موقر انگریزی روزنامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘( ۱۸؍مارچ) کے صفحہ اول پر نذیر احمد وانی ولد غلام رسول وانی کی امریکہ میں وفات کی خبر پڑھ کر مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا ۔ اس سانحہ ٔارتحال کے ساتھ ہی اچانک ماضی کی کچھ یادیں مجھے تازہ ہوگئیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے ۔مرحوم نذیر احمد دراصل شہر خاص تارہ بل سرینگر کے وانی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ یہ خانوادہ محاذ رائے شماری سے وابستہ ہونے کے کارن سیاسی سرگرمیوں میں مشغول رہتا تھا ، اس کی پاداش میں بخشی دور حکومت میںمرحوم نذیر احمد کے والد غلام رسول وانی کو سرینگر سے مظفر آباد جلائے وطن کیا گیا تھا ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب نذیر احمد وانی اپنے ہم جماعتی میر شوکت احمد کے ساتھ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے اور راقم السطور ایس پی کالج میں زیر تعلیم تھا ۔چنانچہ ایک دن وانی خاندان کے حاجی احمد اللہ صاحب جو کہ میرے والد صاحب کے رشتہ دار تھے ،مجھ سے صفا کدل سری نگر میں ملے اور انہوں نے کہا کہ میرے دو بچے مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں ،میں چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں بچوں کو گھر میں پڑھائو لکھاؤ۔چنانچہ میرے والد کے قریبی رشتہ دار ہونے کے ناطے میں کوئی انکار نہ کرسکا اور اگلے دن میں بذات خود تارہ بل جاکر نذیر احمد وانی اور میر شوکت احمد کا استاد (ٹیوٹر)بن گیا ۔چار بجے کالج سے لوٹنے کے بعد ہی میں روزانہ ان دونوں بچوں کو پڑھانے کے لئے تارہ بل آیا جایا کرتا تھا ۔دونوں بچے بہت ذہین و فطین تھے ،البتہ نذیر احمد وانی زیادہ تر مغموم ہی نظر آتے تھے ،ظاہر تھا کہ اُس کے والد صاحب کو پار جلائے وطن کیا گیا تھا اور وہ اپنے باپ کی شفقت وسایہ سے عملاً محروم تھے۔میر شوکت احمد ،ڈلگیٹ بچھوارہ کے نیشنل کانفرنسی رُکن میر حبیب اللہ کے فرزند تھے لیکن اپنے نانہال میں ہی پڑھائی کرتے تھے۔ میر حبیب اللہ 1955ء میں محاذ رائے شماری کے ساتھ وابستہ ہوگئے ، اس لئے وہ وانی خاندان کے غلام رسول وانی کے سیاسی ساتھی اور ہم سفر بن گئے تھے اور یہ دونوں محاذ کی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے ،دونوں ساتھیوں کو ظالم حکومت کے ہاتھوں اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کئی ایک مظالم بھی جھیلنے پڑے۔نذیر احمد نے بی ایس سی ایگریکلچر کی ڈگری پاس کی اور شوکت احمد نے ایم ایس سی جیالوجی کی ڈگری پائی۔نذیر احمد کی والدہ اپنے سسرال واقع تارہ بل میں اپنے بچوں کے سہارے ہی مصائب بھری میںزندگی گزار رہی تھیں ،اس صورت حال کو دیکھ کرنذیر احمد کو اپنے جلاء وطن والد کی جدائی تڑپا رہی تھی ،انہوں نے بی ایس سی ایگریکلچر کی ڈگری پاتے ہی ملازمت اختیار کی جب کہ شوکت احمد بھی اپنے ساتھی کے نقش ِقدم پر چل کر سرکاری ملازم ہوگیا ۔
نذیر احمد وانی اپنے والد سے ملنے مظفر آباد بھی گئے، جہاں اُن کے والد نے وہی کاروبار شروع کیا تھا جوکہ اُن کا خاندانی پیشہ تھا ،مگر ذہنی طور پر وہ پُر سکون نہیں تھے کیونکہ عرصہ ٔدراز سے اپنے بیوی بچوں سے سینکڑوں میل دوررہنے پر مجبور تھے۔نذیر احمد نے دوران ملازمت ہی من بنالیا تھا کہ محکوم کشمیری قوم کی آزادی کے لئے جدو جہد جاری رکھنا ضروری ہے، چاہے جابر حکومت کے خلاف اسے جد وجہد کر تے ہوئے انہیں عسکریت کی راہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے ۔