خواجہ پرویز
گزشتہ دنوں ایک ابھرتے ہوئے سکالر، دانشور اور ادیب ڈاکٹر بشیر احمد شیخ کا انتقال ہوا، جن کا تعلق دردپورہ کپواڑہ سے تھا۔ڈاکٹر بشیر احمد 7 مارچ 1983ء کو ضلع کپواڑہ کی تحصیل کرالپورہ کے قریب درد پورہ گاوں میں محمد عبداللہ شیخ کے گھر پیدا ہوئے ، آپ کا تعلق بٹ خاندان سے تھا جو اس پار کشمیر سے قریباً ڈیڑھ دو سوسال پہلے آئے تھے اور دردپورہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ یہاں ریکارڈ میں انہیں شیخ لکھا گیا لیکن عام طور پر بٹ ہی پکارا جاتا رہا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں درد پوره ست بوین کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد کرال پورہ سے چھیویں سے بارہویں تک تعلیم حاصل کی ۔ گورنمنٹ ڈگری کالج کپواڑہ سے بی اے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہسٹری میں ماسٹرز کیا ،پھر وہیں انٹرینس پاس کرکے پی ایچ ڈی کے لیے سلیکٹ ہو گئے اور کشمیر میں صوفی ازم موضوع پر انہوں نے تھیسز لکھ کر 2012ء میں ڈاکٹریٹ ڈگری حاصل کی، کیونکہ کشمیر اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کا گہوارہ رہا ہے ، جسے کشمیری میں پیر وأر ، پہاڑی زبان ولیاں دی جاگیر اور اردو میں اولیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے ۔
تاریخ کے بغور مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں زمانۂ قدیم سے ہی روحانیت کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں صوفیوں نے ہردور میں تصوف کا پرچار کیا اور اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کیا۔ اپنے اپنے دور میں رائج رہی زبانوں میں اپنا کلام لکھتے رہے جو مواد آج بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے موضوعات سے بھرا پڑا ہے۔’’کشمیر میں صوفی ازم اور ریشی ازم کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس حوالے سے موجودہ نسل کو آگاہ کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ صوفی ازم یکسانیت اور آپسی بھائی چارے کا سبق دیتا ہے۔کشمیرمیں تصوف کی آمد نے حالات بدل ڈالے اور لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا۔اس کے بعد کشمیر کی تہذیب بدلنے لگی اور ہر شئے پر روحانی اثرات مرتب ہونے لگے۔یہ محض روحانی نہیں بلکہ ثقافتی،معاشرتی اور لسانی انقلاب بھی تھا۔اس کے بعد کشمیرکے حالات جس رفتار سے بدلے وہ بھی کم حیران کن نہ تھے۔اسلام کشمیر میں قلندرانہ لباس میں پہنچا۔ان کے عقائد واعمال نے عوام کو اپناگرویدہ بنا لیا۔انہوں نے اپنے آرام وآسائش کا خیال کئے بغیر اللہ کی مخلوق کے لئے کام کیا۔مسجدیں بنوائیں،خانقاہیں تعمیر کرائیں،لنگرجاری کئے،مسافرخانے بنوائے اور عوام کو فائدہ پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی۔دین کی بنیاد اگر تشدد پر ہوتی تو یہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا ،مگر اسکی بنیاد عدم تشدد،انسانی مساوات ،بھائی چارہ،اخلاق اور محبت پر قائم ہے اور اسے فنا نہیں۔ کشمیر کی صوفی روایات کو نئی نسل تک پہنچانے اور صوفیوں کے پیغام اخوت اور امن کو پوری دنیا تک پہنچانے کی بے حد ضرورت ہے۔اسی لیے ڈاکٹر بشیر نے اس سرمائے کو جمع کر کے تحقیق کی۔ آپ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر 2016ء میں تعینات ہوئے تھے ۔انہوں نے درس و تدریس کے میدان میں قلیل عرصے میں شہرت پا کر اپنا نام کمایا۔ ایک ایسا نام ، جو ہزاروں طلباء و طالبات کے دلوں کی دھڑکن اورنوجوان نسل کیلئے رول ماڈل ہونے کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا تھا۔اس کے بعد آپ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں بطور کنٹریکچول کام کرتے رہے ۔سال 2016 میں وہ بطور سرکاری ملازم ’’اسسٹنٹ پروفیسر‘‘تعینات ہوگئے اور سوگام کالج میں ان کی ڈیوٹی رہی، پھر وومنز کالج کپواڑہ چلے آئے ، کرال پورہ ڈگری کالج کے قیام میں ان کا کلیدی رول رہا ہے، کالج قائم ہونے کے بعد وہ بھی اسی کالج میں ٹرانسفر ہو گئے اور گزشتہ چند ماہ سے ان کی ڈیوٹی گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کپوارہ میں تھی۔ 20 اپریل 2025 کو ہمیں وہ داغ مفارقت دے کر مالک حقیقی سے جا ملے ۔ وہ نہایت ہی شریف النفس ،سادہ مزاج ،نرم دل ،باصلاحیت اور دور اندیش شخصیت کے مالک تھے ۔ان کو اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ایک ادیب اور محقق کبھی مرتا نہیں۔ اس کی تخلیقات اور کارناموں کو قوم ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ جو کام ڈاکٹر بشیر نے کئے،ان پر جتنی بھی تحقیق کی جائے اور جتنا بھی لکھا جائے وہ بہت کم ہو گا۔ جو کام انہوں نے علمی اور تحقیقی میدان میں کیا وہ کشمیر کی عوام کی خاطر کیا۔ان کو خراج عقیدت ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہوگا کہ ان کی تخلیقات کو پڑھا جائے اور عام کیا جائے،ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن ، تحریک اور انقلاب تھے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کو اور ان کے کارناموں کو یاد رکھ سکیں۔ان کی وفات پر کئی دینی، سیاسی، سماجی، ادبی اور علمی حلقوں نے تعزیت کرتے ہوئے صدمے کا اظہار کیا اور مرحوم کا انتقال علمی و تحقیقی میدان میں ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا۔
[email protected]