تبدیلی وقت کا دوسرا نام ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں وقت کی قسم کھائی ہے ۔یہ وقت ہی ہے جو ہمیں بچپن سے لڑکپن،لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے اور بالآخر موت کی آغوش میں سُلادیتا ہے۔زندگی ایک غیر یقینی سفر ہے اس لیے کہ زندگی کب ،کہاں اور کن حالات میں کس کا ساتھ چھوڑ دے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔موت پہ انسان کی کاوشوں،خواہشوں اورحرکت وعمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔وقت کے ساتھ ہر چیز ختم ہوجاتی ہے اور اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے یا انسان کے دنیا سے گزرنے کے بعداس کے ساتھ جاتی ہے تو وہ اس کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں۔دنیا ایک اسٹیج ہے جہاں ہر شخص اپنا اچھا یا بُرا رول ادا کرکے موت کے پردے کے پیچھے چلا جاتا ہے۔زندگی کا ہرلمحہ بہت زیادہ قیمتی ہے کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔یادیں انسان کے شعور،تحت الشّعور اور لاشعور کا ایک اہم حصہ ہوتی ہیں۔اہم شخصیات کے ساتھ گزارے لمحے تو انسان بھلائے نہیں بھول پاتا ہے۔ان کی سبق آموذباتیں،ان سے ملاقاتیںاور ان کی متانت وسنجیدگی انسان کو سلیقئہ زندگی سکھادیتی ہیں اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوتی ہیں تو ان کی یادوں کے نقوش ذہن ودل میں چراغاں بن کر ان کی یاد میں آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہیں۔حامدی کاشمیری کا شمار بھی انہی اہم اور نابغئہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے۔
پر وفیسر حامدی کاشمیری 2 دسمبر2018ء بروزبدھ وارشب بوقت9بج کر45منٹ پر داعیء اجل کو لبیک کہہ گئے۔اس میں کیا شک ہے کہ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔جانے والے تو نہیں آتے ،جانے والوں کی یاد آتی ہے۔میں نے جب 27دسمبرکو سرینگر کے میرے ایک دوست جناب شبیر صاحب کی میرے واٹس ایپ پہ بھیجی یہ مایوس کن خبر پڑھی کہ ہماری ریاست کے ایک عظیم شاعر،نقاد،محقق اور فکشن نگار پروفیسر حامدی کاشمیری صا حب اب اس دنیا میں نہیں رہے تو میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میرے پورے وجود میں مایوسی کی اک لہر سی دوڑ گئی۔اپنے کئی دوست واحباب کو یہ مایوس کُن خبر سنائی ۔جس کسی نے سنی اس نے افسوس کا اظہار کیا۔اردو شعر وادب کی ایک ایسی عظیم شخصیت کہ جسے اردو دنیا پروفیسر حامدی کاشمیری کے نام سے جانتی ہے اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا شعری وادبی سرمایہ اور ان کی قدآور شخصیت کے تابناک پہلو انہیں زندہ جاوید رکھیں گے۔
پروفیسر حامدی کاشمیری میرے معنوی استاد تھے۔ماضی کے دریچوں سے جب جھانکتا ہوں تو ان سے جڑی کئی یادیں میرے سمند تخیل پر تازیانہ لگانے لگتی ہیں۔میں نے اسکول اور کالج کے زمانے میں ہی ان کی غزلیں،مضامین اور کہانیاں پڑھنا شروع کی تھیں۔میرے ذوق مطالعہ اور شوق تحریر نے مجھے ان کی کتابیں خرید کرپڑھنے پر آمادہ کیا ۔یہاں میں یہ لکھے بغیر آگے بڑھنا نہیں چاہتا کہ پروفیسر حامدی کاشمیری اور ان کے معاصرین میں پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسر وہاب اشرفی،پروفیسر ظہورالدّین ،پروفیسر قمررئیس، پروفیسر محمد حسن ، شمس الرحمن فاروقی ،پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر عتیق اللہ ،قاضی افضال حسین اور وزیر آغا کے علاوہ کچھ اوربھی اہم نام ہیں کہ جن کی تصنیفات وتالیفات کامطالعہ کرنا میرے ادبی مشغلے میں شامل رہا ہے۔
