چمنستان علم وفن کے دیدہ ور، شبستان فضل ومعرفت کے گوہر شب تاب، ممتاز اسلامی اسکالر معروف عالم دین‘ عربی زبان وادب کے عظیم شناور ،انشاء پرداز اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیمات مولانا سید محمد واضح رشید حسنی الندوی بتاریخ ۱۶؍جنوری ۲۰۱۹ء بوقت اذان فجر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔اناللہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی الندوی کی پیدائش رائے بریلی میں ہوئی‘ آپ نے ندو ۃ العلماء لکھنؤ سے عا لمیت اور فضیلت کی سند حاصل کی، علی گڑھ یونیورسٹی سے انگریزی زبان وادب میںB,Aکیا ،آپ عربی زبان وادب کے ماہر تھے ، چنانچہ عربی زبان میں۲۰؍ اور اردو میں ۱۰؍ سے زائد کتابیں اور سینکڑوں کی تعداد میں مقالات ومضامین تحریر فرمائے، آپ عربی رسالہ’’ الرائد‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور عربی زبان کے معروف مجلہ’’ البعث الاسلامی ‘‘کے معاون مدیر تھے۔ عربی زبان وادب کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو صدر جمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ آپ نہایت سلیس زبان میں لکھتے تھے، آپ کئی ملی تنظیموں اور اداروں کے رکن بھی تھے ۔مرحوم کا شمار عصر حاضر میں ان علمائے رُبانین میں ہوتا تھا جن کی مقبولیت عالم عرب میں بھی ہے۔ آپ ایک دردمنداسلامی اسکالر تھے۔ دراصل ہندوستان علم وفضل اور مردان راہ دان پیدا کرنے میں اپنی مثال۔ آپ کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ عالمی حالات پر گہرامطالعہ تھا، فکری موضوعات پر آپ کی لگ بھگ دودرجن کتابیں ہیں ۔ آپ یورپ کے تعلیمی نظریات سے بھی واقف تھے اور اقوام یورپ کے عروج وروزال کی تاریخ کا خاص کرآپ نے خوب گہرامطالعہ کیا تھا ۔ آپ کے وصال ابدی سے علمی دنیا اور جہان ِ اردو ادب میں بڑا خلا پیدا ہوا۔ قابل ذکر ہے کہ بھارت فروغ اشاعت علم دین کے حوالے سے ایک ایسی زرخیز سرزمین ہے جہاں مختلف علوم وفنون کا غلغلہ ہے، جہاں دینی علوم ودانش کے ستارے تاریخ کے ہر دور میں چمکتے نظر آتے ہیں، جہاں فروغ علم اور اشاعت دین عوام وخواص میں مقبول ہیں۔ انہی خادمانِ دین وملت کے قافلے کے ساتھ مولانا محمد واضح رشید ندوی ؒ بھی آبلہ پائی کرتے رہے اور اپنے رشحاتِ قلم سے ایک دنیا سیراب کر تے رہے ۔ چونکہ زبان وادب سے صحافت کا رشتہ چولی دامن کارہا ہے ، موصوف نے بھی اس قدیمی رشتے کو نبھاتے ہوئے رسائل وجرائد کی ادار ت سے انہیں چار چاند لگائے ۔ آپ کے ادبی کاوشوں کی برسات سے قارئین باتمکین کے فکر ودانش کو تازگی،افکار نو کی بوقلمونی، لسانی شعور اور مذہبی فہم و فراست کی عطر بیزی حاصل ہو تی رہی ۔ مولانائے مر حوم نے ہمیشہ اہل نظر اورا رباب ِشوق کو اپنے جاندار علم اور شاندار قلم مستفید فرمایا۔ درحقیقت ایسے جامع الکمالات اور مردان ِمیدان آج کل کم ہی پیدا ہوتے ہیں ، اس لئے ایسے ہی علماء پر’’ موت العالم موت العالم ‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے ۔ قحط الرجال کے اس دور میں ایسے باکمال لوگوں کے اُٹھ جانے پر جس قدربھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ مولانا محمد واضح رشید ندوی ؒ کو قدرت نے جو علم وکمال عطا کیا تھا ،آپ کی گرانمایہ تحریریں اس کا وافر ثبوت ہیں ۔ آپ کا لکھا ہوا ہر ہر لفظ قاری کو اپنا گرویدہ بنانے والا ہوتا اور بولا ہوا ہر ہر جملہ آپ کے داعیانہ خلوص، ہمہ دانی اور جذبہ ٔ اصلاح کا آئینہ دار ہوتا۔
