آخر اللہ کی مرضی پوری ہو ئی۔ دو سال شدید علالت کے بعد میرے والد صاحب حاجی غلام محمد وانی ، ساکنہ خواجہ باغ بارہمولہ تقریباً ایک سو سال کی عمر پاکر انتقال کر گئے۔ انتقال سے دو ہفتے پہلے تک بالکل ہوش و حواس میں تھے۔ یاداشت غضب کی پائی تھی، دینی علوم اور معاملات میں پوری دست گاہ رکھتے تھے۔ مولانا رومی، حافظ ، سعدی ، شیرازی ، ملا طاہر غنی کاشمیری، علامہ اقبال کے اشعار موقع و محل کی مناسبت سے وردِ زبان رہتے تھے۔اُردو، عربی اور فارسی زبانوں پر خاصی دسترس رکھتے تھے۔ قصبہ بارہمولہ میں جب حضرت مولانا ولی شاہ صاحب نے توحید کی تحریک شروع کی تو والد صاحب نے اِس تحریک میں اُن کا بھر پور ساتھ دیا اور اس میں عملی طور شریک ہو کر کافی مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ اس طرح جب بارہمولہ میں تحریک اسلامی کا آغاز ہوا تو مولانا حبیب اللہ شاہ مرحوم ( سابقہ خطیب و امام مسجد بیت المکرم بارہمولہ) کے ہمراہ اس میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ مولانا سعد الدین مرحوم اور جناب سید علی گیلانی کے ساتھ اُن کے نزدیکی گرم جوشانہ روابط ومراسم تھے۔ دونوں رہنمائوں کے خلوص ، ایثار اور للٰہیت کے قائل تھے۔
والد صاحب مرحوم کی زندگی اعلیٰ شخصیتوں کی صحبت میں گزری تھی۔ کھلے ذہن اور تاریخی پس منظر کا گہرا شعور وادراک رکھتے تھے۔ ابتدائی جوانی سے عمر کے آخری مرحلے تک علماء و مصلحین ، مشائخ اور دین کے بے لوث خادموں سے تعلق وا نسلاک رہا اور یہی اصحاب ِ د ل اُن کا حلقہ ٔاحباب، انجمن ِمحبت اور تعلقِ خاطر کا مرکزتھے ۔ انہی کی صحبت میں مرحوم ومغفور کی شخصیت میں شرینی ، حلاوت اور اوصافِ حسنہ کے گل بوٹے منقش ہوئے تھے۔ اللہ کا شکر وثناء کہ اُن کے دوستوں اور تعلق داروں میں ہمیشہ صحیح العقیدہ عالم اور مخلص دینی کارکن رہے ۔ بڑے بزرگوں ، علماء اور مذہبی رہنمائوں سے ہمیشہ دلی ربط و تعلق رہا۔ اگر کسی نوجوان میں دینی جذبہ اور حصولِ علم کا شوق دیکھتے تھے ، تو نہ صرف اُس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے بلکہ اُس کی رہنمائی اور ممکنہ حدتک مدد بھی کیا کرتے تھے۔
آپ کی نوجوانی میں جو عہد ساز ہستیاں بارہمولہ یا سرینگر آئی تھیں، اُن کی محفلوں اور جلسوں کو بنفس ِنفیس دیکھا تھا۔ اُن میں قائد اعظم محمد علی جناح ، پنڈت نہرو، مولانا ابو لکلام آزاد، عبد الغفار خان ، مولانا محمد انور شاہ کشمیری جیسی شخصیات شامل ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح جب بارہمولہ تشریف لائے تھے اور جو تقریر اُنہوں نے مسلم پارک (حال اسلامیہ پارک، اولڈ ٹائون) بارہمولہ میں کی تھی،والد صاحب دم واپسیں تک اُس تقریر کا لفظ لفظ من و عن بیان کرتے تھے ۔ اسی طرح والد صاحب علامہ انور شاہ کشمیری کے اُن مواعظ حسنہ میں بھی شرکت کی سعادت کرتے تھے جن کا آغاز انہوں نے بارہمولہ میں کیا تھا۔ مسلم کانفرنس کے چوٹی کے لیڈروں کے ساتھ بھی اُن کا اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ چوہدری غلام عباس، مرحوم میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہ ، سید میرک شاہ اندرابی وغیرہ اس میں خاص طور شامل ہیں ۔ وہ پہلے دن سے تحریک حریت کے مداح ومدگار اور کشمیر کاز کی کامیابی وکامرانی کے دل وجان سے متمنی تھے۔