یہ غالباً 1983ء کی بات ہے کہ جب میں گورنمنٹ ڈگری کالج بھدرواہ (ضلع ڈوڈہ) میں بی اے سال اوّل کا طالب علم تھا تو میں نے حامدی صاحب کے نام ایک خط لکھا جس میں ،میںنے ان سے فن تحریر کے بارے میں مکمل واقفیت بہم پہنچانے کی استدعا کی تھی۔کوئی بیس دن کے بعد مجھے ان کی جانب سے بذریعہ ڈاک ایک خط موصول ہوا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ’’ لکھنا انسان کا ایک فطری عمل ہے ۔میں آپ کے شوق اورجذبے کی قدر کرتا ہوں اور یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ زیادہ سے زیادہ بڑے ادیبوں کی کتابوں کا مطالعہ کیجیے‘‘۔ان کے ان ذریں جملوں کو میں نے اپنے ذہن ودل میں نہ صرف جگہ دی بلکہ ان پہ عمل پیرا بھی ہوا ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے مجھے غائبانہ طور پر پروفیسر حامدی کاشمیری صاحب کے قریب کردیا ۔اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود وہ میرے خطوط کا جواب دیتے ۔ان خطوط میں ان کاخلوص،محبت واپنائت ا ور علم وادب کی دنیا میں مجھے آگے بڑھنے کے مشورے ہوتے۔بھدرواہ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد بھی حامدی صاحب کے ساتھ میری خط وکتابت جاری رہی ۔اسی دوران آنجہانی ڈاکٹر برج پریمی کے افسانے جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی سے شائع ہونے والے موقر ومعیاری رسالہ’’شیرازہ‘‘میں پڑھنے کا موقع ملا تو ان سے بھی خطوط کے ذریعے آدھی ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا۔
1987ء میں جب میں اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ٹیچربھرتی ہوا اور میری ڈیوٹی اپنے آبائی گاوں بہوتہ(ضلع ڈوڈہ) کے مڈل اسکول میں لگائی گئی تو میں نے اسی دوران حامدی صاحب کی تنقیدی کتاب’’غالب ؔ کے تخلیقی سرچشمے‘‘چند دنوں میں پڑھ ڈالی۔کتاب پڑھنے کے بعد میں نے حامدی صاحب کے نام خط لکھا جس میں ان کے عالمانہ انداز بیاں کا خصوصی ذکر تھا۔انھوں نے ایک پوسٹ کارڈ کی صورت میں میرے خط کا جواب دیا۔مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ انھوں نے مجھ جیسے ناچیز کے خط کا جواب دیا ہے۔اس زمانے میں موبائل فون تو دور کی بات لینڈ لائن فون بھی نہیں ہوا کرتے تھے سوائے بڑے پوسٹ آفسوں یا کسی بڑے آفیسر کے دفتر کے۔1989ء میں جب میں گورنمنٹ مڈل اسکول بہوتہ سے گورنمنٹ ہائی اسکول بلند پُور آیا تو دو ماہ کے بعد ڈسٹرک لائبریری ادھم پور میں مجھے حامدی کاشمیری صاحب کی کتاب’’جدید اردو نظم اور یورپی اثرات‘‘دستیاب ہوئی۔ یہ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا جو کتابی صورت میں تھا۔میں نے اس کتاب کو بڑے شوق اور ذہنی یکسوئی سے پڑھا۔پڑھنے کے بعد میں نے اپنے گھر مانتلائی ،تحصیل چہنینی سے انھیں خط لکھا جس میں کتاب کی پسنددیدگی کااظہار تھا۔کچھ دنوں کے بعد مجھے ان کا خط موصول ہوا تھا جس میں انھوں نے مجھے کشمیریونیورسٹی میں آکر ملاقات کرنے کی خواہش کی تھی۔بہرحال میں نے اس بات کو اپنی سعادت مندی سمجھا ۔مجھ سے رہا نہیں گیا۔میں ستمبر1989ء میں بلند پورہا ئی اسکول سے ان سے ملاقات کے لیے سرینگر چلا گیا۔ سرینگر پہنچ کر میں سیدھا یونیورسٹی گیا وہ ان دنوں شعبئہ اردو کے صدر تھے۔