نوٹ:پروین کمار اشک ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ کے بہی خواہ تھے اور باقاعدگی کے ساتھ ’’ادب نامہ‘‘ کا مطالعہ کرتے تھے۔ موصوف ادب نامہ کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے اکثر اپنی آراء اور مشوروں سے نوازتے رہے تھے۔ انکا انتقال جدید اردو ادب کے کئے ایک بڑا نقصان ہے۔ ادارہ مرحوم کی آتماء کی شانتی کے لئے دعاء گو ہے اور انکے پسماندگان سے تعزیت گزار ہیں۔
17جولائی2017کی شام کو تقریبا"ساڑھے آٹھ بجے میں اپنے گہرے دوست جناب شمس کمال انجم صدر شعبئہ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر) کے ڈیرے پہ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران خطئہ پیر پنچال کے ایک نامور شاعر جناب خورشید بسمل نے شمس کمال انجم صاحب کو فون پہ یہ اندوہناک کن خبر سنائی کہ بر صغیر کے معروف غزل گو شاعر جناب پروین کمار اشک اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ہم دونوں یہ افسوسناک خبر سن کر چونک اٹھے۔دنیا کی بے ثباتی اور ناپائداری کا احساس ہمارے رگ وریشے میں کلبلا نے لگا۔مجھے خواجہ میردرد کا یہ صداقت آمیز شعر یاد آیا کہ ؎
لائی حیات آ ئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے پروین کمار اشک سے میری پہلی ملاقات 2010میں جموں میں ایک مشاعرے میں ہوئی تھی۔کتابی چہرہ؛سرمئی آنکھیں؛ درمیانہ قد ؛سڈول جسم؛ ہندوستانی لباس یعنی کرتہ پاجامہ پہنے اور موٹے کپڑے سے تیار کیا ہوا بیگ جو دوران سفر ان کے کندھے سے لٹکتا رہتا۔رفتار میں شاعرانہ ادا اور گفتار میں عالمانہ انداز، غرضیکہ جس کسی کے ساتھ بھی بالمشافہ ان کی ملاقات ہوتی وہ ان کاگرویدہ ہوجاتا۔
مجھے جب پہلی بار انھوں نے مشاعرے میں دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔اپنے بیگ سے اپنا تازہ شعری مجموعہ "دعا زمین"نکالا ؛ اس پہ میرا نام لکھا ؛مجھے پکڑاتے ہوئے کہنے لگے"میرے بھائی مشتاق وانی اسے ضرور پڑھیے"میں نے گھر آکر اس شعری مجموعے کا مطالعہ کرنے کے بعد"پروین کماراشک—-اردو غزل کا مستقبل"کے عنوان سے مضمون لکھاجو حیدر آباد سے شائع ہونے والے اردو ادبی رسالہ"سب رس"میں شائع ہوا۔اسکے بعد پروین کمار اشک کے ساتھ میرا علمی ودابی رشتہ روز افزوں مستحکم ہوتا چلا گیا۔وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتے؛ فون پہ دیر تک مجھ سے گفتگو کرتے۔مجھے زندگی کے مسائل ومعاملات سے سمجھوتہ کرنے کی ہدایت دیتے اور اکثر کہتے"مشتاق وانی ہرحال میں خوش رہاکریں"اپنی غزلوں کے اشعار سناتے۔ان کی بذلہ سنجی؛خوش مزاجی اوران کے محبت بھرے دل میں خلوص بیکراں انھیں اس بات پہ مجبور کرتا کہ وہ اپنے دوست واحباب اور مداحوں کے ساتھ دیر تک فون پہ گفتگو کریں۔ایک صاف ستھرے اور سچے آدمی تھے۔میری غمی اور خوشی میں برابر شریک رہتے۔رادھا سوامی مت سے کافی مانوس تھے۔اس لیے گوشت؛انڈا؛مچھلی؛پیاز اور لہسن نہیں کھاتے تھے۔ہرسال 28جنوری کو جموں وکشمیر اکادمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز ایک کل ہند اردو مشاعرہ منعقد کرواتی ہے۔پروین کمار اشک؛ شاہ پور کنڈی(پٹھان کوٹ)سے اپنی گاڑی میں جموں آتے؛مشاعرے میں اپنی دو غزلیں سناتے، سامعین سے خوب داد پاتے اور پھر چپکے سے واپس چلے جاتے۔مشاعرے میں ان کی موجودگی بہت لطف دیتی تھی۔
پروین کمار اشک نئے لب لہجے اور نئی تراکیب ولفظیات کے شاعر تھے۔ان کی غزلوں میں صوفیانہ مزاج اور عالمانہ تفکر نظرآتا ہے۔انھوں نے جہاں کلاسیکل شاعری کا مطالعہ کیا وہیں جدید اور مابعد جدید شاعری کو بھی اپنے مزاج کا حصہ بنایا۔پاکستان کے مشہور گلوکاروں نے ان کی غزلوں کی دھنیں تیار کیں اور انھیں گایا۔اردو میں بہت بڑی ڈگری کے حامل نہ ہونے کے باوجود اچھی اردو بولتے تھے۔ان کی غزلیہ شاعری کا اختصاصی پہلو یہ رہاکہ وہ فکر کی گہرائی کے ساتھ آفاقی نوعیت کے کچھ ایسے اشعار چھوڑگئے ہیں جوانھیں اردو کی غزلیہ شاعری میں دور اور دیر تک زندہ رکھیں گے۔دنیا میدان عمل ہے ہر آدمی اپنا اچھا یا برارول ادا کرکے موت کے پردے کے پیچھے چلا جاتا ہے۔پیچھے چھوڑجاتا ہے اپنی اچھی بری یادیں۔پروین کمار اشک ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان تھے۔ان کی ایک غزل کے یہ اشعار ہمیں تفکر وتدبر اور معنوی جہات کا لطف فراہم کرتے ہیں۔اشعار ملاحظہ ہوں۔
وہ پیش رو ہے مگر راستہ نہیں دیتا
بزرگ ہوکے بھی دیکھو دعا نہیں دیتا
کسی کسی کو تھماتا ہے چابیاں گھر کی
خدا ہر ایک کو اپنا پتا نہیں دیتا
مجھے یہ کیسا سمندر صدائیں دیتا ہے
جو مجھ کو ڈوبنے کا حوصلا نہیں دیتا
جدید کپڑے اسے کیا جوانیاں دیں گے
جو بوڑھی سوچ کو چہرا نیا نہیں دیتا
میں اپنا درد سناتا رہوں گا اشک اس کو
وہ میرے درد کی جب تک دوا نہیں دیتا
پروین کماراشک کی وفات سے مابعد جدید اردو شاعری میں جو خلا پیدا ہوا ہے؛اسکی بھرپائی مشکل ہے۔ان کی یادیں اور باتیں دل کو تڑپا رہی ہیں۔کسی سجن ساتھی کا ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانا۔گہرے صدمے سے کم نہیں ہوتا۔خدا ان کی روح کو سکون بخشے اور ان کے لواحقین کو صبر عطاکرے اور ہم جوزندہ ہیں ہمیں سامان آخرت تیار کرنے کی توفیق دے۔کیونکہ بقول کسی شاعر کے ؎
سارے جھگڑے ہی زندگی تک ہیں
کون مرتا ہے پھر کسی کے لیے
******
اسسٹینٹ پروفیسر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ
یونیورسٹی راجوری،( جموں وکشمیر)،موبائل نمبر 09419336120