بعض افراد اپنے خاص مزاج کو جس پر وہ پروان چڑھتے ہیں ،جس کے حوالے سے لوگ انہیں پہنچانتے ہیں اور جس کی بنیادی پر لوگوں کے ذہنوں میں ان کا تصور ابھرتا ہے،اپنی ذات کا ایسا لازمہ سمجھتے ہیںجسے علیحدہ یا تبدیل کرنا ممکن نہیں۔اس نوع کے افراد اپنی فطرت کے آگے جھک جاتے اور اس پر اکتفا کر لیتے ہیں،بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنی جسمانی ساخت اور اپنے پیدائش رنگ کو جنہیں تبدیل کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا ،تسلیم کرلیتے ہیں۔اس کے باوجود وہ آدمی جو اپنے آپ کو حالات کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہے،سمجھتا ہے کہ انسان کے لیے طبائع کو بدلنا اتنا آسان ہے جتنا لبا س کو تبدیل کرنا!
ہمارے مزاج بہے پڑے دودھ کی مانند نہیں کہ اسے اکٹھا کرنا محال ہو۔طبائع کی زمام ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہم چند مخصوص طریقے استعمال کرکے نہ صرف لوگوں کی عادتیں بلکہ ان کے دماغ تک دوسرے رخ پر ڈال سکتے ہیں۔آپ نے مشاہدہ کیاہوگاکہ بعض اوقات محفل میں بحث مباحثہ کرنے والے دو آدمیوں کی گفتگو لڑائی جھگڑے اور مخاصمت پر منتج ہوتی ہے جب کہ دیگر دو افراد گفتگو کریں تو اس کا اختتام خیر سگالی اور ہمدردی کے جذبات پر ہوتا ہے۔آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ باہمی گفتگو اور بحث و مباحثے کی مہارتیں ہوتی ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ دو آدمی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ ایک جیسی تقریر کرتے ہیں۔ایک کی تقریر میں حاضرین کی بڑی تعداد جمائیاں لیتی اور سوتی رہتی ہے۔کوئی مسجد کے تنکوں سے کھیلتا رہتا ہے اور کچھ افراد باربار اپنی نشست کی ہیئت بدل کر اکتاہٹ کا علاج کرتے ہیںجبکہ دوسرے آدمی کی تقریر کے دوران حاضرین پورے ہوش وحواس میں بیٹھتے ہیں،مقرر کی آواز سے آواز ملاتے ہیں ،نہ تو کسی کی آنکھ میں نیند کا پانی آتا ہے اور نہ کسی کا دل غفلت کا شکار ہوتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اپنی بات دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے فنون ہیں۔
آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں آدمی محفل میں بولتا ہے تو سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے اور نگاہیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھتے ہیںجب کہ فلاں بات کرے تو حاضرین محفل ادھر اُدھر کی باتوں میں یا اپنے موبائل فونوں پر پیغامات پڑھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟یہ بات کرنے کے اصول ہیں۔
اسکول کی راہداریوں میں چلتے ہوئے ایک استاد کو طلبہ گھیرے رکھتے ہیں۔کوئی مصافحہ کے لیے اشتیاق سے ہاتھ بڑھا رہا ہے ،کوئی مشورہ طلب کر رہا ہے اور کوئی استاد کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کر رہا ہے۔یہ استاد اپنے دفتر میں بیٹھتا ہے تو چند ثانیوں میں اس کا کمرہ طلبہ سے کھچاکھچ بھر جاتا ہے ۔ہر ایک اس کی صحبت اختیار کرنا چاہتا ہے۔ادھر یہ منظر ہے اور دوسری طرف ایک اور استاد اپنے اسکول میں اکیلا چلتا ہے۔اسکول کی مسجد سے اکیلا نکلتا ہے ۔کوئی طالب علم شکایت لے کر اس کے پاس نہیں جاتا ۔کسی کو اس سے مشورہ طلب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔مصافحے کے لیے کوئی اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا ۔کیا آپ کو خبر ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ لوگوں سے معاملہ کرنے کے ضوابط ہیں۔
ایک آدمی محفل میں آتا ہے تو سب اسے دیکھ کر ،اس سے مل کر او ر اسے اپنے قریب پاکر خوش ہوتے ا ور بے حد گرم جوشی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ہر کوئی اس کے پہلو میں نشست چاہتا ہے۔ایک آدمی محفل میں آتا ہے تو لوگ سرد مہری سے اور محض اس کی دلجوئی کی خاطر اس سے ہاتھ ملاتے ہیں۔وہ خود جگہ کرکے بیٹھتا ہے۔کوئی اس کے لیے جگہ نہیں بناتا نہ کوئی اسے اپنے قریب بٹھانا گوارا کرتا ہے۔غور کیجئے ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کرنے اور ان پر اثرانداز ہونے کے ہنر ہیں۔ایک باپ گھر آتا ہے تو بچے اسے دیکھ کر باغ باغ ہوجاتے ہیں، دیوانوں کی طرح اس کی طرف لپکتے ہیں اور ایک دوسرا باپ گھر آتا ہے تو اس کے بچے اس کی طرف التفاق نہیں کرتے ۔وہ یوں سہم جاتے ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔باپ اندر ہے تو بچے باہر ہیں۔باپ باہر تو بچے اندر ہیں۔اس کی وجہ سے گھر کا ماحول گھٹن زدہ رہتا ہے ۔بیوی الگ سولی پر ٹنگی ہوتی ہے۔جانے ایسا کیوں ہوتا ہے؟دراصل یہ اپنے بچوں کے ساتھ برتائو کی مہارتیں ہیں۔
ایسی ہی مثالیں مسجد کے معاملات اور شادی بیاہ کی تقریبات وغیرہ کے متعلق بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔جس طرح دوسروں کے ساتھ برتائو کے سلسلے میں لوگوں کی قابلیتیں اور صلاحتیں گوناگوں ہوتی ہیں ،اسی طرح دوسرے بھی لوگوں سے معاملہ کرنے اور انہیں اہمیت دینے میں کم وبیش ہوتے ہیں۔لوگوں کے دلوں میں اپنی تاثیر پیدا کرنا اور ان کی محبتیں حاصل کرنا جتنا آسان ہے آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔یہ مبالغہ آرائی نہیں،مجھے اس کا متعد د بار تجربہ ہوا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ چند آسان طریقے اور سہل مہارتیں استعمال کرکے اکثر دلوں کو اپنا گرویدہ بنایا جاسکتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ ہم لگن سے یہ طریقے اپنا ئیں اور مشق کے بعد انہیں اپنی فطرت ثانیہ بنالیں۔
فون9622426420