میں ان کے آفس میں گیا تو وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ۔ان کے چپراسی نے مجھے کہا کہ حامدی صاحب کسی کام سے یونیورسٹی کے انتظامیہ بلاک میں گئے ہیں ۔آپ بیٹھے رہیے وہ آتے ہی ہوں گے۔کوئی آدھے گھنٹے کے بعد پروفیسر حامدی کاشمیری صاحب آگئے۔دراز قد،نُورانی آنکھیں،سڈول جسم،لمبے ہاتھ اور رفتار وگفتار میں وہی ادیبانہ طمطراق یہ میری حامدی صاحب سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی اجنبیت کا پردہ لمحہ بھر کے لیے میرے اور ان کے درمیان حائل رہا۔دعا وسلام کے بعد جب میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ میں تحصیل چہنینی ،ضلع ادھم پور کا باشندہ ہوں، آپ سے ملاقات کرنے آیا ہوں تو کہنے لگے ’’ چہنینی میں میرا ایک قلمی دوست ہے ،اس کا نام مشتاق احمدوانی ہے ‘‘۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا وہ ناچیز میں ہی ہوں ۔آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔حامدی صاحب فوراً اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے۔مجھے گلے لگایا ۔بہت خوش ہوئے ۔چائے منگوائی پھر کہنے لگے اب میں زیادہ تر تنقید لکھتا ہوںاور شاعری کرتاہوں۔میں نے اپنی معلومات کے لیے ان سے کچھ سوالات بھی کیے ۔انھوں نے خندہ پیشانی سے تسلی بخش جواب دیا۔میں جب ان سے رخصت ہونے لگا تو کہنے لگے’’ ٹھہر جایئے‘‘امھوں نے ’’انجمن آرزو‘‘نام کی ایک کتاب الماری سے نکالی اور مجھے دی ۔حامدی کاشمیری کچھ ہی دن پہلے ہندوستانی ادیبوں کے ایک وفد کے ساتھ پاکستان سے لوٹے تھے۔مذکورہ کتاب کا تعلق روداد سے تھا۔
شب وروز کے بھنور میں اُلجھنے اور 1992ء تک ماہانہ 1700روپے تنخواہ ملنے کے باوجود میں نے جہاں اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے ہندوستان کے پبلشروں سے اردو کے معتبر ومعیاری ادیبوں کی کتابیں خریدکرپڑھیں، وہیں پروفیسر حامدی کاشمیری کی بھی بہت سی کتابیں خرید کر پڑھتا رہا ۔میری خوشی کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہتی جب میرا کوئی افسانہ یا تحقیقی وتنقیدی مضمون اردو کے کسی موقر ومعیاری رسالے میں شائع ہوتا اور مجھے حامدی صاحب کا فون آتا کہ انھیں میری ادبی نگارشات نے متاثر کیا۔وہ اکتشافی تنقید کے موجد اور علمبردار تھے ۔روائتی تنقید سے وہ بہت حد تک نالاں تھے۔تخلیق اور تخلیقیت میں تخلیق کار کے تجربے کا عمل دخل اور لفظ ومعنی کے تفاعل پر ان کا تنقیدی نظریہ ادبی حلقوں میں کا فی مو ضوع بحث رہا لیکن انھوں نے اپنے نظریے کی حمایت میں اپنی تھیوری بھی پیش کی۔
حامدی کاشمیری ایک مرنجان مرنج شخصیت تھے ۔لکھنے پڑھنے والوں کو وہ بہت چاہتے تھے۔اردو کے تمام معیاری رسائل وجرائد میں ان کے مضامین اور غزلیںتادم آخر شائع ہوتی رہیں۔لکھنے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کے روشن مستقبل کی خاطر وہ اپنی استعداد کے مطابق کوشش کرتے ۔مجھے وہ اکثر بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔میری حق تلفیوں پہ وہ کافی دل برداشتہ ہوتے رہے۔جموں ،سنجو اں میں میرے مکان سے ان کا مکان تقریباً ڈیڑھ کیلو میٹرکے فاصلے پر ہے۔سردیوں میں جب حامدی کاشمیری صاحب جموں اپنے مکان میں آتے تو میں ان کے پاس جاتا۔بہت خوش ہوتے ۔غالباً2013ء میں ،میں نے انھیں سنجواں
