خوف وہراس میں مبتلا مسلم اقلیت کے لئے آرام وسکون کا ایک لمحہ بھی نصیب ہو نا اب خواب وگمان بنتا جارہا ہے۔ ۴۷ء سے آج تک جرم بے گناہی کی پاداش میں مسلمانوں پر کتنے مظالم ڈھائے گئے ،اس کا کوئی حد وحساب ہی نہیں ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب سیاسی قائدین ، حکو متی وزراء اور دیگر صلاح کار تک حکومت ِوقت سے کھلم کھلا مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کاحق رائے دہی سلب کیا جانا چاہئے ، یا جو شخص گائے کو ذبح کرتا ہے، اس کو بھی ذبح کیا جانا چاہئے۔یاد رہے کہ یوپی کے اخلاق احمد جیسے ادھیڑ عمر والے شخص ، کمسن طالب علم حافظ جنید ، مزدور افروزل کی بہیمانہ ہلاکت ، جواہر لال یونیورسٹی کے ایک طالب علم محمد نجیب کا لاپتہ کیا جانا، راجستھان میں پہلو خان کی جان لینا ، جھارکھنڈ میں متشدد ہجوم کا علیم الدین نامی شخص کا ابدی نیند سلا دینا اور اب تبریز انصاری کی ہجومی ہلاکت وغیرہ وغیرہ مسلمانوں کے دلوں کے لگے وہ زخم ہیں جو انہیں تاقیامت تڑپاتے رہیں گے ۔ یہ کہاں کی جمہوریت یا انسانیت ہے کہ یوک گرو بابارام جی دیو کہہ گئے ہیں کہ اگر مجھے قانون کا پاس ولحاظ نہیں ہوتا تو میں بھارت ماتا کی جے نہ کہنے والے لاکھوں انسانوں کے سرقلم کردیتا!!! ۔ اس فضا میں مسلمانان ِہند کے لئے شر ہی شر چھپاہے ۔
اس جان لیوا مخمصے سے باہر نکلنے کی خاطر مسلمانوں کو ایک ایسا دینی و اخلاقی لا ئحہ عمل تر تیب دینا چاہیے کہ وہ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ علوم اور عصری تعلیم کے فیضان کو اپنے قلب وجگر میں جگہ دیں ۔اس جانب ہم سب کے لئے اپنی اپنی سطح پر اور اپنے اپنے دائرے میں خاطر خواہ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ بیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہندوستانی مسلمانوں کو نامساعد حالات کے باوجود اپنے ہم وطنوں کے دوش بدوش چل کر خصوصیت کے ساتھ نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کرنا ہر چیز پر مقدم ہو ناچاہیے کیونکہ تعلیم پانا(اقراء) ہی ہمارے دین کا اساسی حکم ہے۔ ہمیں ہر طرح کی حوصلہ شکنی کے باوجود آئی۔ اے ۔ایس ، کے ۔ اے ۔ایس ، سائنس اور ٹیکنالوجکل تعلیم کے حصول کی خاطر چار وناچار آگے بڑھنا ہو گا۔ ہندوستان میں جگہ جگہ ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس چلتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان میں زیر تعلیم طلبائے دین عصری تعلیم سے بھی روشناس کئے جاتے تاکہ اُن کی معاشی اور سماجی حالت دُرست ہوجاتی اور وہ بھی اپنے ہم وطنوں کے شانہ بہ شانہ بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے۔ ہاں ،ا س میں دورائے نہیں کہ مسلمانانِ ہند جس کسی اہم محکمہ میں بھرتی کا فارم بھر دیتے ہیں، اُن کی بھرتی وہاں صفر کے برابر ہوتی ہے، پولیس اور فوج میں اُن کو مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اعلیٰ عہدوں پر ان کا کہیں کا نام ونشان تک دکھائی نہیں دیتا ۔اس کہانی کو مسلسل محنتوں کے بل پر بد لنا ہمار لئے وقت کی پکار ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان مشکل سے مشکل مسائل سے بھی بھاگتا نہیں بلکہ ان کا حل اللہ کی دی ہوئی مادی قوت اور رُوحانی واخلاقی طاقت سے نکالنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتا،اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری زمین اس کے لئے مسجد ہے اور دنیا ا س کے لئے ایک امتحان گاہ ہے،وہ ہمہ وقت کوشش کرتاہے کہ دوست اور دشمن کے کام آئے ، ہر ایک کے ساتھ اچھا کرے ، ہر کسی کے دکھ سُکھ میں شریک رہے ، حق کی راہ میں تکالیف آئیں ،اُن کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے مگر اپنے یمان کو بیچ کھائے نہ اپنے ضمیر کو مردہ ہونے دے ۔ اسلام کے مطابق ملک بھی اللہ کا ہے ، حکم بھی اسی کا ہے اور دہی خدائے یکتا ہے ۔ جب ہم مسلمان ہونے کے باوجود توحید ورسالت ؐ کا دامن چھوڑ دیتے ہیں (جو اللہ تعالیٰ کسی صورت اپنی محبوب امت کے لئے پسند ہی نہیں) تو ہم سے اس کی حکم عدولیاں ہوتی ہیں جس سے نہ صرف زمین پر فتنہ وفساد ، ظلم وستم، کذب وشرک ، نافرمانیوں اور سود خوریوں کا بازار گرم ہوتا ہے بلکہ اللہ پاک ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے ہم پر جابر وظالم حکمران مسلط فرماتا ہے۔ مودی جی خدا نہیں مگر ان کی پالیسیاں اگر ہمارے خلاف ہیں، تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہیں ہم خود اللہ کو ناراض تو نہیں کر چکے ہیں ۔ لہٰذ ہمیں بلا تاخیرا اللہ پاک کی خوشنودی کے وسیع وعریض دامن میں پناہ لینی چاہیے ، پھر کوئی ہمالیہ پہاڑ جیساطاقت ور بھی ہو ،وہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ؎
آج بھی ہوجوا براہیم ؑ کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا
ہمیں زمانے کے چلنج کا مقابلہ کر نے کے لئے نئی نسل کو دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ کر نے کے علاوہ اسے خدمت خلق اللہ کے جذبے سے سرشارکر نا ہوگا ، ہمیں اپنے انصاف پسند ہم وطنوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہوگا، ہمیں اپنے ملک وقوم کی حمایت اور خدمت اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنی ہوگی۔اسی سے ہم فلاح دنیا و آخرت پاسکتے ہیں۔
فون نمبر 9858770000