۲۰۱۸ء ماہ اکتوبر میں مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی ؒ کی حیات اور کارنامے سے معنون دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات کے زیر اہتمام بین الاقوامی سیمینار منعقد ہوا تھا۔ اس تاریخی سیمینار میں ملک وبیرون ملک سے کثیر تعداد میں ارباب ِعلم و دانش نے شرکت فرمائی تھی جن میں مولانا سید محمد واضح رشید ندوی ؒ بھی تھے۔ آپ کی تحریروں کو اخبار رسائل وجرائد میں پڑھا تھا مگر دیکھنے اور سننے کا اتفاق اسی موقع پر ہوا۔ برسبیل تذکرہ یاد آیا کہ سیمینار کے دومقالہ نگار حضرت مولانا عبد الرشید بستوی اور ملک وملت کے بے لوث خادم مولانا اسرار الحق قاسمی ؒ بھی تھے جو چند ماہ قبل واصل بحق ہوگئے ۔ علمی ودینی حلقے ان کی وفات کا ابھی سوگ ہی منار ہے ہیں کہ مولانا سید محمد واضح رشید ندوی نے موت کی صورت میں دائمی فرقت کا داغ دیا ۔ آپ کی موت بلاشبہ ملت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ مرحوم کے ساتھ بالمشافہ ملاقات سال گذشتہ کے اسی مفکر ملت سیمینار میں ہوئی تھی۔ وہ لمحات زندگی بھر یاد رہیں گے۔ آپ کی گفتگو کا انداز انتہائی جاں گداز تھا، مختلف موضوعات اورمسائل پر آپ سے جی بھر کر باتیں ہوئیں ۔دنیائے علم وتحقیق کے اس بحر ذخار شخصیت سے وابستہ یادوں کو میں اپنے لیے سرمایۂ افتخار سمجھتا ہوں۔ آپ اردو عربی زبان وادب کے نہ صرف منجھے ہوئے ادیب تھے بلکہ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی الندوی ؒ کے علوم وافکار اور تصانیف کے وارث وامین بھی تھے۔آپ مفکر اسلام کے فکری اساسوں کا جائزہ لیتے اور صحیح معنوں میں اپنے اسلاف کے نقش ِقدم پر چلنے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ دور ِحاضر کے ادباء وعلماء کا تعارف کرا نے میں آپ مشاق تھے۔ آپ کے قلم سے خاندانی شرافت کاپرتو جھلکتا ، یہ تحریریں تہذیب وشائستگی ،تقویٰ وطہارت اور اخلاص وللہیت کی مظہر ہوتیں ۔ ا س لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ آپ کی موت ایک فرد کی موت نہیں، بلکہ ایک تحریک کی موت ہے۔ آپ کے علم ومطالعہ کی گہرائی وگیرائی اور پختگی ٔ فکر کا نقش ہر کتاب سے دل میں ثبت ہوتا ہے ۔ آپ صرف زبان وادب کے لذت آشنا اور اسیر ہی نہیں بلکہ علمی اور دعوتی دنیا کے ممتازسفیر بھی تھے۔ دنیائے علم وادب میں آپ نے اپنا مطالعہ کسی ایک فکر وخیال یا کسی ایک مخصوص تہذیب وتمدن تک محدود نہ رکھا بلکہ خذماصفاودع ماکدر کی حکمت پر عمل پیرا ہو کر علم کے گلستان کی خوشہ چینی کی ۔ آپ نے عصری تقاضوں کے مطابق تحقیق وتنقید کے نئے زاویئے متعین کرکے میدان علم وادب کو شہ پارے دئے۔ مرحوم کے مضامین و مقالات ’’الرائد ‘‘اور’’ البعث الاسلامی‘‘ اوردیگر معیاری رسائل وجرائد کی زینت بن کر ان کے علمی معیار میں اضافہ کا سبب بنتے رہے ۔ اپنے تبحر علمی کی طرح آپ حسن واخلاق کا پیکر بھی تھے اور آپ کی شخصیت میں بڑی دل آویز ی تھی۔ مختصراً آپ ایک ایسی عظیم علمی شخصیت اور بلندپایہ انسان تھے کہ جس کے انتقال نے علم وفکر کا جہان سُوناسُونا چھوڑ دیا ہے۔بہر حال! مولانائے مرحوم نے زندگی بھرراہ ِمستقیم اپنائی اور علمی دنیا میں ناقابل فراموش یادگاریں چھوڑی ہیں ، وہ آنے والے ہر زمانے میں داعیان ِ دین ، اصلاح کاروں اور عامتہ الناس کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ دعا ہے کہ رب کریم دنیائے ا سلام کے عالم ِکبیر وبے نظیر ادیب و مصلح علامہ سید محمد واضح رشید ندوی پر اپنا خصوصی رحم وکرم فرمائے ،انہیں صدیقین کا مقام ومرتبہ عطا فرمائے ،بہشت بریں میں ان کے درجات بلند فرمائے، اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے اور پوری امت کی جانب سے انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور مولانا ئے مرحوم کے پسماندگان میں سلسلہ خیر وبھلائی جاری و ساری رکھے۔ آمین یارب العالمین
رابطہ نمبر : 9682327107/9596664228
E-mail.- [email protected]