مقصوداحمدضیائی
کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟ ہمارے ہمدم شبو بھائی رشیداحمد بانڈے اچانک ہمیں چھوڑکر چلے گئے کہ دل ماننے کو تیار نہیں اور ذہن قبول کرنے کو راضی نہیں، لیکن مشیت الٰہی یہی تھی، اللہ ہم سب کو صبر عطا کرے۔ گذشتہ رات دیر گئے مولانا سعیداحمدحبیب مدظلہ نائب مہتمم کا بذریعہ واٹس ایپ صوتی پیغام آتا ہے، جسے بدقسمتی سے بر وقت میں نہ سن پایا، جس کا مجھے قلق رہے گا۔ چنانچہ حسب معمول تہجد کے لیے بیدار ہوا اور مبائل ترسیلات میں مولانا مدظلہ کا صوتی پیغام کان کی سماعت سے گزرا، فرمایا کہ ’’شبو بھائی کافی علیل ہوگئے ہیں سرینگر سے واپسی پر اچانک ان کو تکلیف ہوگئی اور وہ اِس وقت صورہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں ،جملہ اساتذہ حفظ سے گزارش ہے کہ سحری میں سبھی درجات میں ان کے لئے خصوصی دعا کریں۔‘‘اس کے بعد ہر لمحہ ’شبو بھائی‘ کی صحت کی فکر دامنگیر رہنے لگی اور دوپہر ہوتے ہوتے رفتہ رفتہ خبرِ وفات گردش کرنے لگی۔ دن کے 1 بجکر 28 منٹ پر قاری جمیل احمد صاحب کی اس خبر سے تصدیق ہوگئی فرمایا کہ’’ ہمارا پیارا بھائی، جس نے زندگی کی تقریباً چوالیس بہاریں صابر اور شاکر ہوکر گزاریں، اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اور پھر کچھ ہی لمحات بعد مولانا سعیداحمدحبیب صاحب کے یہ الفاظ نظروں سے گزرتے ہیں کہ ’’اشکبار ہوں … میرا بازوکٹ گیا … بھائی رشید مرحوم ہوگئے۔‘‘ مولانا کے ان الفاظ نے تو دِل کے بندھن ہی توڑ ڈالے ،یہ خبر خرمن جان کو خاکستر کر دینے والی بجلی تھی، صبر و شکیب کا ہر باندھ توڑ دینے والا سیلاب تھا اور وجود کے تار و پود کو منتشر کردینے والا دھماکہ تھا۔ بارالٰہا! یہ کیا ہوا، یہ کیا امتحان ہے۔ یہ رعنا جوان اتنا جلدی داغ مفارقت دے جائے گا، کبھی خاشیہ خیال میں نہ آیا تھا۔ اس دُکھ بھری خبر کی وجہ سے میں رنجور و مغموم سرجھکائے بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ چوالیس سالہ اس نوجوان کی خبر وفات سے ان کے والد بزرگوار اور ہمارے مربی محسن قوم و ملت حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کی طبیعت پر اس کا کیا اثر پڑے گا، اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک مولوی جمیل احمد ملازم مہمان خانہ جامعہ ہذا کا فون آتا ہے کہ حضرت مہتمم صاحب مدظلہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں، لرزتے ہاتھوں سے فون کان سے لگاتے ہی حضرت والا مدظلہ کی آواز کان کی سماعت سے ٹکرائی فرمایا کہ درجات حفظ میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک پڑھا کر آپ خود ہی بیچارے شبو کے لیے اجتماعی دعا کرادیں ۔حضرت والا کی آواز میں حوصلہ واضح تھا، حضرت والا کی اس کیفیت کو ملاحظہ کرکے دل کا بوجھ ہلکا ہوا، اس سے صبر و ہمت کا ایک سبق بھی مجھے ملا۔ شبوبھائی کا بچپن لڑکپن اور جوانی میری آنکھوں کے سامنے گزرا ،وہ میرے حفظ کے ہمدرس اور زندگی کے جگری دوست تھے، حفظ کے دوران سحر زدہ ہو کر بیمار رہنے لگے اور جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا، کبھی کبھی تکلیف اس قدر شدید ہوجاتی کہ سانس گُھٹنے لگتا، گلا پھول جاتا اور جب افاقہ ہوتا تو تعلیم میں حاضر ہو جاتے۔ لیکن اس مرض کی وجہ سے وہ حفظ کی تکمیل نہ کر پائے ،ناچار تعلیم چھوڑ کر تجارت کا راستہ اختیار کیا،’’حبیب بکڈپو‘‘ آپ کا ہی ہے، وہ محنت و امانت داری کے ساتھ برابر کوشش کرتے رہے، جس کا ثمرہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دیا کہ وہ اپنی ہی محنت و کوشش سے اپنے پاؤں پر کھڑے تھے۔ میری تجوید کی کتاب جب داخل نصاب ہوئی تو دوسری بار ’شبوبھائی ‘نے ہی اپنے خرچے سے چھپوائی تھی اور جب بھی دیوبند وغیرہ جانا ہوتا تو مجھے پوچھ لیتے کوئی کتاب تو نہیں منگوانی؟ مجھے یاد ہے کہ مورخ اسلام محمداکبر شاہ نجیب آبادیؒ کی ’’تاریخ اسلام‘‘ تین جلدیں آپ نے ہی دیوبند سے لاکر مجھے دی تھیں۔ دوکانداری سے وابستگی کی وجہ سے سماج کے ہر طبقہ کے لوگوں سے آپ کے صحت مندانہ تعلقات تھے اور ملی کاموں میں دلچسپی رکھتے تھے، ہسپتال روڈ پر دوکان ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ ہسپتال میں آئے جو لوگ مالی مجبوری کی وجہ سے مجبور ہوتے، اُن کی مدد کے لیے فوراً ہسپتال پہنچتے۔ بطور خاص سرحدی علاقوں میں فائرنگ کی وجہ سے لوگ زخمی ہوتے، ان کے علاج معالجہ کے وقت پیش پیش رہتے۔ مجھے یاد ہے کہ سرحدی گاؤں اسلام آباد کا ایک بچہ حادثے کا شکار ہوا اور اس کے دونوں ہاتھ مفلوج ہوگئے۔ شبوبھائی نے مجھے فون کیا کہ آپ اچھا لکھتے ہیں ،میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک مختصر اپیل لکھیں تاکہ اس بچے کے علاج میں زیادہ سے زیادہ تعاون کیا جا سکے۔ میں نے تعمیل حکم میں لکھا دوسرے روز ملے اور بتایا کہ چالیس ہزار روپے جمع ہوئے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔ ایک بار ہمارے گاؤں میں سرحدی گولہ باری برسات کی طرح ہوئی، جس سے لوگ زخمی ہوکر ہسپتال پہنچے، بعض کو جموں میڈیکل کالج منتقل کیا گیا ،بدقسمتی سے اس پر کہیں سے بھی کوئی معتبر آواز نہیں سنائی دے رہی تھی جوکہ دُکھ کی بات تھی لیکن شبوبھائی نے بذریعہ سوشل میڈیا کھل کر آواز اٹھائی اور حکام بالا سمیت ضلعی انتظامیہ کو بھی خبردار کیا کہ گولہ باری بند کی جائے ،بیچاری عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ آں مرحوم منصف مزاج تھے لوگ اپنے مسائل میں انہیں فیصل بھی بناتے۔ پنچائیت الیکشن میں مولانا سعیداحمدحبیب صاحب جب بحیثیت امیدوار میدان میں اترے تو میں اور شبوبھائی ایک ساتھ الیکشن مہم پر جاتے تھے بلکہ ایک بار تو رات کا قیام بھی ہمارے سادہ سے غریب خانے پر کیا تھا ،مد مقابل ہمارے بزرگِ خاندان مولانا علی اکبر خان صاحب تھے ،خوبی کی بات یہ کہ کسی ایک موقع پر بھی اشارے کنائے میں بھی مدمقابل کے تئیں کمتر بات ہماری زبانوں پر نہیں آئی تھی۔ شادی بیاہ، موت مرگ اور دیگر سماجی و ملی پرگراموں میں پابندی سے شریک ہوتے۔ 2011ء میں میرا حج کا ارادہ بنا تو باصرار مجھے اپنے گھر عشایہ پر بلایا اور ساتھ کھانا تناول کیا۔ میرے بڑے بھائی ماسٹر خوشنوداحمد خاں کے بھی آپ درسی ساتھی تھے، ان کے ساتھ بھی آپ کی دلی ہمدردیاں رہیں، منجملہ خوبیوں کہ ایک یہ یاد آرہی ہے کہ مفتی محمد سعید مرحوم کا دور حکومت تھا۔ ایک روز ہمارے برادر اکبر خوشنوداحمد خاں شہر پونچھ آئے تو شبوبھائی نے پوچھا کہ آپ جموں نہیں گئے؟ بتایا کہ رہبر تعلیم کی پوسٹیں نکل رہی ہیں اور آپ کا نام ان میں شامل ہے ،دو روز بعد وزیراعلیٰ کے ہاتھوں جموں آڈر تقسیم ہو رہے ہیں اور پھر اپنے جیب سے نقدی 500 روپے دئیے اور ایک عدد کپڑوں کا سوٹ بھی دیا اور کہا صبح ہی جموں نکلیں ،اس طرح اس موقع پر بھی انھوں نے ہمیں یاد رکھا۔ شبوبھائی بچپن سے ہی ہمارے جگری دوست تھے اور آپ سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں اور بحمداللہ تعالیٰ یہ تعلق تا دم حیات رہا اور ان شاءاللہ اب ہم جنت ہی میں ملیں گے اور کبھی جدا نہ ہوں گے۔ چنانچہ ہم نے اپنی صف کا ایک ایسا سپاہی کھویا ہے کہ جو ہمہ وقت جماعت کے دفاع کے لیے دامے ، درمے، سخنے، قدمے تیار رہتا تھا۔ چلچلاتی دھوپ اور لق و دق صحرا جیسی زندگی میں بعض لوگ باد بہاری کا جھونکا بن کر داخل ہوتے ہیں تو تن بدن کو جھلساتی دھوپ کی تمازت میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ مشام جاں محبت کی بے لوث خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ بے قرار دل کی گہرائیوں میں راحت اور طمانیت کا احساس اترتا چلا جاتا ہے۔ بھائی رشیداحمد مرحوم کو قدرت نے اخلاق فاضلہ کی حلاوت اور ادائے دلنوازی سے مالا مال فرمایا تھا ۔اس ہمدمِ دیرینہ کی محبت اور دوستی جس قدر باعث تسکین جاں تھی ، اس رونق محفل کی اچانک رحلت اسی قدر صبر و قرار چھین لینے والی تھی۔ وہ زندہ رہے تو ان کی شانِ دلربائی کے ساتھ کہ قلوب و اذہان میں ان سے ملاقات کی تڑپ اور آنکھوں میں ان کی دید کی پیاس تھی۔ اچانک ان کی خبر وفات سنتے ہی ان سے ادنیٰ سی شناسائی رکھنے والے شخص کی آنکھوں سے بھی اشکوں کا سیلِ رواں جاری ہوگیا۔ بھائی رشیداحمد کے سانحہ ارتحال کے حوالے سے لکھتے وقت جلتے بُھجتے الفاظ اور مسلسل الجھتے ہوئے تخیلات کے سامنے خود کو بے بس پا رہا ہوں۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ الفاظ میرے قلم سے روٹھ گئے ہیں۔ قلم رُک رہا ہے ؛ کبھی ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھویا جا رہا ہوں اور کبھی ایک سجی سجائی محفل کی اچانک ویرانی میں الجھا ہوا ہے۔
