ارض فلسطین ایک مدت سے پابہ جولاں بھی ہے اور خوں بدا ماں بھی۔استعماری قوتوں اور یہودی پنجہ آزمائوں نے قبلہ ٔاول پر کون سے گھائو نہیں لگائے لیکن اس کی سخت جانی دیکھئے کہ نہ صرف ہر ظلم وستم کا مقابلہ نہتے ہوکر بھی مردانہ وار کر رہاہے اوراپنی بے پناہ تابِ مقاومت کالوہا منوارہاہے بلکہ سنگ دلانِ جہان کو اپنی محکومیت و مظلومیت پر دیدہ گریاں کر وارہا ہے ۔ابھی چند ہی دن قبل امریکی صدر ٹرمپ نے تل ابیب سے یروشلم اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے اور یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا جو بدنما اعلان کیا ،لگتا تھا کہاس کے ردعمل کا شور و شغب کچھ دن جاری رہے گا اور پھر مصلحتوں اور مفادات کے شکنجے میں پھنسی دُنیا پھر چُپ کا روزہ رکھ لے گی ۔ ایک مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جو مختلف مراعات و مفادات کے حصول کے لئے گوروں کی کوچہ گردی نہیں کرتا اور انہوں نے اپنی قوت و طاقت کی جو دھاک ذہنوں میں بٹھا دی ہے ،نفسیاتی طور ہر شخص اُس سے مرعوب ہے لیکن یہ ارض فلسطین بھی کیا کرشماتی آب وتاب رکھتی ہے کہ اُدھر امریکی صدر نے اپنے ناپاک عزائم کو طشت از بام کیا ، اِدھر سارا عالم انسانیت رنگ و نسل اور دین و دھرم کے کسی بھید بھائو کے بغیر اس مذموم فیصلے کے خلاف بیک زباں سراپا احتجاج بنا ۔دنیا کے ایک گوشے سے دوسرے کنارے تک نہ صرف زبردست عوامی مظاہرے اور احتجاج ہوئے بلکہ انسان دوست اور انصاف پسند حکومتوں نے بغیر کسی پس و پیش ٹرمپ پر واضح کردیا کہ اُس کا یہ بے ہودہ جمپ انہیں قطعی طورمنظور نہیں،یہاں تک کہ اقوام متحدہ جسے امریکہ کی لونڈی تصور کہا جاتا رہا ہے، نے بھی اس اعلان پر اپنی برہمی کا اظہار کیا کہ عالمی ادارہ صاف بپھرا نظر آرہاتھا ۔شروع شروع میں ٹرمپ انتظامیہ نے دنیا کی اس ناراضی اور برہمی کو شاید سنجیدہ انداز میں نہ لیا لیکن چند ہی دنوں بعد جب اقوام متحدہ میں پاکستان ،ترکی اور یمن نے ایک قرار داد اس فیصلے کے خلاف پیش کی تو حیران کُن انداز میں اس کے حق میں آئے ووٹ دینے والے ممالک کی تعداد اور نام سامنے آئے کہ یہ آس بندھ گئی کہ ابھی ساری دنیا کا ضمیر کاملاً مردہ نہیں ہوچکا ہے ،انسانیت اور انصاف کی کوئی چنگاری ابھی اس خاکستر میں موجود ہے ۔128ممالک نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دے کر امریکہ بہادر کی نیندیں اُڑا دیں ،9نے حق میں اور 35نے اپنی غیر جانبداری کا اظہار اپنی غیر حاضری سے کیا۔ یوں دنیا نے یک زبان ہوکر امریکہ کو یہ پیغام دیا کہ اُس کے جبرو رعونت کو وہ کسی طور قبولنے کے لئے تیار نہیں ۔ بالفاظ دیگرواشنگٹن کے پندار کا خمار اُتار کر اُس پر واضح کیا گیا کہ اُس کی بالا دستی دنیا اس حد تک تسلیم نہیں کرتی کہ ہر عالمی معاملہ بس امر یکی عینک سے دیکھی جائے ۔