ہم قریب تین دہائی مہاراشٹر کی مختلف ٹیکسٹائل ملوں میں کام کر چکے ہیں۔ہمیں گنپتی تہوار کی تین دنوں کی چھٹی ہوا کرتی تھی ۔پہلی اس دن جس گنیش جی براجمان ہوتے ہیں ۔دوسری ۵ ویں دن ،جسے گوری وسرجن کہا جاتا ہے ۔اس دن ۵دنوں کے لئے بٹھائی مورتیوں کو دریا برد کر دیا جاتا ہے اور تیسری یعنی آخری چھٹی،دسویں دن کی جب باقی ماندہ تمام مورتیوں کو ڈبا دیا جاتا ہے ۔اب تو یہ بھی طے نہیں رہا کہ دسویں دن دریا برد کیا جائے گا یا بارہویں یاتیرہویں دن۔بنگلور کی بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون صحافی گوری لنکیش کا بھی ۵ ہی ستمبر کو ہندتو کے کارکنوں نے ’’وسرجن‘‘ کردیا ۔ گوری ۲۹ جنوری ۱۹۶۲ کو پیدا ہوئی تھی ۔اگرچند مہینے اور زندہ رہ جاتی تو پورے ۵۶؍ برس کی ہو جاتی ۔اگر وہ ۵۰ برس اور زندہ رہتی تو بستر پر مرتی ۔وہ زندگی اس موت سے بہتر تو نہ ہوتی آج وہ’’ شہید صحافت ‘‘ہے اور کم سے کم وطن عزیز کی تاریخ میں تو ہمیشہ زندہ رہے گی۔اس طرح کا یہ چوتھا قتل ہے ۔نہ جانے اور کتنے قتل وخون ہوں گے!نہ جانے کب دیش بھگت نیند سے بیدار ہوں گے ؟ کب انھیںسمجھ آئے گی کہ پھر دیش کی دھرتی اور اس کے کمزور ،نا سمجھ اورناتواں عوام انہیں مدد کے لئے پکار رہے ہیں ۔دو قتل نریندر دابھولکر اور گووندپانسرے مہاراشٹر میں ہوئے تھے اور اب دو قتل پروفیسر ملیشپا کلبرگی اور گوری لنکیش کرناٹک میں ہو چکے ہیں۔یہ سب کے سب ہندتو والوں کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتے تھے۔بابا رام رحیم کی طرح ہندتو والوںنے عوام کے دلوں میں جو غلط سلط’’ آستھا‘‘ پیدا کر رکھی ہے ،یہ سب کے سب اس کے خلاف تھے ۔یہ قتل ناحق رائیگاں جائے گا یا ہماری سوسائٹی میں کسی قسم کا ارتعاش پیدا کرے گا ؟یہ کہنا ابھی بہت قبل از وقت ہوگا۔ مسئلہ صرف عوام کا ہوتا تو اس کووقت درست کرنا بہت آسان ہوتامگر رونا یہ ہے کہ ہمار ا ایوان سیاست ہی ایوانِ ِ عدل بھی’’ آستھا ‘‘کا شکار ہیں ،اس درجہ کہ اسےجگ ہنسائی کا بھی خوف نہیں،مگر اس سب کے ساتھ ساتھ گوری لنکیش اور پروفیسر ملیشپا کلبرگی کا ایک مسئلہ اور بھی تھا ۔وہ دونوں لنگایت تھے اور حالیہ دنوں میں نتائج سے بے نیاز ہوکر اپنی شناخت کے مسئلے کو زور شور سے اٹھا رہے تھے۔اب لنگایت جو کرناٹک کی سب سے بڑی کمیونٹی ہیں اور کرناٹک کی سیاست انہی کے گرد گھومتی ہے ،یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں ۔ انہیں غیر ہندو قوم یا اقلیت کا درجہ دیا جائے۔یہی بات جین بھی کہتے ہیں ،سکھ بھی برسوں سے کہہ رہے ہیں ۔ بہت سارے نسلی اور قبائلی گروہ بھی یہ بات کہتے رہتے ہیں ۔دلت الگ اپنی ہندو شناخت سے مطمئن نہیں ہیں۔اس طرح ایک ایک کرکے سب ہندو فولڈسے بھاگتے رہے تو سوچئے کیا ہوگا؟کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں کی سیاست کی لٹیا ڈوب جائے گی۔ابھی حالیہ دنوں میں جب آر ایس ایس چیف نے لنگایتوں کو گلے لگانے کی کوشش کی تو لنگایتوں نے ان سے دوری بنائی ۔ کہا جاتا ہے کہ لنگایت تحریک بارہویں صدی میں ویدک ریت رواج اور ہندو ازم کے ذات پات کے نظام کے خلاف پیداہوئی تھی ۔تباس کی قیادتBasaveshvara نے کی تھی جسے بعد میں Sharanas نے آگے بڑھایا۔تب سے اب تک یہ مختلف ادوار سے گزرتی رہی مگر کوئی خاص ہلچل نہ پیدا کر سکی مگر اب ۲۰۱۵ء میں پروفیسر کلبرگی اور چند دنوں پہلے گوری لنکیش کے قتل کے بعد اس میں جان پڑتی نظر آرہی ہے۔لنگایتوں کو اس میں جان ڈالنا ہی چاہئے ورنہ دونوں کی قربانی رائیگاں چلی جائے گی۔
