جسم چھلنی ہو رہے ہیں، ہو رہے ہیں سَر قلم
آہ ! برما کے مُسلمانوں پہ یہ ظُلم و سِتم
جبر و اِستحصال و قتل و خوں کے منظر ہر طرف
بے گُناہوں کے لہو میں ڈُوبے خنجر ہر طرف
مُنہ کو آتا ہے کلیجہ کیا کہیں کیا حال ہے
ماؤں بہنوں بیٹیوں کی آبرو پامال ہے
سَر پِھرے لوگوں نے کر دی ہے سِتم کی اِنتہا
ہر طرف لاشیں ہی لاشیں اور لہو بہتا ہُوا
لگ رہا ہے جیسے برما سارا مقتل ہو گیا
ہر گلی کُوچہ سڑک چوراہا مقتل ہو گیا
اُف! چراغِ زندگی یُوں بھی بُجھائے جاتے ہیں
عورتیں بچّے جواں بُوڑھے جلائے جاتے ہیں
حال اب برما کا جگ ظاہِرہے تشت از بام ہے
لاشوں پر لاشوں کے ملبے ہیں یہ منظر عام ہے
تھم نہ پائے گا کِسی صورت یہ قتلِ عام کیا
بُدّھم شرنم گچّھامی میں ہے یہی پیغام کیا
اندھے گُونگے بہرے دُنیا والے ہیں، ایسا نہیں
آہ اِن مظلوموں کی کوئی مگر سُنتا نہیں
جاں بلب اِنسانیت اوندھی پڑی ہے برما میں
سَر پِھری حیوانیت ضِد پر اڑی ہے برما میں
عالمی امن و اماں کی جو وکالت کرتے ہیں
دَم جیو اور جینے دو کا جو ہمیشہ بھرتے ہیں
خامشی اقوامِ متّحدہ کی بھی ٹُوٹی نہیں
حُکمرانِ مُملکت کی آنکھ بھی کُھلتی نہیں
مُبتلا اِس سوچ میں ہیں ذہن و دِل حیران سے
کیا کوئی رِشتہ نہیں اِنسان کا اِنسان سے
جانے کب جاگے گی غیرت جوش میں کب آئیں گے
بے حِسی کے کالے بادل جانے کب چَھٹ پائیں گے
مُنجمِد خُوں میں نہ جانے کب روانی آئے گی
داستاں باطِل کی جانے کب مِٹائی جائے گی
ہو نہ ہو اب تو کوئی اعلان ہونا چاہِئے
جلد ہی جاری کوئی فرمان ہونا چاہِئے
اے نیازؔ اب رُخ بدلنا چاہِئے تصویر کا
آگیا ہے وقت اب اِس بات کی تشہیر کا
نیاز جَیراجپُوری
۶۷؍ جالندھری، اعظم گڑھ۔۲۷۶۰۰۱
(یُو۔پی۔) موبائِل: 09935751213
نعتِ رسولﷺ
دردِدل کی دوا کریں ہم تم
نعتِ سرورﷺپڑھا کریں ہم تم
نام اُن کا ہر ایک لیتا ہے
جان و دل بھی فدا کریں ہم تم
لوگ کرتے ہیں جو بھی کرنے دو
سنتوں کو ادا کریں ہم تم
ذکرِ سرور ﷺسروُر دیتا ہے
یہ عبادت کِیا کریں ہم تم
اہلِ دنیا فدا ہیں دنیا پر
مُصطفیٰ، مُصطفیٰ کریں ہم تم
درسِ اُلفت دیا نبیﷺ نے تو
آؤ مل کر رہا کریں ہم تم
دولتِ دین مل گیٔ ہم کو
قدر اس کی کیِا کریں ہم تم
بلال قاصرِ
بلو درگنڈ پلوامہ کشمیر
معلم اقرا پبلک انسٹچیوٹ دیارو شوپیان
رابط؛08803987407
قطعات
اِک حادثہ بنتا ہے کبھی وجہِ احتساب
اِک حادثہ لاتا ہے زندگی میں اِنقلاب
کتنی عجیب ہے یہ حادثات کی لڑی
اِک حادثہ دیتا ہے زندگی کو نیا باب
کچھ لوگ اپنی ہی بِساط میں سدا رہے
کچھ لوگ اوروں کے رِباط میں سدا رہے
ٹِکتے نہیں پارے کی طرح بے سکوں کچھ لوگ
کچھ لوگ ہیں کہ احتیاط میں سدا رہے
فریبِ نظر ہے فروغ و عُروج
قریبِ نظر ہے ملال و خُروج
جہاں اُلفتوں میں نہ اِخلاص ہو
وہاں کیسے قائم رہیں گے بُروج
صُبح و مَسا سجے ہیں کیا بازار آج بھی
ہر اِک دُکاں میں چھایا ہے خود کار راج بھی
ہر شئے کی چمک دَمک سے کھنچتے چلے آئے
وہ دیکھئے لُٹتے ہیں خریدار آج بھی
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندر بل کشمیر،
غــزل( ویری گڈ ،Very Good)
قصیدہ میں نے کیا ہے بیان ویری گڈ
خدا ہے مجھ پہ بہت مہربان ویری گڈ
گئے ہیں کل ہی تیرے ابو جان ویری گڈ
بس ایک میں ہوں نہیں جس کی قدروقیمت کچھ
سمگلروں نے جسے چاروں اور گھیرا ہے
ہمارے پاس ہیں سب مولوی،ملاّ ،مفتی
کہ سن رہے ہیںبڑے انہماک سے ہم لوگ
جو چل رہے تھے اکڑکر یہاں پہ برسوں تک
ہمارے دیش کے سرمایہ دار خوش و خرم
کوئی مرے تو مرے تیز دھوپ میں، لو میں
بڑھاپے میں تویہی پاس پاس رہتے ہیں
گراں گذرتی ہے ہم کو تمہاری جنبشِ لب
بکی نہ کریم ،نہ پوڑر ،نہ لالی ہونٹوں کی
کہ مانجھتے ہو یہاں دانت کوئلے سے تم
ہمارے بچے بھی ہم پہ گئے ہیں مہر النساء
یہ عمر بھی ہے کوئی عمر ملاّآصف جی ؟ کہ میں نے بھر دی ہے اونچی اڈان ویری گڈ
کہ لے رہا ہے میرا امتحان ویری گڈ
اب آرہے ہیں ترے بھائی جان ویری گڈ
بلند و بالا تمہاری ہے شان ویری گڈ
تمہارا میکا ہے سونے کی کھان ویری گڈ
چمک رہی ہے ہماری دوکان ویری گڈ
طویل تر ہے تری داستان ویری گڈ
نہیں ہے ان کا کوئی اب نشان ویری گڈ
اور مر رہے ہیں یہاں پر کسان ویری گڈ
ہمارے سر پہ رہے سائبان ویری گڈ
کہیں پہ حقہ کہیں تھوک دان ویری گڈ
کرینگے قابو میں تیری زبان ویری گڈ
کہ بند کرلی ہے اپنی دوکان ویری گڈ
رگڑ رگڑ کے نہ آئے تھکان ویری گڈ
عزیز ان کو ہے اردو زبان ویری گڈ
کہ لگ رہے ہو ابھی نوجوان ویری گڈ
مُلّا آصف کاشمیری
رابطہ؛ سری نگر،-7780963728