Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

آہ !مولانا غلام نبی وانی رحمتہ اللہ علیہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 25, 2018 12:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
شہر خاص نوہٹہ کے ہنگامہ خیزاور گنجان آبادی والے تاریخی محلے میں رہنے والے پُر جوش داعیٔ حق، سرگرم عالم دین، مخلص وبے ریا مُدرس اور توحید وسنت کی اشاعت کے لئے ہمہ تن وقف مولانا غلام نبی وانی صاحب حال ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اناللہ ونا الیہ راجعون۔ ان کی ہمہ پہلو شخصیت کی کئی ایک جہتیں ہیں جن کی پرتیں کھولئے تو ایک انسان آپ کی نگاہوں کے سامنے نمودار ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے حق وصداقت کی مشعل برداری کی توفیق سے مالا مال کر دیا تھا۔ اسی مناسبت سے مدرسہ  ٔمحمدیہ نامی ایک چھوٹا سا جز وقتی مدرسہ مولانا کی مساعیٔ جمیلہ کی زندہ وجاوید مثال  ہے ۔ یہ مدرسہ شہر خاص سری نگر کے دل میں مولانا غلام نبی وانی رحم اللہ (متوفی مئی2018ء) نے 1981ء میں ان پُر آشوب حالات میں قائم کیا تھا جب سری نگر میں خالص قرآن و سنت کی دعوت اس قدر عام نہ تھی جس قدر یہ آج متعارف ہے۔ یہ مدرسہ مولانا موصوف نے اپنے اُستاد مولانا عبد الرحمان نوری ؒ کی سعیٔ مشکور سے متاثر ہوکر باضابطہ طو  مستقل بنیادوں پراپریل 1982 سے کئی ایک شوق مند نوجوانوںکے ساتھ مل کر کاک مسجد نوہٹہ کے ایک کمرے میں شروع کیا۔بعد ازاں مدرسے کا انفراسٹرکچر ایک ہال اور ایک چھوٹے کمرے تک وسعت پاگیا۔ اس عمارت کے دو طبقے تھے،اوپر ہال کے شمال مغربی کونے میں مولوی غلام نبی میر طلبہ کو قرآن کریم ناظرہ پڑھاتے تھے جب کہ ان کی سیدھ میں شمال مشرقی کونے میں مولانا غلام نبی وانی سینئر طلبہ کو درس دیتے تھے۔ ہم اول الذکر استاد کو ’’لوکٹ مولوی صأب‘‘اور موخر الذکر کو ’’بوڈ مولوی صأب ‘‘ کے پیار اور احترام بھرے نام سے پکارا کرتے تھے۔ دونوں استاد شرارتی اور غیر حاضر طلبہ کی اصلاح کے لئے ’’عقل نما‘‘ نامی چھڑی  بھی رکھتے تھے لیکن
 اس کی شاذونادر ہی ضرورت پڑتی تھی۔مولانا موصوف ہمیشہ خان ڈریس یعنی قمیص شلوار زیب ِ تن کر تے اور سر پر ہلکی سی ٹوپی پہنتے تھے۔ شلوار ٹخنوں سے بہت اوپر رکھتے ، کبھی کبار صدری بھی زیب تن فرماتے تھے۔ کالا چشمہ اور گھڑی پہننا ان کی شخصیت کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ مولانا سنجیدہ گی ، متانت ، بارعب اور نبض شناس استاد تھے۔ جب رات میں طلبہ کو قرآن کریم پڑھاتے تو اپنا کالا چشمہ اُتار کر ایک طرف رکھتے تھے اور اپنا الگ مصحف کھولنے کے بجائے اپنے آگے بیٹھے طالب علم کے مصحف کو ہی اُلٹا دیکھ کر قرأت کرتے تھے۔ دوران قرأت اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے۔ ان کی حُسنِ قرأ ت سننے والے کے دل کو چھو لیتی۔ الفاظ واضح، مخارج صاف اور آواز ہلکی تھی۔مولانا موصوف فن قرأ ت سے بخوبی واقف تھے۔ جب حرف "ث" کا تلفظ ادا کرتے تو ان کی زبان کی نوک ثنایا علیا سے مل کر انوکھی آواز پیدا کرتی تھی اور جب حرف "ر" لکھتے تو منفرد خط میں ہوتا۔ کتابت کا فن بھی جانتے تھے۔ ان کی اردو تحریر میں "مستدعی" اور "امسال" جیسے فارسی الفاظ زیادہ استعمال ہوتے تھے۔ مسجع عبارت لکھنا پسند فرماتے تھے۔ کشمیری تقریر میں ’’ڈیٹھ کیتی‘‘اور ’’اما پوز‘‘ جیسے عمومی طور متروک کشمیری الفاظ زیادہ مستعمل رہتے۔ہر اتوار کو مدرسہ ٔ  محمدیہ میں بچوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ اس اجتماع کی تیاری پورا ہفتہ جاری رہتی۔ ہم درس گاہ کی چھوٹی   لائبریری سے کتابیں مستعار لیتے اور ان سے درسِ حدیث اور سیرت صحابہؓ جیسے پروگرامات تیار کرتے۔ مولانا موصوف اردو عبارات کا ترجمہ کرکے دیتے اور پورا ہفتہ ان کو پڑھنے کی مشق کراتے۔اس درس گاہ میں مولانا دیندار خان صاحب کئی دفعہ تشریف لائے۔ ان کی نظمیں جیسے ’’دنیا کے اے مسافر‘‘ کورس میں شوق سے پڑھی جاتیں۔ ہمارے بچپن میں طاہر احمد بٹ نامی طالب علم ’’الصبح بد من طلعت‘‘ ترنم کے ساتھ پڑھتا تھا۔بعد میں موصوف جوان مرگ ہوئے۔ ہر اجتماع کے اختتام پر مولانا وانی صاحب اختتامی کلمات کے عنوان کے تحت طلبہ کو نصیحتیں کرتے تھے۔ توحید ان کی گفتگو کا اہم موضوع ہوا کرتا تھا۔ہمارے بچپن میں جناب فاروق احمد شیخ آف خانیار مولانا موصوف سے مستقل عربی پڑھنے والے شاگرد تھے۔ مولانا کوئی عربی کتاب ان کو پڑھاتے تھے اور اللہ جانے اس میں ایسا کیا لکھا ہوا تھا کہ دونوں دوران درس کھل کھلا کر ہنس پڑتے۔مدرسہ کے دو سینئر اساتذہ مرحوم غلام نبی میر اور مرحوم غلام نبی وانی کے ساتھ جناب محمد سلیم میر اور جناب فاروق احمد قاصد بھی درس دیتے تھے۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ ان دو سینئر اساتذہ نے مدرسہ آنا ترک کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مدرسہ میں جناب عبد الرشید کرال، جناب اعجاز احمد وانی، جناب مسعود احمد، جناب آزاد احمد، جناب رفیق احمد میر، جناب عبد اللطیف میر اور جناب عبد الواحد بھی مختلف زمانوں میں پڑھا نے پر مامور تھے۔ بعد میں راقم الحروف نے بھی اس مدرسہ میں کئی سال طلبہ کو پڑھایا۔ میں نے پورے نظام تعلیم میں صرف کچھ تبدیلیاں کیں :اتوار کو مدرسہ میں چھٹی اور مولانا انور اور مولانا عبد الغنی شوپیانی کی منظومات متعارف کیں۔مدرسہ میں رات کو بجلی منقطع ہونے پر تیل خاکی سے چلنے والے گیس روشن ہوتے تھے۔ ان دو گیسوں کو چھت سے لٹکا کر آویزان رکھا جاتا۔ باہر بالکنی(چھجا) میں جہاں بچوں کے جوتے رکھے جاتے اور سیڑھی پر شمع روشن رکھے جاتے۔ باہر دروازے پر سبز رنگ کی اجک چھوٹی تختی پر ’’خواتین کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ لکھا ہوا تھا۔ بعد میں کسی نے اس ہدایت میں موجود لفظ ’’نہیں‘‘ پر سفیدی لگائی تھی جس سے ہدایت کے معنی برعکس ہو گئے تھے۔ درس گاہ کی چابی جناب فاروق قاصد کے گھر میں رہتی تھی۔ جہاں اُن کی والدہ مرحومہ ہمیں شفقت کے ساتھ چابی سونپ دیتی تھیں۔نظم شکنی سے مولانا وانی کو شدید نفرت تھی۔ نظم وضبط توڑے جانے پربہت ناراض ہوتے تھے۔ ہر اتوار بچوں کی صفائی چیک ہوتی تھی۔ بچوں کے لمبے بال قینچی سے کاٹے جاتے۔ قینچی درس گاہ کی نچلی منزل کے ساتھ ملحق دکان میں کام کر رہے درزی سے مانگ کر لائی جاتی تھی۔ جو بچہ جوا کھیلتا ہواپکڑا جاتا یا کسی سنیما میں گھومتا پھرتا ملتا ،اس کے چہرے پر اصلاح کی غرض سے مٹی کی لپائی کی جاتی۔ عشاء نماز ایک ساتھ درس گاہ میں ہی ادا ہوتی۔ اگر مولانا امامت فرماتے تو تکبیر (اللہ اکبر) بہت ہی مختصر کہتے۔ہر سال دو سال بعد درسگاہ میں نیا رنگ روغن کیا جاتا۔ بڑے بچے اس میں معاون بنتے اور چائے وغیرہ جناب فاروق احمد قاصد کے گھر سے آتی۔ مدرسے میںایڈمیشن کے وقت بچے کے والد کو داخلہ فارم جمع کرانا ہوتا ، ایڈمشن فارم میں سیاست سے لاتعلقی کی شق بھی درج تھی۔ مدرسہ مغرب نماز کے ساتھ کھلتا، نماز با جماعت ہوتی، پھر ایک رکعت باجماعت بالجہر( بآواز بلند) پڑھی جاتی،اس کو پرئیر کہا جاتا۔ تین سینئر بچے اس پرئیر کی پیشوائی کرتے۔ اس ایک رکعت کے بعد کھڑے ہو کر اور ہاتھ اُٹھا کر قنوت کے ساتھ بلند آواز میں چار دعائیں پڑھی جاتی تھیں۔ رمضان میں مدرسہ عصر کے بعد ہی کھلتا اور پرئیر میں چار کے بجائے پانچ دعائیں پڑھی جاتیں۔ پانچویں دعا روزہ کھولنے کی ہوتی تھی۔ مدرسے کانصاب سادہ تھا۔ پہلے تیسیر القرآن پھر قرآن مجید کی ایک ایک آیت کو تجوید کے ساتھ پڑھتے سنتے مکمل قرآن مجید پڑھایا جاتا۔ تختہ سیاہ کا استعمال خوب ہوتا تھا۔ مدرسین آپس میں ادب واحترام کے ساتھ نطق و کلام کرتے۔ ایک کلاس کو گروپ کہا جاتا تھا۔ ہال کے چار کونے چار کلاس روم تصور کئے گئے تھے۔ نچلی منزل میں واقع کمرے میں بھی کلاس ہوا کرتی تھی۔ جب ایک گروپ ایک پارہ مکمل کرتا تو اس کا اندراج مولوی صاحب خود تاریخ ِاختتام پارہ اور گروپ میں شامل طلبہ کے ناموں کے ساتھ ایک رجسٹر میں کرتے تھے۔سفید ٹوپی پہننا مدرسہ میں واجب قرار دی گئی تھی۔ چھٹی لینے کے لئے مولوی صاحب کے نام اردو میں والد کے دستخط کے ساتھ درخواست جمع کرانی ہوتی تھی۔ حاضری کشمیری میں کی جاتی۔ رول نمبر کشمیری میں پکارے جاتے اور بچے عربی میں لبیک کہہ کر حاضری لگوا دیتے۔ سات دن مسلسل غیر حاضر رہنے کی پاداش میں بچہ اسٹرک آف ہوتا۔ پھر اس اسٹرک آف بچے کا والد صاحب اس کے ساتھ آتا اور مولوی صاحب کی منت سماجت کرتا۔ اگر مولانا موصوف مان گئے تو اس سے بھی بڑی سزا ملتی یعنی بچے کو نیا رول نمبر اجراء ہوتا تھا جو رجسٹری میں سب سے آخری رول نمبر ہوتا تھا۔ یہ بچے کی انتہائی درجہ کی عقوبت شمار ہوتی تھی۔ اصل میں پہلے دس رول نمبر والے طلبہ کو مدرسہ میں سینئر سٹوڈنٹ مانا جاتا تھا۔ میری طالب علمی کے دوران ایک لڑکا جو شال خاندان سے تھا، طویل عرصہ تک پہلے رول نمبر پر قابض رہا۔ یہ لڑکا عربی بولتا تھا اور بعد میں وہ ایک حادثے میں جوان مرگ ہوا۔مدرسہ سلفی تحریک کا ترجمان تھا۔ کسی بھی بدعت کو سختی سے دبایا جاتا تھا۔ ہال میں ایک تختی آویزان رہتی تھی جس میں جلی حروف میں درج تھا ــ’’داتا کون؟‘‘۔ یہ تختی باہر سے بن کر آئی تھی۔ ہال کی مشرقی دیوار میں دو مقفل الماریاں تھیں جن کی چابی مولانا موصوف کے پاس رہتی تھی۔ ان الماریوں میں مکبر مشین، رسید بک اور دوسری سٹیشنری رہتی تھی۔ مغربی دیوار میں بھی دو الماریاں پیوست تھیں ،ان میں مدرسہ کی چھوٹی سی لائبریری آراستہ تھی۔