بھی ۔ انور حسین کا سب سے بڑا پوتا شہزادہ تھا جو اس برس بارہ سال کا ہوچکا تھا اور پوتیوں میں نجمہ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ کوئی پانچ سال کے آس پاس ہوگی۔ سب کی پیاری اور دلاری مگر تھی بڑی نٹ کھٹ شرارتی اور باتونی بھی۔ اپنی تو تلی زبان میں اپنے بھائیوں کو بڑا، منجھلا اور چھوٹو بھائی کہہ کر پکارتی تھی۔ ایسے میں گھر میں اماں جی کے انتقال کرنے سے ایک بندہ کم ہوگیا ہے۔
انور حسین جتنی مدت تک گھر سے باہر رہا اُس نے اتنی دولت جمع کر لی تھی شاید عمر بھر کوئی بڑے سے بڑا سرکاری ملازم کبھی نہیں کما سکتا۔ بظاہر وہ سخت اور گرم گفتار دکھائی دیتا مگر اندر سے بالکل موم جیسا نرم دل دکھتا تھا۔ ہلکی آنچ لگے پگھل جائے۔ کبھی کبھی اماں جی کے ساتھ مذاق کے موڑ میں اُسے چڑاتا اور خود اس کا لطف بھی اُٹھالیتا تھا۔ اپنی قلیل آمدنی کے باوجود اُس کے دونوں بیٹے اطاعت شعاری اور فرماں برادی میں ایک مثالی کردار نبھا رہے تھے اور ان کی بیویاں بھی وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بھیگی بلی بنی گھر کے کاموں میں لگی رہتیں اور کبھی انہیں شکایت کرنے کا موقعہ نہیں دیتی تھیں۔ ورنہ آگ لگے بجھے جل سے، جل میں لگے تو کیسے بھجے کہنے والی بات ہوئی۔ دل کی بات دل میں ہی رہ جاتی تھی۔
ایک مرتبہ انور حسین بیرون ملک سے ایک کلر ٹیلی ویژن سیٹ لے کر آیا تب سے اسکے الگ آرام دہ کمرے میں پڑا تھا۔ اس لئے انور حسین اپنے پوتے پوتیوں کی پڑھائی پر بہت دھیان دیتا۔ شاید اُسے ان کے خوشگوار مستقبل کی جھلک نظر آنے لگی تھی ورنہ سبکدوشی کے بعد کون کس کو پوچھتا ہے۔ جب کہ ماں باپ، دونوں پڑھے لکھے ہوں۔
انور حسین نظم و ضبط اور وقت کا پابند تھا۔ خود بھی اور دوسروں کو بھی اسکا درس دیتا رہتا۔ سوال ہی نہیں کہ کوئی اسکی اجازت کے بغیر ٹی وی چھوئے یا پر مارنے کی کوشش کرے۔
البتہ جب جی چاہا۔ سیرئل یا فلم دیکھی اور کبھی خبریں سننے کا موڈ ہوا تو اسکا سوئچ آن کیا۔
اماں جی نہ جانے کس مٹی کی بنی تھی۔ اسے ازل سے ہی ٹی وی سے نفرت سی ہوچکی تھی۔ جبھی وہ اسکے سکرین پر کسی عورت کو کسی فلمی گانے میں گاتے یا سین کے دوران اسکو بے حیائی، بے پردگی اور عریانی کی حالت میں دیکتی تو اسکے اندر چھپی عورت تڑپ اٹھتی تھیں۔ پھر نہ جانے تلخ لہجے میں کیا گیا بڑ بڑاتی رہتی کہ شرم کے مارے بہوئیں اپنی گردن جھکا لیتیں۔
ایک بار انور حسین نے کیا سوچا کہ اُس نے مذاقاً اما جی سے کہا۔
کہاں گئی یہ بیڈ منٹن کی ٹیم۔ جاکر ان سے کہہ دو کہ آج ٹی وی پر بھارت اور پاکستان کے درمیانT-20 کرکٹ میچ دکھا یا جارہا ہے۔ آو سب مل کر دیکھیں۔ پھر کچھ وقت کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے راز درانہ لہجے میں اسے چڑانے لگا۔