بھائی رشیداحمد حافظ یا عالم تو نہ تھے لیکن علماء و حفاظ کے بے پناہ قدرداں تھے، تا دم حیات مسنون لباس زیب تن رہا ،صوم و صلوة کے پابند اور صبر و شکر کی وہ ایک مثال تھے، نرم دم گفتگو گرم دم جستجو آپ کا خاصہ تھا۔ جامعہ کے اساتذہ و طلبہ میں سے جو بھی بیمار ہوتا تڑپ اٹھتے ہسپتال پہنچتے اور علاج معالجہ کے سلسلہ میں متحرک رہتے، جامع مسجد بگیالاں میں جمعہ و عیدین میں صفوں کی ترتیب قائم کرنے کا خاص اہتمام فرماتے، نیک مشورہ دینا اور جس کام میں وہ جس طور پر بھی اپنا تعاون دے سکتے ہوں، حتی الامکان تعاون کرنا سخاوت تو آپ کا ترکہ میراثی تھا۔ آپ کے انتقال پرملال کو دور دور تک محسوس کیا گیا ہے بطور خاص جامعہ میں ہر طرف سوگواری و سناٹے کا سا ماحول دکھائی دیتا ہے۔ اساتذہ و طلبہ کی طرف سے مسنون ایصال ثواب اور دعاؤں کا عمل بدستور ہے۔ مورخہ 10 دسمبر 2024ء بروز منگل صبح گیارہ بجے جامعہ ضیاءالعلوم کے شعبہ علوم عصریہ کے وسیع احاطے میں آپ کی نماز جنازہ آپ کے والد گرامی حضرت مولانا غلام قادر صاحب نے پڑھائی ،اس موقع پر وزیر اعلیٰ جناب عمر عبداللّٰہ صاحب نے مع وزراء جنازے میں شرکت کی۔ سرینگر ، جموں ، راجوری مہنڈر، سرنکوٹ اور پونچھ و مضافات سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔نماز جنازہ سے قبل شیخ الحدیث مفتی صغیراحمد مدظلہ مرکزالمعارف بٹھنڈی جموں، شاہی امام مفتی عنایت اللہ قاسمی مدظلہ تالاب کھٹیکاں جموں، مولانا فتح محمد مدظلہ مہتمم دارالعلوم محمودیہ مہنڈر، مولانا عبداللہ قاسمی مدظلہ مہتمم جامعہ محمدیہ قاسم العلوم پونچھ اور مولانا ارشاداحمد ضیائی مدظلہ مہتمم مدرسہ اسلامیہ عربیہ دعوت الحق ہرنی مہنڈر کے خطابات بھی ہوئے، اس موقع پر مولانا لعل الدین حامدی مدظلہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ جنازہ پونچھ کی تاریخ میں سب سے بڑا جنازہ ہے اور بلاشبہ یہ بڑا جنازہ تھا، اس موقع پر غیر مسلم بھائی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، نماز ظہر سے قبل مرکزی جامع مسجد بگیالاں سے متصل قبرستان میں بھائی رشیداحمد کو اشکبار آنکھوں سے سپرد خاک کر دیا گیا۔
استاذ گرامی قدر حضرت اقدس مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ نے قوم و ملت کو جہاں رجال کار عطا کیے، وہاں اپنی اولاد کی بھی بہترین تربیت کی بلاشبہ آپ کے بچوں و بچیوں کا بھی آپ کے علمی دینی دعوتی و ملی کاموں میں بھرپور تعاون رہا ،جو قابل تعریف و تحسین ہے ۔ خدا کرے یہ خوبیاں نسل در نسل یونہی موجود رہیں بہ ہرحال جو آیا سو جائے گا بھی ، لیکن بھائی رشیداحمد جیسے لوگوں کا چلا جانا امت کے حق میں نہایت غم ناک بات ہے۔ ایسے کام کے افراد سے عوام و خواص نجانے کیسی کیسی امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں مگر ہم کچھ بھی کہیں، کچھ بھی سوچیں، راضی بہ رضا ہی رہنا ہے۔ کیونکہ اپنی مشیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