Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

آہ !محمود الرحمٰن مرحوم

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 18, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
25 Min Read
SHARE
9جولائی2017کی صبح انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کو ہاتھ میں لیا توجناب محمودالرحمٰن صاحب کے وفات کی اندوہناک خبر ان کی تصویر کے ساتھ نظر آئی ۔مجھے ایسے لگا جیسے میرا کوئی قریبی عزیز مجھ سے جدا ہوا ہو۔وہ واقعی میرے محسن تھے اور مجھے ان سے گہرا قلبی لگائو تھا ۔مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں ،انہوں نے اپنی زندگی میں اتنے مدارج طے کئے اور اتنے اعلیٰ عہدوں اور مراتب پر فائز رہے اور اتنے کارہائے نمایاں انجام دئے کہ اس مختصر سے مضمون میں ان کا خلاصہ کرنا ممکن نہیں۔اس لئے یہاں پر میں ان کے ساتھ ذاتی تعلق کے بارہ میں ہی بات کروں گا۔ریاستی سروس میں غالباً انہوں نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ سوپور کی حیثیت سے آئی اے ایس کے بعد اپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔وہ اس وقت کے ڈویژنل کمشنر جناب ایس اے ایس قادری صاحب کے فرزندنسبتی تھے ،بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر ڈیولپمنٹ اسلام آباد ،ڈیولپمنٹ کمشنر لداخ ،کمشنر سیکریٹری اگریکلچر ،کمشنر سیکریٹری انڈسٹری ،کمشنر سیکریٹری صحت عامہ ،پرنسپل سیکریٹری ٹو چیف منسٹر ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم،وائس چانسلر مسلم یونیور سٹی علی گڑھ ، چیرمین فائنانس کمیشن ،چیئرمین مرکنٹائل بنک ممبئی وغیرہ کے کلیدی عہدوں پرفائز رہے ۔اور بالآخر جمعتہ المبارک 7جولائی کو لکھنو کے ایک ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور 9جولائی اتوار کو اُن کے آبائی مقبرہ واقع بالندہ فتح پور اتر پردیش میں سپرد خاک کئے گئے   ؎
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں 
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
جناب محمود الرحمن مرحوم سے میری پہلی ملاقات 1976میں گاندھی بھون جموں میں منعقدہ اگریکلچر گریجویٹس کے ایک ریاست گیر کنونشن میں ہوئی جس کی صدارت اس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ مرحوم مرزا افضل بیگ کررہے تھے اور جس میں ریاستی حکومت کے سرکردہ اراکین کے علاوہ جناب محمود الرحمن سیکریٹری ایگریکلچر کی حیثیت سے مدعو تھے ۔جموں وکشمیر ایگریکلچر گریجویٹس ایسوسی ایشن کے صدر کے طور میں نے اس کنونشن میں افتتاحی تقریر کی ۔میری تقریر کافی طویل تھی جس میں ایگریکلچر گریجویٹس کو درپیش مسائل کے علاوہ حکومت کی زرعی پالیسی کے حوالہ سے ذمہ دارین حکومت کی توجہ دلائی اور حکومت کی غلط پالیسیوں کی کڑی تنقید کی۔میری تقریر اعداد و شمار سے مربوط تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ جذباتی تھی ۔ حاضرین بار بار زور دار تالیوں سے میری زبان سے نکلے ہوئے ہرحرف کی تائید کرتے تھے اور اس طرح کنونشن ہال میں ایک ہلچل سے پیدا ہوئی ۔حاضرین کی طرف سے باربار کے واہ  واہ اورجوش وخروش کے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹریڈ یونین لیڈری کے خمار میں آتے ہوئے میں اپنی خطابات کی تلواریں لہراتا رہا اور میرے پاس الفاظ کے جوبھی دستی بم اور ہتھ گولے تھے، میں نے انہیںڈاکٹر علامہ اقبالؔؒکے اشعار سے مزین کرکے کنونشن ہال میں ایک کہرام سا مچادیا ۔