چنانچہ انہوں نے’’ الفتح‘‘ نامی زیر زمین تنظیم بنا ڈالی،جس میں اُن کے کئی رفقاء بھی خفیہ طور شریک ہوگئے ۔اس کی پاداش میں انہیں تعذیب خانوں میںانٹراگیشن کے بد ترین دور سے گذرنا پڑا ،جیلوں کی صعوبتیںبرداشت کرنا پڑیں ،لیکن اُن کے عزم وارادے میں کوئی لغزش نہ آئی اور آزادی کی تمنا اُن کے دل وجان سے کبھی ایک پل بھی نہ جاتی رہی ۔ ستم یہ کہ وطن کی اسی آزادی کی طلب اور تڑپ میں وہ اور اُن کے جلائے وطن والد صاحب دونوں اپنی جان عزیز اپنے وطن سے دور اپنے مالک حقیقی کے حوالے کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ وانی اور میر خاندان نے جس مقصدکے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں،وہ ابھی تشنۂ تکمیل ہے اور تب سے جب تک جاری جدوجہد ِآزادی میں ہزاروں کشمیریوں، جن میں مردوزن ،بچے بوڑھے اورجوان شامل ہیں ،نے جو ظلم و ستم اور جبر وقہر برداشت کرکے اپنی جانیںقربان کیںاور کرتے چلے آرہے ہیں ،وہ جدوجہدآزادی ابھی تک رنگ نہیں لارہی ہے ۔ یہ حقیقت سبھی لوگ جانتے ہیں کہ ڈوگرہ شاہی کے خاتمے کے ساتھ ہی1947ء میں جب ہندوستان دو ٹکڑوں میں بٹ کر پاکستان معرض ِوجودمیں آگیا تو اُسی وقت ملک ِکشمیر کے بھی دو حصے کردئے گئے ۔ایک حصہ پر ہندوستان قابض ہوا اور دوسرا حصہ پاکستان کے زیرا نتظام آگیا ۔دونوں ملک اپنی اپنی فوجی طاقت پر جموں و کشمیر پر اپنا حق جتلانے لگے اور جتلاتے چلے آرہے ہیں ۔ایک اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور دوسرا اپنی شہ رَگ مانتا ہے ۔ اس طرح ان دو ایٹمی طاقتوں کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے عوام بطور غلام و پست حال مسلسل پِسے جارہے ہیں ۔حالانکہ دونوں ممالک اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ اس طرح قبضہ داری میں وہ دن بدن خود بھی بڑے معاشی خسارے میں جارہے ہیںکیونکہ انہیں اپنی مادی طاقت اور مالی وسائل کا زیادہ تر حصہ عوامی بھلائی کے امور میں صرف کر نے کی بجائے دفاعی اخراجات کا بھاری بھرکم پیٹ بھر نے کے لئے ضائع کر ناپڑ رہاہے ۔ اگر یہ دونوں ملک سیاسی فہم وفراست اور معاشی منصوبہ بندی سے کام لے کر کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے عین مطابق حل کر نے کو الین فوقیت دیں تو وہ دن دور نہیں جب برصغیر میں امن اور ترقی کا جشن بہاراں ہوگا اور نذیراحمد مرحوم اور جلاء وطنی میں ابدی نیند سوئے ان کے والد مرحوم غلام رسول کی روحوں کو تسکین حاصل ہوگی۔ جب تک یہ منزل حاصل نہیں ہوتی جموں و کشمیر کے مظلوم اور محکوم عوام کسی بھی قربانی سے گریز کئے بغیر آزادی کے لئے تحریکی و سیاسی جدوجہد تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ دونوں ملک ہندوستان اور پاکستان اس بات کا گہرائی اور معقولیت سے جائزہ لیںکہ کیا وہ کشمیر کے حوالے سے صحیح راستے اور مفید سوچ پر گامزن ہیں؟ظاہر ہے کہ جس انہونے طرز عمل کے تحت یہ دونوں ملک جموں وکشمیر کے انسانی اور لازمی مسئلہ کو اُلجھاتے چلے آرہے ہیں،اُس سے ان دونوں کے درمیان باہمی کشیدگی اور تناؤ کا کوئی ایک بھی سبب دور نہیں ہوسکے گا۔ جموں و کشمیر کے عوام ان دونوں ملکوںسے بس یہی تو مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیںکہ جموں و کشمیر ہمارا ملک ہے ،اسے چھوڑ دو اور ہمیں امن سے جینے دو۔ اسی خواب کی تعبیر میں نذیرا حمد اور ان کے والد اور لاکھوں کشمیر یوں کی قربا نیاں تاریخ کشمیر میں زریں حروف میں رقم ہے ۔ ا للہ تعالیٰ تمام شہداء کشمیر سمیت مرحومین کو جنت الفردوس عطافرمائے۔ آمین