یہ بھی عجیب اتفاق ہی ہے کہ ایک برس قبل دسمبر کے ہی مہینہ میں جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے صفر کے مقابلے میں 14ووٹوں سے قرار داد نمبر 334منظور کی، جس میں دو ٹوک انداز میں کہا گیا کہ جون1967سے اب تک اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں بشمول مشرقی یروشلم میں جو یہودی بستیاں قائم کی ہیں، اُن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہ عمل دو ریاستی حل کی راہ میں سب سے بڑی اڑچن ہے ۔ قرار داد میں صاف لفظوں میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ ان علاقوں میں فوری طور اپنی غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ بند کردے۔عجیب بات ہے کہ امریکہ جو پچھلے پچاس برس کے دوران اسرائیل کے حق میں 43؍بار ویٹوکا استعمال کرچکا ہے اُس وقت خاموش رہا ، حالانکہ اسی متن کی قرار داد جب 2011ء میں پیش کردی گئی تھی تو اُس نے ویٹو کا سہارا لیاتھا ، بہر حال گذشتہ برس 23دسمبر کو خا تون امریکی مندوب نہ صرف غیر جانبدار رہی بلکہ کہا کہ آباد کار بستیوں اور دو ریاستی حل کی بیک وقت حمایت امریکہ کے لئے ممکن ہی نہیں۔یہ وہ جھاڑ تھی جو اصل میں بارک اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم کو جاتے جاتے پلائی تھی اور اُس کے ماتھے پر کالک ملی تھی ۔ ان ہی دنوں ٹرمپ کے اندر کا یہود کھل کر باہر آگیا اور اُس نے ٹویٹ کیا ’’اسرائیل پریشان نہ ہو 20جنوری کے بعد حالات ایسے نہیں رہیں گے ۔‘‘پھر جب امریکی سیاست کی رُت بدل گئی اور اقتدار کی باگ ڈور غیر سنجیدہ ٹرمپ کے ہاتھوں میں آئی تو واقعی حالات ایسے نہیں رہے ،امریکی پالیسی میں واضح پھیر بدل نظر آیا ۔اس اسرائیلی شکست کے بعد رواں برس 18دسمبر کو سلامتی کونسل میں ٹرمپ اعلانیہ کے خلاف جو قرار داد آئی امریکہ نے ویٹو کا حق استعمال کرکے اس کی منظوری میں رکاوٹ تو پیدا کردی لیکن امریکن صدرآج اس حوالے سے گوشۂ تنہائی میں کھڑا ہے ۔سلامتی کونسل کے چار مستقل اور طاقت ور ارکان چین،روس ،فرانس ،برطانیہ یورپی یونین کے 28میں سے 22رُکن ممالک،عرب لیگ کے سارے ارکان اور اسلامی سربراہ کانفرنس کے 99فیصد ارکان نے قرار داد کے حق میں ووٹ دے کر ٹرمپ کو اس کی اصلیت سے باخبر کردیا ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس ہر لحاظ سے یاد گار ہے ،جہاں ایک طرف اقوام عالم کے 2/3حصہ کی زندہ ضمیری حقیقت بن کے اُبھری ، وہاں کئی چھوٹے جزیرہ نما ممالک جن کا نام تک کسی کو معلوم نہیں،کا قرار داد کے خلاف ووٹ دینا امر یکہ کے منہ پر کوئی کم تھپڑ نہیں کہ اس کے دوست جن کانام پتہ کسی ڈاکیہ کو بھی معلوم نہیں ۔ بہر صورت اسرائیل تو بس آج کل انگاروں پر لوٹ رہا ہے ،اُس کا جنون اُس کے منہ سے ایسے الفاظ اگلوارہا ہے کہ دنیا اس پرتھو تھو کرتی نظر آرہی ہے ۔اس ملک کے سفارتی امور کے نائب وزیر کا لہجہ اور اُس میں چھپے اُس کا غصہ ، جھنجھلاہٹ ،خوف اور بوکھلاہٹ کا اندازہ اُس کے اس رد عمل کے جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کو اب اقوام متحدہ پر لعنت بھیج دینی چاہیے ،اس ملک کا وزیر اعظم نیتن یاہو دنیا کا رد عمل دیکھ کر اس قدر حواس باختہ ہے کہ کہہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کیا ہے بس جھوٹ کا گڑھ ہے ۔