اس کے نتیجے میں صدر نشین مرحوم محمد افضل بیگ کے چہرے کی رنگ اور رونق بگڑنے لگی ،یہاں تک کہ غصے سے کہ ان کے کانوں کی کنپٹیاں بھی لال ہوگئیں ۔ایسا لگ رہا تھا کہ صدر نشینی ہال سے رفوچکر ہونے کی راہ ڈھونڈرہے ہوں کیونکہ ارباب ِاقتدار کے کالی کرتوتوں کو منظر عام پر لانے میں،میں نے اپنے طور کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی ۔ جناب پیر محمد حسین صاحب موجودہ وائس چیرمین وقف بورڈ جموں وکشمیر جوکہ بیگ صاحب کے معتمد خاص تھے ،ایگریکلچر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے کنونشن ہال میں سرگرم تھے۔ اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے بیگ صاحب کے پاس سٹیج پر آئے ،کچھ دیر ان سے سرگوشی ہوئی اور انہوں نے مجھے اشارتاً ذرا سا نرم اور دھیما لہجہ اختیار کرنے کا سگنل دیا اور میں نے اسی کے مطابق اپنی گرم گفتاری میں لچک پیدا کی ۔ماحول سدھر گیا ۔ایک ایک کرکے دوسرے مقررین اسٹیج پر آئے ۔جناب محمود الرحمٰن صاحب نے سیکریٹری ایگریکلچر کی حیثیت سے ایک مختصر سی مگر جامع تقریرمیں حکومت کے نقطہ نظر کی وضاحت کی ۔بعد ازاں بیگ صاحب نے صدارتی خطبہ دیا اور کنونشن میں شریک مہمان اور دیگر شرکاء Buffctطرز کی ضیافت کی طرف لپکے۔جناب محمود الرحمن صاحب نے بھی ایک پلیٹ سجائی ،میں ابھی اپنی پلیٹ اٹھا ہی رہا تھا کہ انہوں نے میرے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے لان میں ایک طرف لے کر اُن ہی پلیٹ share کرنے پر مجبور کیا ۔اس وقفہ کے دوران میرا ان سے تعارف ہوا اور پہلی ملاقات میں ہی میرے او پر جیسے سحر کیا ۔مجھے بھی نہیں معلوم کہ وہ میری کس ادا سے متاثر ہوئے کہ 1976میں قائم ہوا ،اور کافی دیر تک جاری رہا۔البتہ ممبئی میں اُن کے منتقل ہوجانے کے بعد ہمارا کوئی رابطہ نہیں رہا ۔
اپنے سروس کیرئیر کے دوران اور ایگریکلچر گریجویٹس ایسوسی ایشن کے صدر اور آل انڈیا فیڈریشن آف ایگریکلچر ٹیکنو کریٹس کے سیکریٹری کی حیثیت سے مجھے بار بار ان کے ساتھ میٹنگیں کرنے اور ملاقی ہونے کے مواقع میسر آتے رہے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اُن کی جواں سال اہلیہ کا انتقال ہوا توراج باغ سرینگر میں اُن کی رہائش گاہ پر ان کے غم کو غلط کرنے کے لئے جناب محمد اکبرڈار صاحب ،وائس چانسلر ایگریکلچر یونیور سٹی اور میں ان کو سہارا دیتے رہے ۔میں نے ان کے گفتار اور کردار سے محسوس کیا کہ وہ ایک حساس مسلمان تھے اور ان کے سینے میںایک مومن اور مسلمان کا دل دھڑکتا تھا ۔وہ سچے محب وطن تھے لیکن فرقہ پرست نہیں۔انہوں نے یو پی میں جنم لیا لیکن اس سے کہیں زیادہ انہیں کشمیر اوراہل کشمیر سے اُنس اور پیار تھا ۔اسے میں نے تب محسوس کیا جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدہ پر فائز تھے اور جب مجھے ان کے دفتر میں رات کے نو بجے تک ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ۔کھانے پینے کے معاملے میں علی گڑھ میں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں کو درپیش مسائل کے بارے میں جب نے اُن کی توجہ مبذول کی تو انہوں نے یونیورسٹی کینٹین میں کشمیری طرز کا کھانا فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔وہ ایک بہترین اہل قلم،سکالر اور دانش ور تھے ۔