والد صاحب نے زندگی میں کئی سر دوگرم دیکھے، بہت سارے زبر دست صدمے بھی اُٹھائے اور زندگی کے نشیب وفراز کا تماشہ کیا، مگر یہ عمر بھر اُن کی طبیعت کا خاصہ تھا کہ انہوں نے بڑے صبر و تحمل اور مومنانہ طرزعمل اختیار کر کے تلخیاں برداشت کیں۔ اُن کی بڑی بیٹی اور میری عزیز ہمشیرہ صرف۲۵؍ سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں۔ پھر مرحومہ کا بڑا لڑکا والد صاحب کی گود میں انتقال کر گیا۔ پھر میری دوسری ہمشیرہ کا شوہر نامدار ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکر عین جوانی کے عالم میں لندن میں انتقال کر کے ہمارے ساتھ پوری کشمیری قوم کو زخم ِ جدائی دے گئے ۔ میرا بڑا بھائی صاحب ڈاکٹر عبد الرشید ۵۲؍ سال کی عمر میں فوت ہو گیا۔ اُس کے بعد اُن کی رفیق ِ حیات جس نے ہمیشہ اور زندگی کے ہر مرحلہ پر ساتھ دیا تھا ، اچانک انتقال کر گئیں ۔ والد صاحب نے ہر جاں گداز اور سخت آزمائشی مرحلہ پر صبر و ضبط اور مومنانہ طرز عمل کا ثبوت پیش کیا۔ اِن زبردست صدموں کے باجود والد صاحب اِس لحاظ سے بڑے خوش نصیب اور صاحب ِاقبال تھے کہ اِن پر اللہ کے بڑے انعامات تھے کہ اُن کو عمرِ طویل عبادت و خدمت کی توفیق وشوق کے ساتھ ملی۔ شاید اسی قماش کے خوش نصیبوں کے لیے حدیث میں یہ بشارت آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس بندے کی عمرمیں برکت عطا کرتے ہیں جو صلۂ رحمی ، حسنِ سلوک، رشتہ داروں ، عزیز و اقارب اور دوست و احباب کے ساتھ بہترین اور نیک برتائو کرتا ہو۔ آپ نہایت حلیم، فطین ، صابر ، متوکل ، حق گو ، راست باز ، آزاد خیال ، محب دین و ملت ، ہمدردِ بنی آدم، رقیق القلب ، حسنِ اخلاق اور خوش کلامی سے مزین بزرگ تھے۔ کسی کو جذباتی ضرر پہنچانا یا کسی کا دل دکھانا آپ کے مسلک میں کفر کے برابر تھا۔ صلۂ رحمی ، چشم پوشی اور عفو ودر گزر اُن کی خمیر میں تھا۔ آپ نے اپنے والدین کی بڑی خدمت کی تھی۔ میں نے خود اُنھیں اپنی والدہ مرحومہ کو اپنی گو د میں بڑی نرمی اور کشادہ جبین کے ساتھ باتھ روم میں لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے اہل و عیال پر مہربان و شفیق تھے۔ مہمانوں کے آنے سے بڑے خوش ہوتے تھے۔ رشتہ داروں اور برادری کے حقوق ادا کرنے کا آ پ کو ہمیشہ بہت خیال رہتا تھا۔ تمام خاندان میں آپ اس امر میں ممتاز تھے کہ حتی الامکان خاندان یا احباب کی ہر تقریب میں بذاتِ خود یا مجھے بھیج کر شرکت کرتے تھے۔ مرحوم والد صاحب اپنے خیالات کے اظہار میں بڑے جری، دلیر اور صاف گو تھے ۔ وہ شدت کے ساتھ اسلام موحدانہ عقائد و افکار کے داعی و مبلغ تھے۔ توحید کے خلاف وہ کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ توہم پرستی ، شرک و بدعت سے نفور تھا۔آپ انتہائی ذہین ، زیرک و مدبر تھے۔لوگوں کے آپسی جھگڑے، گھریلو تنازعات، کاروباری اختلافات میں اکثر ثالث بن کر مبنی برحق صحیح فیصلے کرتے تھے۔اس لحاظ سے اصلاح بین الناس کاجوکام انہوں نے انجام دیاہے،وہ قابل تحسین اوران کی مغفرت وبخشش کاوسیلہ ہے۔زندگی کے آخری مرحلے پرانہیں ادارہ فلاح الدارین بارہمولہ سے وابستہ نوجوانوںسے کافی امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں۔اللہ تعالیٰ والدمرحوم کواعلیٰ علیین میںجگہ دے۔ان کے سانحہ ٔ ارتحال سے قصبہ بارہمولہ کی ایک مخلص و ہمہ پہلو علمی،ادبی اوردینی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کر یں اور ہمیں ا ن کے اخلافِ رشید ہو نے کی ہمت وتوفیق دے۔ آمین
٭٭٭