اتنا ہی نہیں اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی سفیر نکی پیلی کا لہجہ اور اُس کاانداز ِگفتار بھی جارحانہ اور غرور و تکبُر کا برملا اظہار تھا ۔صاف دِکھ رہا ہے کہ تہذیب ،شائستگی،اخلا ق اور سفارتی آداب کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اُس نے قرار داد میں امریکہ کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک کو پانی پی پی کر کوسا اور اس حد تک کہ پارلیمانی آداب و روایات کو لتاڑکر کہہ گئی کہ یہ ممالک ایسے اندھے ہیں جنہیں حقائق کا ادراک ہی نہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ طفلانہ ردعمل یہ بھی دیا کہ امریکہ ان ممالک کو ہمیشہ یاد رکھے گا جنہوں نے آج اُس کی عزت کو ٹھیس پہنچائی اور اُن کو دی جانے والی امداد پر نظر ثانی ہوگی۔ غصے سے چُور اور منہ سے جھاگ اگلتے ہوئے وہ کہہ گئی کہ ہم نے ان ممالک کی فہرست بنائی ہے جو صدر ٹرمپ کو پیش کی جائے گی، اب ان کی امداد بند کردی جائے گی اور اقوام متحدہ بھی یاد رکھے کہ اُس کی ’’روزی روٹی‘‘میں امریکہ کا جو حصہ ہے وہ بھی روک دیا جائے گا ۔
اندازہ کیجئے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رعونت کی حرارت کس درجہ پر ہے اور آج کی دنیا میں اس نوع کے بیانا ت اس بات کے عکاس نہیں کہ چنگیز و ہٹلر کی روح ان میں سماگئی ہے ۔حکمت و تدبر ،دانشمندی و عقل و فہم کا تقاضا تھا کہ ٹرمپ دنیا کے فیصلہ کو سن پڑھ کر اپنا فیصلہ بدل دیتا لیکن جب کسی بھی شخص یا قوم کو زوال کی اَتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنا قدرت کو مقصود ہوتا ہے تو اُس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے ۔عقل کا اندھا بن جاتا ہے اور اُسے اپنے سوا دنیا کا ہر شخص کور مغز اور جاہل لگتا ہے ،وہ اپنی بات کو حرف ِ آخر اور اس سے فہم و دانش کی بنیاد پر اختلاف کرنے والے کو بھی اپنا دشمن تصور کرتا ہے اور اُسے زیر کرنے ،مجبور بنانے ،اس حد تک کہ اس کی سوچ تک کو محصور بنانے کی سعی لاحاصل کرتا ہے ۔یوں اُس کے باطن کا خبث ظاہر ہوتا ہے ،عدل و انصاف کے پیمانے اُس کے ہاتھوں سے لڑھک جاتے ہیں ۔ دنیا کے اسکرین پر بھی اُس کی صورت مسخ ہوکر رہ جاتی ہے اور اس کے جانے کے بعد دفتر ِ تاریخ میں اس کی اندھ کاری داستان پڑھ کر جبینوں پر بھی بل پڑجاتے ہیں۔
اسرائیل کے بھیانک عزائم سے کون واقف نہیں ۔اسلام اور مسلمانوں سے اس کی ازلی دشمنی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، یہ فتنہ پرور قوم تواتر کے ساتھ اپنے ’’ایجنڈے‘‘کی تکمیل میں اپنا شاطرانہ عمل جاری رکھے ہوئے ہے ۔ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان بھی کچھ اچانک اور حیران کن نہیں بلکہ اس کے پیچھے بھی سازشوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے ۔