وہ میری غیر سرکاری سرگرمیوں سے بھی واقف تھے اور اسلامک اسٹیڈی سرکل ،اقبال میموریل ٹرسٹ ،اسلامک ایجوکیشنل سوسائٹی ،ہفت روزہ ’ترجمان الحق ‘،ماڈل پبلک سکول سوپور اور دوسرے اداروں سے بلواسطہ یا بلا واسطہ میری وابستگی کے بارے میں بخوبی جانکاری رکھتے تھے اور اس بات پر حیران تھے کہ میں کس طرح سرکاری ذمہ داریوں کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ ان تعمیری سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتا ہوں اور ان کے لئے وقت نکالتا ہوں ۔وہ مجھے مذاقاً کہا کرتے تھے کہ اگر میں اپنے کسی ادارے میں ان کی نوکری کا انتظام کراسکوں تو وہ بھی خوشی سے ان کے شانہ بشانہ سوسائٹی کے لئے کچھ کرنے کو تیار ہیں۔
ایگریکلچر گریجویٹس ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے میں نے ان کے نام ایک D.O .Letter لکھ کر محکمانہ ترقیوں کے آرڈر میں چند بے ضابطگیوں کی شکایت کی ،جو اُن کی غیر حاضری میں اجرا ء ہوا تھا اور جس میں 46ضلعی سطح کے پوسٹوں میں صرف 9مسلمانوں کو جگہ ملی تھی۔ انہوں نے مجھے دفتر میں بلاکر اگرچہ اپنی سطح پر ان شکایات کے ازالہ کی یقین دہانی کرائی، ساتھ ہی مشورہ دیا کہ میں آئندہ اپنی تحریروں میں جو کہ سرکاری ریکارڈ میں رہتی ہیں ،تلخ الفاظ کے استعمال سے گریز کروں ۔
1980ء میں جب راقم ایریا ڈیولپمنٹ آفیسر کے عہدہ پر فائز تھا تو انہوں نے میرا تبادلہ اسسٹنٹ کمشنر پونچھ کے طور کیا ،جومیرے لئے خانگی ذمہ داریوں کی وجہ سے قابل قبول نہ تھا ۔ اگرچہ میرے اصرار پر انہوں نے اس آرڈر میں ترمیم کرکے مجھے اپنی پہلی پوسٹنگ پر ہی رہنے کا موقعہ دیا لیکن وہ کافی عرصہ تک مجھ سے ناراض رہے کہ میں نے ان کی مرضی کی پوسٹنگ پر جانے سے انکار کیا۔وہ مجھے کسی اہم پوسٹ پر تعینات کرکے میری صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتے تھے ۔بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری قربت بڑھنے لگی اور انہوں نے مجھے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ سے ہارٹی کلچر ڈیپارٹمنٹ میں تبدیل کرکے انفارمیشن اینڈ پبلی کیشن آفیسر کے طور پر تعینات کر واکے میری صلاحیتوں کو نئی جہت دینے کی کوشش کی ۔فاروق عبداللہ کے دور اقتدار میں لال منڈی سرینگر میں منعقدہ ایگریکلچر گریجویٹس کے کنونشن میں جس کی صدارت وزیر اعلیٰ کررہے تھے ،جب میں نے اپنی تقریرکی ابتدا ء    ؎
نااہل کو حاصل ہے یہاں عزت و توقیر  
ہے خوار زمانے میں مگر جوہر ذاتی
 شعر سے کی تو فاروق عبداللہ نے کھڑے ہوکر مجھے بار بار یہ شعر دہرانے پر مجبور کیا اور مرحوم محمود الرحمن نے اپنی تقریر میں میری کافی ستائش کی اور محکمہ میں بڑھتی ہوئی انار کی ،بدعنوانی اور کورپشن کے خاتمہ کے لئے میری جدوجہد کو سراہا ۔ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت سے مجھے بار باران سے ملنے اور ایگریکلچر گریجویٹس کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں گفت وشنید کے مواقع ملے ۔وہ اپنے دفتر میں دیر گئے تک فائلوں کے Disposalمیں منہمک رہتے تھے لیکن مجھے اپنے کمرے سے جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔یہاں پر ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ ایک شام جب میں ان کے دفتر میں موجود تھا تو انہوں نے اپنے پی اے کو بلاکر تمام فائلوں کو ان کے ٹیبل پررکھنے کی ہدایت دی تاکہ وہ دیر گئے تک ان کو کلیئر کرپائیں ۔