فرش پر ابتداء میں کشمیری چٹائی جسے ’’وگوو‘‘ کہتے ، بچھا ہوتا تھا۔ بعد میں اس پر سبز رنگ کا نماز والا ٹاٹ بچھا دیا گیا۔ دونوں سینئر مولانا چرم قربانی سے بنے بستے پر بیٹھتے تھے۔ البتہ مولانا موصوف کی کمر میں چونکہ تکلیف رہتی، اس لئے لکڑی کے ایک پھٹے سے ٹیک لگا کر نشست کر تے تھے۔ فرنیچر کے نام پر 10سے15لکڑی کی چھوٹی میزیں تھیں جن کو ہم پیر کہتے تھے۔ اجتماعات کے لئے ایک اونچی میز تھی جس کو ہم ڈائس پکارتے تھے۔ اس ڈائس کے اگلے حصہ پر اور ایک پیر کے بیچ میں ’’مدرسہ محمدیہ‘‘لکھا ہوا تھا۔میری دانست میں مدرسہ نے دو رسالے بھی شائع کئے جن میں پہلا ’’اجتہاد و بدعت‘‘از مولانا غلام نبی میر اور دوسرا رسالہ ’’تقلید کیا ہے؟‘‘از الشیخ احمد بن حجر (قطر) شامل ہے۔ موخر الذکر رسالے کا اردو ترجمہ مرحوم مولانا محمد اسماعیل اثری رحمہ اللہ نے کیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ جس دن مولانا غلام نبی وانی کی شادی تھی، درسگاہ میں کوئی تعطیل نہیں منائی گئی۔ کشمیر میں عسکریت شروع ہوئی تو یہ مدرسہ شدید متاثر ہوا۔ اس کے مین دروازے پر دو دہائی تک بنکر بنا رہا۔ اس صورت حال میں جناب فاروق احمد قاصد نے اس کے انتظام کو اپنے ہاتھ میں لے کر بڑی خوبی کے ساتھ اس کو جاری رکھا۔ بعد ازاں انہوں نے اس مدرسہ کو بچیوں کے لئے بھی کھول دیا۔اس مدرسہ کا فیس اسٹریکچر واجبی یعنی ہر ایک کے لئےaffordable تھا ۔ ۱۹۸۸ء میں ایڈمیشن فیس مبلغ ۵؍ روپے اور ماہانہ فیس ۳؍ روپے تھا،بغیر پیشگی اطلاع یا اجازت چھٹی کرنے پر پچیس پیسے فی روز کے حساب سے جرمانہ ہوتا تھا۔ چرم ہائے قربانی کے علاوہ رمضان کے مہینے میں طلبہ ایک دو روپے کا ٹوکن بک ہاتھ میں لے کر چندہ جمع کرتے تھے۔ راقم نے بھی غالباً ۱۹۹۸ء میں رمضان کے مہینے میں تھوڑا سا چندہ جمع کیا۔ہمارے بچپن میں ایک بالغ و خوش شکل نوجوان مولانا غلام نبی وانی رحم اللہ کے پاس الگ سے’’ تیسر القرآن ‘‘قاعدہ پڑھتا تھا۔ ہم بچوں میں یہ بات کن سوئی کی صورت میں عام تھی کہ یہ خوش شکل نوجوان کوئی پنڈت تھا جس نے انہی دنوں تاریخی جامع مسجد نوہٹہ سری نگر میں اسلام قبول کیا تھا۔ و اللہ اعلم بالصواب۔
مولانا غلام نبی وانی رحم اللہ کا اظہارتشکر اہالیانِ کاک محلہ کے نام:راقم (غلام نبی) کاک محلہ نوہٹہ کے تمام مسلمانوں، بھائیوں، عزیزوں اور رفیقوں خاص کر منتظمین مسجد کا بے حد شکر گزار ہے، انہوں نے اپنے بچے اور بالغ مدرسہ میں داخل کئے اور مدرسہ کے دوام کے لئے ہر وقت، ہر قسم کے تعاون سے دریغ نہ کیا۔(تقلید کیا ہے؟ ص 31۔) 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کولگام میں آدھی رات کو بھیڑ بکریوں کی بڑی چوری، 136 بھیڑیں غائب
تازہ ترین
اردو کسی مذہب کی علامت نہیں بلکہ جموں و کشمیر کے تشخص کی دھڑکتی نبض ہے: وحید پرہ
تازہ ترین
سرینگرمیں متحدہ مجلس علماء کا اہم اجلاس منعقد، فرقہ وارانہ اشتعال انگیزیوں کے تدارک کے لیے پینل قائم
تازہ ترین
وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کا ڈوڈہ سڑک حادثے پر اظہارِرنج
تازہ ترین

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?