ماضی کے دریچے کھول لیجئے جب قیام اسرائیل کے دن اس کے وزیر اعظم ایرل شیرو ون نے کہا تھا کہ مبارک بادیوں کا ایک سیلاب اب آئے گا ،جلد ہی ہم سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کریں گے ۔امریکہ کے ایک اشارے پر اسرائیل ویٹو کا حق حاصل کرے گا ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نے اسی برس واشنگٹن میں پانچ ہزار یہودی دانشوروں ،صحافیوں اور پالیسی میکرز سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ القدس کے مسئلے پر کوئی مذ اکرات نہیں کریں گے،سرحدیں مستقل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں رہیں گی ،فلسطینی اتھارٹی کو فوج رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔غزہ اور مغربی کنارے سے انخلاء مزاحمت کے مکمل خاتمے کے بعد کیا جائے گا ۔واضح رہے کہ اس اعلیٰ سطح کی کانفرنس کا انعقاد امریکن یہودی اتحاد کی تنظیم آئی ۔پی۔ اے۔ سی نے کیا تھا اور کانفرنس امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس کی سربراہی میں ہوئی تھی ۔ اپنے دوغلے پن میں مشہور کونڈو لیزا نے جہاں کئی مسلم حکمرانوں سے مطلب پرستانہ دوستیاں کرلیں تھیں، وہاں اُس کے یہودی تنظیموں کے ساتھ نہ صرف روابط بھی تھے بلکہ انہیں اس کی سرپرستی اورمشاورت دونوں حاصل تھیں ۔بہر حال یہ یہودی اور استعماری قوتوں کا شا طرا نہ کھیل عرصہ سے جاری ہے ،ان ہی خاکوں کے آئینے میں مطابق ٹرمپ کا حالیہ اعلان دیکھا جاسکتا ہے ۔ٹرمپ کا تعصب ،اسلامیان عالم کے حوالہ سے اُس کی نفرت اور اسلام کے تعلق سے اُس کی عداوت کھل کر سامنے آگئی ہے اور اقتدار کے دو آتشہ نے اُسے حواس باختہ کرکے رکھ دیا ہے ۔تاریخ کا یہ بے غبار سچ کس کی نظر سے نہیں گذرا ہے کہ اقتدار بگاڑتا ہے اور کامل اقتدار کامل طور بگاڑکے رکھ دیتا ہے ۔آج ٹرمپ خودسری اور تکبر کے جس راستے پر جارہا ہے ،انتہائی ہلاکت خیز ہے ، خوش فہمی نہیں بلکہ تاریخ کا سبق ہے کہ ادبار و زوال اُس کے دروازے پر ایستادہ ہے ،ہمارے اس خیال کو کوئی کیا نام دے لیکن یہی قدرت کا دستور ہے کہ جس فرد ،افراد قوم یا اقوام ،شخص یا اشخا ص میں تکبر کے کیڑے لگ جاتے ہیں کچھ دیر دھوم دھڑام سے وہ کھڑے نظر تو آتے ہیں لیکن انجام کار وہ اس انداز سے گرتے ہیں کہ پھر کوئی اُن کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ہاں ! مسلمانوں کی اپنی کوتاہیاں ،کمزوریاں اور خامیاں ہیں ،وہ جب تک ایمان کی بنیاد پر وحدت اُمت کے تصور سے سرشار تھے کوئی اُن کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، پھر ان ہی شاطروں کی بچھائی بساط کے جال میں اُن کے پائوں پھنس گئے، ٹولیوں اور بولیوں کے خانوں میں بَٹ گئے ،امتیازات ِ رنگ و نسل کے شکار ہوگئے ،مسالک و مشا رب میں تقسیم ہوکر آپسی سر پھٹول میں کھو گئے ،قومیتوں اور قبیلوں سے اپنے کووابستہ کرنے لگے ،تو یہ ایام دیکھنے پڑے ۔کائنات ارضی پر جب اُن کا طوطی بولتا تھا تو قرآن اُن کا مرجع اور سنت کی پیروی اُن کا مقصد تھا لیکن جب ان دونوں چیزوں سے فاصلے بڑھ گئے تو مصائب و شدائد نے دروازوں پر ڈیرے ڈال دیے۔