بنگلور سے نکلنے والے ۱۵ روزہ انگریزی جریدے ’’دلت وائس ‘‘ کے مدیر جناب وٰ ٹی راج شیکھر برسوں سے لکھتے آرہے ہیں کہ اس ملک میں ہندو صرف ۱۵ فی صد ہیں ،وہ کئی مرتبہ وطن عزیز میں بسنے والی تمام اقوام کی آبادی کے اعداد و شمار دے کریہ دکھا چکے ہیں کہ یہاں ہندو اکثیریت میں نہیں ہیںمگر سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ہے کہ یہاں سوائے مسلمانوں کے من حیث القوم کسی کو بھی اپنی شناخت کا شعور نہیں۔دیگر اقوام کا جو رویہ ہے اس کے چلتے یہاں صرف مسلمان ،عیسائی اور پارسیوں کا شمار اقلیتوں میں ہونا چاہئے، ورنہ پھر جین ہوں یا بودھ،سردار ہوں یا دلت ،پچھڑے ہوں یا قبائلی عوام سب کی سب اپنے آپ کو ہندو سمجھتی ہے اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقہ ہونے کا فائدہ بھی اُٹھاتی ہے۔بلا شبہ برسوں پہلے جب چندی گڑھ میں آر ایس ایس چیف کے ایس سدرشن نے سکھوں کو اپنا بھائی اور ہندو دھرم کا رکھشک کہا تھا تو دوسرے ہی دن سکھوں کے اکابرین نے ہندو ہونے سے انکار کیا تھا ۔ابھی دو ہفتے پہلے بنگلور میں موجودہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے جب اپنے پیش رو کی تاریخ دہراتے ہوئے جب لنگایتوں کو ہندو کہا تو لنگایتوں کے اکابرین نے بھی سکھوں کی طرح موہن بھاگوت سے کہا کہ وہ لنگایتوں کے معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔
سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ ہندوازم ماننے والوں میںگائے کی پوجا کرنے والا بھی ہندو ہے اور گائے کھانے والا بھی ہندو ہے۔مسلمانوں کی دشمنی میں ایک طرف گائے کو ماتا بھی کہاجاتا ہے،اس کے پیٹ میں ۳۳ کروڑبھگوان براجمان کردئے جاتے ہیں ،دوسری طرف منڈی میں سبزی یا اناج پر منہ مار نے پر اسی گائے کو ڈنڈوں سے مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔گئو کشی پر پابندی لگوانے والا بھی ہندو لیڈر ہے اور گوا ،کیرالہ اور شمال مشرقی ریاستوں میں اپنے ووٹروں کے لئے گائے کے بہترین گوشت کی سپلائی کرنے کا وعدہ کرنے والا بھی ہندو نیتا ہی ہے ۔گئو کشی کے الزام میں ،گایوں کے صرف ٹرانسپورٹیشن پر مسلمانوں کو قتل کردینے والے بھی ہندو ہیں اور گئو کشی کے لئے گائے ماتا کو مسلمانوں کو بیچنے والے بھی ہندو ہیں۔اب تو روز ہی خبریں آرہی ہے کہ فلاں ہندتو وادی لیڈر کی گئو شالہ میں اتنی اتنی گائیں بھوک سے مرگئیں ۔اور تو اور کہیں رام کی پوجا کرنے والے ہندو ہیں اور کہیں راؤن کی پوجا کرنے والے ہندو ہیں۔ اسی لئے دانا لوگ کہتے ہیں کہ ہندو ازم میںجو کچھ بھی ہے، وہ برہمنوں کا چمتکار ہے جس نے باہم مخالف قومیتوں کواپنے اقتدار کے لئے اسلام سے ڈرا کر جوڑ رکھا ہے۔لہٰذا آزاد خیال اور وسیع النظر گوری لنکیش کی موت پر رونے دھونے کی بجائے،سیکولرسٹوں کا ، روشن خیالوں اورمحب وطنوں کا کام یہ ہے کہ گوری لنکیش جو امر ہے ، کے انسانی مشن اور آزادخیالی کی مشعل کو آگے بھی فروزاں رکھیں،ملک میں جاگرتی اور ایکتا کے ماحول کے لئے تن من دھن سے کام کریں تاکہ پھر کسی نریندر دابھولکر،گووند پانسرے ،ملیشپا کلبرگی یا گوری لنکیش کے لئے زمانے کو رونا نہ پڑے اور ملک تاریکیوں کے ودر سے گلو خلاصی پائے ۔
7697376137