اپنے مکان میں لایا ۔بیوی بچوں سے ملے ،مکان دیکھا بہت خوش ہوئے۔تقریباً ایک گھنٹہ میرے گھر پہ رہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے بہت سے نشیب وفراز مجھے سنائے۔
2015ء میں جب میں کسی ضروری کام کے سلسلے میں سرینگر گیا تو حامدی صاحب سے میری فون پہ بات ہوئی ۔انھوں نے مجھے اپنے گھر پہ آنے کا اصرار کیا ۔شالیمار میں کوہ سبز نام کے ایک دلکش علاقے میں ان کا عالیشان مکان ہے۔ میں ان کے پاس چلا گیا۔پُر تپاک انداز میں مجھ سے ملے۔چائے پلائی ،بہت سی ادبی باتیں ہوئیں ۔میں اٹھ کھڑا ہوا ان سے رخصت چاہی تو خفا ہونے لگے بولے’’آج میرے پاس ٹھہریے ‘‘میرے ہاتھ سے میرا بیگ چھڑایا اندر لے جاکر ایک طرف رکھااور کہنے لگے’’شام ہونے جارہی ہے بیٹھیے،یہ کشمیر ہے یہاں کب کیا ہوحالات کیا رُخ اختیار کریں گے کچھ کہا نہیں جاسکتا‘‘میں نے اپنی کئی مجبوریاں ان کے سامنے رکھیں لیکن انھوں نے میری کوئی بھی بات نہیں مانی۔مجھے مجبو ر اًان کے ہاں رُکنا پڑا ۔رات کو مجھے اپنی لائبریری کی سیر کرائی۔قدیم وجدید کتابوں اور رسائل وجرائد کی ایک دنیا میرے سامنے تھی۔میں یہ سب کچھ دیکھ کے حیرت میں پڑ گیا۔پھر بولے’’پڑھنا اور لکھنا میری روحانی غذا ہے۔میں ہرروز کچھ نہ کچھ لکھتا اور پڑھتا ہوں‘‘دوسرے دن جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو میرے ساتھ اپنے گھر کے لان سے باہر ایک جگہ کھڑے ہوگئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے’’اب میں عمر کی حدیں پھلانگتے ہوئے کافی دور آگے نکل آیا ہوں ۔میں نے اپنے گھر والوں کو یہ وصیت کی ہے کہ میری آخری آرام گاہ اس جگہ بنائیں‘‘مجھے حامدی صاحب کی یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوئی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے ان کی سنجیدگی اور جہاندہ ذہنیت کا ایک نیاورق سمجھنے کا موقع ملا تھا۔
دسمبر2016ء میں، جب میں نے پروفسیر حامدی کاشمیری صاحب کو فون پریہ خوشخبری سنائی کہ میں نے ہائی کورٹ جموں سے کیس جیت لیا ہے اور باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اردو جوائن کرلیا ہے تو وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمائے ۔ کہنے لگے’’آج کادن میرے لیے خوشی کادن ہے۔اللہ نے آپ کی مدد کی۔وہ کسی کی محنت ضائع نہیںکرتا‘‘حالانکہ جسمانی ضعف اور رعشہ کی وجہ سے انھیں بات کرنے میں دقّت آتی تھی لیکن اس کے باوجود باہوش انداز میں باتیں کرتے رہے۔2017ء میں میری فون پہ ان سے دوتین بار باتیں ہوئیں لیکن وہ اچھی طرح باتیں نہیں کرپائے۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی بات کہ بالآخر وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔میں ہر ممکن کوشش کے باوجود ان کے جنازے میں شریک نہیں سکا !مجھے ان کے آخری دیدار نصیب نہیں ہوسکے ۔اس بات کا مجھے افسوس ہے!کبھی کبھی اس سوچ میں پڑھ جاتا ہوں کہ ہم کہاں سے اس دنیا میں آتے ہیں ؟یہاں کیا کیا کرتے ہیں اور پھر آخر کار کہاں چلے جاتے ہیں !میرا یقین یہ چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے کہ اللہ انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے گا ۔ میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسر حامدی کاشمیری کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل ! آمین
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
فون نمبر 9419336120