پی اے صاحب فائلوں کے ایک بڑے انبار کو قرینے سے ٹیبل پر رکھ کر چل دئے ۔محمود صاحب نے مجھے بتایا کہ میں اوپر کی دس فائلوں کو پلٹ کر سب سے نیچے رکھوں ۔میں نے حکم کی تعمیل کی لیکن ساتھ ہی ان سے استفسار کیا کہ آخر اس میں کیا تُک ہے کہ بنا دیکھے اوپر کی دس فائلوں کو الٹاکر سب سے نیچے رکھا دیا گیا ۔انہوں نے فرمایا کہ باوثوق ذرائع سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ میرے P.Aکی جیب گرم کرتے ہیں ،انہی کی فائلوں کو سب سے اُوپر رکھا جاتا ہے تاکہ بلا تاخیر ان کا ڈسپوزل ہوسکے اور جو ایسا نہیں کرتے اور اپنے دفتری یا فیلڈ میں اپنے سرکاری فرائض انجام دینے میں محو رہتے ہیں وہ مہینوں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ان کی فائلیں یا توپی اے کے ٹیبل کے دراز میں رہتی ہیں یا فائلوں کے انبار کے نیچے۔اس طرح ایسی فائلوں کو نظر انداز کرکے پی اے صاحب اپنی شاطرانہ چالوں سے میری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے ۔اس کے علاوہ وہ بغیر کسی اطلاع کے ہال میں جاتے اور کلرک حضرات کے ٹیبل کی دراز کی بغیر کچھ بتائے تلاشی لیتے تھے اور ایک اچھی خاصی رقم جمع کرتے تھے اور کسی باہر کے آدمی کو کلرک کے بغل میں بیٹھے پاتے تو اس کو اپنے ساتھ کمرہ میں لے کر پوچھ تاچھ کرتے تھے۔اپنے دفتر میں رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے کا جو یہ طریقہ انہوں نے اختیار کیا تھا ،اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آتے تھے اور لال فیتہ شاہی کا سلسلہ ان کے وقت میں کافی حد تک ختم ہوا تھا ۔
وہ صرف ڈاک پیڈ میں رکھے ہوئے کاغذات کو روایتی طور متعلقہ سیکشن کو مارک کرنے کی بیروکریٹوں کی روایت کے قائل نہیں تھے بلکہ ہر کاغذ کو بین السطور پڑھ کر اہم جگہوں پر انڈر لائن کرکے ضروری نوعیت کے فائلوں کو ذاتی طور پر اپنے ایڈیشنل سیکریٹری کو بلاکر ان کو ضروری ہدایات دے کر ان کی فوری ڈسپوزل کراتے تھے اور جو کا غذات ہال میں مختلف سیکشنوں کو جاتے تھے ان کے لئے بھی اپنی سطح پر ہی ہدایات جاری کرتے تھے اور اہم نوعیت کی فائلوں کو اپنے ہی دفتر میں موقعہ پر ہی بلاکر شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔میں نے ذاتی طور اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بعض غیر معمولی نوعیت کے معاملوں میں وہ اپنے ماتحت آفیسروں کے نام D.o cetter لکھ کر ان کی شکایات کا فوری ازالہ کرتے تھے۔وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کی حیثیت سے بھی انہوں نے RED TAPISAMکا خاتمہ کرنے اور ورک کلچر کو بحال کرنے میں نمایاں رول ادا کیا تھا۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم کی حیثیت سے ایگریکلچر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے نام ایک توصیفی خط میں انہوں نے مجھے ANOLD FRIENDکے طور متعارف کرایا تھا ۔ان دنوں میں کپوارہ میں ڈسٹرکٹ آفیسر کے عہدہ پر فائز تھا اور جب سرینگر آتا تھا تو ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ان سے ملنے ضرور جاتا ،جہاں وہ میرے شناختی کارڈ کو ہاتھ میں دباکر فرصت کے لمحات میں لان میں دیر تک چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے محو گفتگو رکھتے تھے۔جیساکہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں ،مجھے نہیں معلوم کہ وہ میری کس ادا کو پسند کرتے تھے کہ وہ مجھ سے ملنے اور بات چیت کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے اور مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی باک نہیں،میری کیفیت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔
انہی دنوں کپوارہ میں عسکریت پسندوں نے مجھے اپنے دفتر سے اغوا ء کرکے کپوارہ کے سنسان جنگلوں میں پہنچادیا ۔اس واقعہ کے بعد جب مجھے ایک دفعہ ان سے ملنے کا موقعہ ملا تو میں نے ہوم کمشنر کی حیثیت سے باتوں باتوں میں اُن کو آگاہ کیا کہ افواج نے کپوارہ کی سڑکوں پر راہ گیروں کو گاڑیوں سے اُتار کر گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کرکے اُن کا جینا حرام کردیا ہے، برعکس اس کے جس پرائیویٹ گاڑی میں ملی ٹنٹ دن دھاڑے مجھے اغواء کرکے لے جارہے تھے اس کو روکنے کی ہمت نہیں جُٹا پائے تو میری کہانی پر وہ اپنی ہنسی کو نہ روک پائے اور اس بات کی پیش کش کی کہ اگر میں چاہتا ہوں تو مجھے سیکورٹی فراہم کرنے کے علاوہ سرینگر تبادلہ کرانے کا انتظام کرائوں گا لیکن میرے انکار پر کہ میں اپنی جڑوں سے وابستہ رہنا چاہتا ہوں اور اپنے عوام کے دکھ درد میں ان کا ساتھ دینا چاہتا ہوں ،انہوں نے ان انتہائی پریشان کن حالات میں بھی میری داد دی ۔سیکریٹری ایگریکلچر کی حیثیت میں انہوں نے آٹھویں دہائی میں یہاں کی فروٹ انڈسٹری کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت تباہ و برباد کرکے چند مفاد پرست افراد کے منصوبوں پر کاری ضرب لگائی جب وہ سبسڈی حاصل کرنے کے لئے غیر معیاری جراثیم کش ادویات سپلائی کرکے یہاں کے باغات پر تیشہ چلاکر اپنی تجوریاں بھر رہے تھے ۔ان کی دور بین نگاہوں نے بر وقت کاروائی کرنے کی ٹھان لی تھی لیکن سیاست دانوں کے کورپٹ مزاج کو ان کی یہ حرکت راس نہ آئی اور انہیں محکمہ ایگریکلچر سے انڈسٹری اور پھر محکمہ صحت میں تبدیل کیا گیا ۔وہ کچھ دیر انڈسٹری سیکریٹری کے کے عہدہ پر بھی فائز رہے اور جب اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلہ میں رخصت پر فرانس جانے سے پہلے ان کے سامنے سرینگر کے ایک بااثر تاجر کی ایک فائل آئی ،جس میں 38لاکھ روپے کی ٹرانسپورٹ سبسڈی کو جاری کرانے کی سفارش کے لئے ضروری احکامات جاری کرنے تھے ۔انہوں نے اس فائل کو غور سے دیکھنے پر ضروری توضیحات مانگیں جس میں ہر بل کے ساتھ لکھن پور چک پوسٹ کی تصدیق کو لازمی قرار دیا اور فائل کو آگے بھیجنے کے بجائے دفتر کو واپس کردیا ۔متعلقہ تاجر پر ایک بجلی سی گری جب اسے پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ انہوں نے آفیسروں کی ملی بھگت سے فرضی سبسڈی اینٹھنے کا جو آسان طریقہ اپنایا تھا اس کا یہ وار اب ناکام ہورہا ہے تو ناراض ہونے کے بجائے انہوں نے ایک طرف محمود الرحمن کی دیانت داری اور قابلیت سے متاثر ہونے کا ڈھونگ رچایا اور دوسری طرف انہیں محکمہ انڈسٹری سے تبدیل کرنے کے لئے اپنے اثر و رسوخ کے استعمال کا منصوبہ بنایا اور جب محمود صاحب ہوئی اڈہ پر فرانس جانے کے لئے پہنچے تو وہاں اس بااثر تاجر نے انہیں الوداع کیا اور ساتھ ہی یہ گزارش بھی کی کہ ان جیسے قابل،ہونہار اور دیانت دار آفیسروں کی محکمہ انڈسٹری میں نہیں محکمہ صحت میں ضرورت ہے ۔وہ اگر چاہیں تو وزیر اعلیٰ جناب شیخ صاحب سے اس بات کی سفارش کرسکتے ہیں ۔