مزہ آتا ہے جب اپنے سامنے اپنی پوری ٹیم کو لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کے دیکھتا ہوں۔ مرحبا ! ایسے جیالے بیٹوں پر۔ جنہوں نے ایک تلیل مدت میں ہی ایک چھوٹی سی ٹیم تیار کی ہے اور ایک تم ہو بس دو پر ہی اپنا انگوٹھا دکھا کر تھک گئی ہو۔
چھی! چھی! کیسی اوچھی باتیں کرتے ہو۔ کچھ تم شرم کرو کوئی سن لے تو جگ ہنسائی ہوگی۔
یہ کہہ کر وہ غصہ بھری پیر پٹختی ہوئی فوراًکمرے سے نکل گئی۔
اچانک اس ایک آدھ واقعہ کی یاد آتے ہی اسکے جھریوں بھرے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی اور قوس قزح کی طرح فوراََ ہی غایب بھی ہوگئی۔
آج کل بچے ٹی وی دیکھنا بہت پسند کرتے ہیں۔ جسے دیکھو وہ خصوصاً کارٹون ، WWFاور ڈسکوری جیسی چنلوں پر اپنا من پسند سیریل دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر انور حسین نے اپنا ایک معمول سا بنایا تھا۔ شام ہوتے ہی گھر میں دستر خوان بچھایا جاتا تھا۔ جب رات کا کھانا سب بچے کھا چکے ہوتے تو انور حسین انہیں اپنے کمرے میں بلاتا، وہ سب کے سب اکھٹے ہوکر اسکے پاس بیٹھ جاتے، جہاں وہ ان کو کبھی مولانا روم اور کبھی شیخ سعدیؒ کی حکایات سنایا کرتا اور ساتھ ہی ہوم ورک کرنے کے بارے میں بھی پوچھ لیتا۔ تسلی بخش جواب پاکر پھر انہیں اس پر شاباشی بھی دیتا تھا۔
ایک دن اچانک اماں جی کو نمونیہ ہوگیا اور وہ بستر سے اس طرح لگ گئی کہ پھر دوبارہ اٹھ نہ سکی۔ رات کا آخری پہر تھا، جب وہ مالک حقیقی سے جاملی تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ دیکھ کر انور حسین پر جیسی برق گری اور گھر میں کہرام مچ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا خوشگوار ماحول ماتم کدہ بن گیا۔ جس کسی نے یہ خبر سنی دوڑ کر ماتم پر سی کے لئے آیا، کیا بوڑھا اور جوان کیا بچہ۔ سبھوں کی زبان پر اماں جی کا نام تھا اور ہر کسی کی آنکھیں پر نم تھیں۔ اشکبار تھیں۔
اماں جی کے چلے جانے سے جہاں گھر کا ایک ایک فرد دل گرفتہ اور غمگین تھا وہیں انور حسین کے اندر ایک خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ ایک طرف اس کی جدائی کا غم اور پھر گزری ہوئی یادیں اُسے تڑپا رہی تھیں اور وہ دل ہی دل میں اپنی قسمت پر نالاں اور پشیمان ۔
اماں جی کا چوتھا تھا۔سارے گھر پر اداسی طاری تھی۔ صبح سے لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ جن میں عزیز و اقارب اور اڑوس پڑوس کے لوگ دونوں شامل تھے۔ پُرسا دینے کے لئے آنے والے کچھ نہ کچھ ساتھ لے کر آنا بھول نہیں جاتے تھے۔ کسی کے پاس دودھ بھری تھلیاں تو کوئی سنگرتے کی پیٹی یا سیب کا ڈبہ لاتا تھا یا بھر بیکری اور روٹیاں۔ پھر جیسے ہی اماں جی کے چہارم کی تقریب اختتام پذیر ہوئی تو لوگ بھی یکے بعد دیگرے اُٹھ کر اپنے گھر کی جانب چل دیئے۔ دونوں بہوئوں نے پُرسا دینے والوں کی خاطر داری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جاتے جاتے وہ ان کے ہاتھوں میں ایصال ثواب کی نیت سے کچھ نہ کچھ پھل و میوے تھما دیتی تھیں اور لینے والے بھی بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرکے ان کا شکریہ ادا کرتے تھے۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اماں جی کو اس دنیا کو خیر باد کئے بیس پچیس دن ہوئے تھے۔ اب تو انور حسین کی آنکھوں نے بھی نم ہونا چھوڑ دیا تھا۔ گھر میں وہی اپنا ماحول لوٹ آیا اور سب کچھ معمول کے مطابق سے چل رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر میں کچھ نہ ہوا تھا، جیسے اماں جی گھر کی کوئی فرد ہی نہ تھی ۔ بہو بیٹے اپنے اپنے کام میں لگ گئے اور بچے بھی اسکول جانے لگے۔
مکان کے پچھواڑے کی کوٹھری دیکھنے والے کا منہ چڑا رہی تھی۔ جہاں چند دن پہلے اس میں طرح طرح کے پھلوں اور میوئوں سے بھرے ڈبے و پیٹیاں اور دودھ بھری تھیلیوں کے ڈھیروں کے ڈھیر نظر آرہے تھے وہاں اب ان ڈبوں کا کچرا اور ردی کاغذ کے انبار ادھر ادھر پڑے تھے۔ اچانک بچوں نے جب یہ حال دیکھا تو ان پر بجلی سے گر پڑی۔ ان کی خوشیوں پر جیسے اوس پڑگئی اور ان کے چہرے اُترتے نظر آرہے تھے۔
ایک دن کچھ ایسا ہواکہ سارے بچے جمع ہوکر انور حسین کے کمرے میں بیٹھے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے، جس پر اس وقت اتفاق سے ایک مزاحیہ پروگرام چل رہا تھا، جس میں ایک مسخرے کو مرتے ہوئے دکھایا جارہا تھا اور وہ سب اس سوچ میں پڑ گئے تھے کہ اب کیا ہوگا؟اس دل ہلا دینے والے منظر نے ان کے چہروں کا رنگ اُڑا دیا تھا جیسے کسی نے ان کے سامنے کوئی پہیلی بُجھانے کیلئے رکھی ہو۔ انور حسین کمرے کے ایک گوشے میں اپنی یادوروں میں غرق سیریل ختم ہونے کا انتظار کررہاتھا۔
دفعتاً نجمہ اپنی توتولی زبان میں انور حسین سے مخاطب ہوئی۔
’’دادا جی … دادا جی ! چنو اور منو آپس میں باتیں کررہے تھے کہ آپ کب مریں گے؟‘‘
یہ سن کر انور حسین کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
’’کیوں؟‘‘
’’تاکہ اس گھر میں پھر پھل و فروٹ کھانے کو ملیں۔ جس طرح اماں جی کے مرنے پر لوگوں نے لائے تھے۔ بولونا کب مریں گے آپ تاکہ ہم دوبارہ دعوت اُڑائیں گے‘‘۔
چھوٹے منہ سے بڑی بات سن کر انور حسین نے اس پر کسی قسم کی حیرت و استعجاب کا اظہار کیا اور نہ ہی اس کے دل کو چوٹ لگی۔اُس نے نجمہ کو اپنی جانب کھینچ کر سینے سے لگاتے ہوئے اس کا بوسہ لیا اور اسے بڑی لگاوٹ سے جواب دیا۔
’’بیٹا… میں تو اُسی دن مر گیا …جس دن تمہاری اماں جی …‘‘
یہ کہہ کر اچانک اس کی لڑکھڑاتی زبان بند ہوگئی اور وہ اپنی بات پوری بھی نہ کر سکا جیسے بات ہونٹوں اور حلق کے درمیان اٹک کر رہ گئی ہو…!!!
ٹینگہ پورہ نواب بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛9858989900