ایسا بھی نہیں کہ ان کے نیند کے ماتوں کو ہر دور میں جگانے والی علمی و عقبری شخصیات کا ظہور نہیں ہوا ۔ہوا اور اُن کی صدائیں بھی بے اثر اور نالے بھی بے نتیجہ ثابت نہ ہوئے بلکہ یہ ان ہی صدائوں کی اثر آفرینی ہے کہ غیرت ِ ملی و دینی مکمل طور مری نہیں ہے ،مسلمان نا امید نہیں ہوتا بلکہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرکے خامیوں کو درست کرتا ہے ،مستقبل کے خاکے مرتب کرتا ہے ۔ ہمیں ادبار و ذلت کے لئے ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کا طرز عمل ترک کرنا ہوگا ،خود احتسابی کے دور سے گذرنا ہوگا تاکہ سر اٹھا کر جینے کا حق پائیں ۔ اسلامی دنیا میں فی الوقت کوئی شاہ فیصل موجود نہیں لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ آج بایں کمزوری و نقاہت اسلامی دنیا اس ا ہم ایشوع پر نہ صرف خود یک زبان ہوکر کھڑی ہے بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی اُس کی آواز میں اپنی آواز ملا رہے ہیں۔ضرورت ہے کہ اسلامی دنیا ایک اجتماعی قیادت کی سوچ لے جو بے غرض و بے لوث ہو ،ہوش مند اور سیاسی لحاظ سے بالغ نظر ہو،مضبوط قیادت کامرانی کی دلیل بن جاتی ہے ،مسلمانوں کو کسی سے کوئی دشمنی نہیں ،انہیں انسان اور انسانیت سے پیار ہے ،وہ ظلم کو ظلم کہتے ہیں چاہے جس کسی پر بھی ہو اور ظالم کو ظالم چاہے وہ جو کوئی بھی ہو۔آج پھر فرعون و نمرود کی طرح ٹرمپ چنگھاڑ رہا ہے لیکن متکبرین کا انجام تاریخ بھی بیان کرتی ہے اور قرآن نے تو کھل کر اُن کی دنیوی و اُخروی سزا سے آگاہ کیا ۔اقوام عاد و ثمود اس خصلت رذیلہ کے شکار ہوئے تو حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے اور جن فرد یا افراد میں تکبر کا یہ روگ لگ جاتا ہے نشانۂ عبرت بنادئے جاتے ہیں ۔خالق کائنات نے فرمایا ہے :’’عاد کا یہ حال تھا کہ وہ زمین پرکسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زور آور؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے ،آخر کار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا اِن پر بھیج دی تاکہ اُنہیں دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کُن ہے ۔‘‘بہر حال ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے ایمان و عمل کے جذبے سے سرشار ہوکر وحدت فکرو عمل کے سانچے میں ڈھل جائیں ،ملت واحدہ ہماری شناخت بنے ۔چیزوں کو نگاہ ِ ایمان سے دیکھنے کی خو ہم میں پڑے تو عظمت ِ گم گشتہ واپس مل سکتی ہے ۔فطرت کا قانون ہے :’’(دشمنان حق) تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ بھی تدبیریں کرتا ہے اور اللہ بہترین تدبیریں کرنے والا ہے ۔‘‘(القرآن)اور یہ تدبیرہمارے حق میں جب ہی ہوسکتی ہے جب ہم یک روئی اور یک سوئی کے ساتھ اللہ سے عہدبندگی تازہ کریں اور جسد واحد بن کے رہیں ۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ؎
بتا ن رنگ وخو ں کو تو ڑکر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرا نی رہے باقی نہ تو را نی نہ افغا نی
رابطہ 9419080306