محمود صاحب حیران ہوئے کہ آخر یہ کون صاحب میرے بارے میں اس قدر پریشان ہیں اور میری صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنے کی سوچ رہے ہیں ۔جواباً انہوں نے صرف یہ کہا کہ وہ ایک سرکاری ملازم ہیں اور یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ جہاں بھی چاہیں ان کی خدمات استعمال کرسکتے ہیں اور اس بارہ میں ان کی کوئی پسند یا ناپسند نہیں ۔حیرانی کی بات ہے کہ پندرہ یا بیس دن ملک سے باہر رہنے کے دوران ہی ان کا تبادلہ محکمہ انڈسٹری سے محکمہ صحت میں کروایا گیا اور وہ فرانس سے واپسی پر اپنے آپ کو کمشنر انڈسٹری کے بجائے کمشنر صحت کے عہدہ پر فائز پاتے ہیں ۔اس طر ح وہ بااثر تاجر کسی اعتراض اور قیل و قال کے نئے کمشنر انڈسٹری کے ہاتھوں محکمہ انڈسٹری سے 38لاکھ روپے ٹرانسپورٹ سبسڈی ریلیز کرانے کے احکامات جاری کروانے میں کامیاب ہوئے۔یہ واقعہ انہوں نے مجھے خود بتادیا ہے جب میں نے ایک بے تکلف ملاقات میںاس بارہ میں استفار کیا تھا کہ آخر اتنی جلدی میں انہیں محکمہ انڈسٹری سے محکمہ صحت میں کیوں تبدیل کیا گیا ۔
جب وہ ایگریکلچر کمشنر کے عہدہ پر فائز تھے تو ایک روز ان کے دفتر کے کمرہ میں اندر جاتے وقت مجھے ان کے نام کی تختی پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا ۔"M.REHMAN"َََ۔میں حیران رہا کہ آخر 'RA'کے بجائے "RE"کیوں لکھا گیا ہے ۔میں نے اس طرف توجہ دلائی ۔وہ خاموش رہے ،مجھے معلوم نہیں کہ یہ تختی ان کے مشورہ سے لگائی گئی تھی یا اسٹیٹس والوں نے از خود لگائی تھی ۔میں نے اُن سے گزارش کی کہ ’رحمن ‘ خداوند تعالیٰ کا نام ہے اور ’ ر ‘ پر زبر کی علامت ہے نہ زیر کی ،اس لئے ’ رَحمن ‘ کی جگہ ’رِحمان ‘لکھنا درست نہیں ۔چند دن بعد جب میں پھر دفتر میں حاضر ہو ا تو نام کی تختی کو وہاں سے غائب پایا ۔بعد ازاں ان کی تحریوں میں ،میں نے ہمیشہ ’RAHMAN‘ہی لکھا ہواپایا لیکن دو دہائی کے بعد پھر سے مقامی پریس میں ان کے نام کو REHMANلکھا جارہا ہے ۔مرحوم محمود الرحمن ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے ،وہ بہ یک وقت ایک بیروکریٹ ،ایک سکالر ،ایک اہل قلم ،ایک مقرر اور دانشور تھے ۔وہ بے حد سنجیدہ آدمی تھے ۔صاحبِ دل ہی نہیں صاحب ِذوق بھی تھے ۔فارسی ادب سے ان کو کافی شغف تھا ، دہلی میںاسلامک کلچر سنٹر کے قیام اور مختلف مواقع پر سرکارکی طرف سے قائم کردہ کمیٹیوں کے سربراہ کی حیثیت میں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے کے سلسلہ میں ان کی کاوشوں ،سفارشات اور ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ان کی وفات کے بعد یہ احساس ہورہا ہے کہ ایسی شخصیت کے مالک افراد ڈھونڈے سے بھی ملنے والے نہیں   ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 
کہیں سے آب بقائے دوام لاساقی
بہر حال موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ایک ذی روح انسان کو اس کا مزہ چکھنا ہے   ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری  باری ہے 
ہمارا ایمان ہے کہ موت کے بعد ابدی زندگی کا آغازہوتا ہے ۔ہماری دعا ہے کہ خداوند تعالیٰ مرحوم رحمن صاحب کی لغزشوں کو معاف کرے اور انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے    ؎
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی 
ہے یہ شام زندگی صبح دوامِ زندگی 
فون نمبر 9419052729

 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?