اپنے ہل والے قائد ثانی آ ج کل سیاسی افق پر اس قدر چھائے ہوئے ہیںگویا قائد نہ ہوں گھنگھو رگھٹائیں ہوں یا ہل کندھے پر سنبھالے سیاسی کھیتوں کی جانب قدم تال کرتے ہوئے کھیت جوتنے میں مصروف ہوں ۔عام کہاوت ہے کہ جو بوو گے وہی کاٹو گے لیکن قائد ثانی اس بات کی فکر کئے بنا کہ کیا اور کیسے کاٹیں گے بس بوئے جا رہے ہیں۔ قائد ثانی کی ناک سے آجکل رینٹ بھی آٹونامی کی بہتی ہے بلکہ اس کے جسم سے پسینہ بھی مسلہ کشمیر کے حل کا جاری ہے۔مانا کہ بھارت ورش میں ہل جوتنے والے کسان یا تو دھرنے پر بیٹھے ہیں یا خود کشی کا ارتکاب کرتے ہیں کہ بیچارے لیا ہوا قرضہ واپس ادا کرنے سے معذور ہیں، کہ انہیں ۲۰۲۲ تک خواب دیکھنے کا فرمان جاری ہوا ہے جب مودی سرکار ان کی آمدنی ڈبل کردے گی۔سہانے سپنے شیخ چلی کے۔فی ا لحال سیاسی کسانوں اور با اثر کارخانہ داروں کے کھیت سرسبز و شاداب بنے ہیں کہ امبانی، اڈانی اور جے شاہ وغیرہ کی غریبی دور کرنے کا موقع ہے۔ اپنے اسلاف کی ماضی کی بائیس سالہ آوارہ گردی پس پشت ڈال کر قائد ثانی کی پولٹکل مٹر گشتی اور راج نیتک دھینگا مشتی کے طفیل سیاسی اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔اور جب بادل ہوں تو بارش کی توقع ضرور ہوتی ہے اور جب بارش ہو تو کیچڑ کا پیدا ہونا بھی لازمی ہے۔اگر کیچڑ سیاسی ہو تو چھینٹیں اڑہی جاتی ہیں۔مانا کہ سیاستدان ان چھینٹوں سے نہیں ڈرتے بلکہ سیاسی چھینٹوں کے طفیل ہی وہ خبروں میں رہتے ہیں اور خبروں میں رہنا سیاستدان کے لئے زندگی کی نیو ہے۔اخبار میں نام آتا ہے ، ٹی وی پر تصویر آتی ہے ،تبصرہ نگاروں کے کالم چھپتے ہیں پھر مشہور یا بدنام اس کی سیاستدان کوئی پریشانی مول نہیں لیتے کہ دونوں چیزیں ا ن کے لئے یکسان ہوتی ہیں۔خیر قائد ثانی ہر ہفتے کوئی نہ کوئی سیاسی بارود پھینکتے ہیں اور اب کی بار مودی سرکار کی کنول برادری کو چیتائونی دے ڈالی کہ پار والے کشمیر میں جو ترنگا لہرانے کی بات کرتے ہو ہمت ہے تو پہلے ادھر والے ملک کشمیر میں لالچوک کے گھنٹہ گھر پر جھنڈا لہر اکر دکھائو ۔ہل والوں کو تو معلوم ہے کہ لال چوک کا شجرہ خسرہ ان کے نام کب کا منتقل ہو چکا ہے جبھی تو اسی جگہ ہل والے اوریجنل قائد نے یہاں پر سریلی آواز میں گیت گایا تھا اورنیشنل فوج نے ہل والا جھنڈا لہرا کر لہرا ائے کشمیر کے جھنڈے پر رقص کیا تھا۔
قائد ثانی کو احساس ہے کہ جب لال چوک کے تمام کاغذات ان کے نام ہیں پھر کنول کا پھول یہاں پر کیسے اگے گا۔ قلم دوات کے ذریعے کوئی نیا فتویٰ، نئی تحریر ممکن نہیں کہ ان کے مالکانہ حقوق والے کاغذات رد کردیں۔مگر اس سیاسی اتھل پتھل کے سبب کنول والا سورج پال امو بھڑک اٹھا اور خواب دیکھ کر خواہش ظاہر کی کہ وہ ہل والے قائد ثانی کو اسی لالچوک میں تھپڑ مارنا چاہتا ہے۔ اتنا ہی نہیں شاہ سے زیادہ وفا دار (more loyal than the king) مسلم راشٹریہ منچ نے دلی میں قائد ثانی کا پتلا جلایا۔ سورج پال کو کیا معلوم یہاں خواب دیکھنے کے جملہ حقوق مرد مومن اور ان کی اولاد کے پاس محفوظ ہیں۔سورج پال اگر تاریخ کا طالب علم ہوتا تو اسے معلوم پڑتا کہ اصل تھپڑ تو ۱۹۴۷ میں اسی جگہ نہرو جی اپنے دوست کو مار کر گئے تھے اور اس تھپڑ کی گونج ابھی تک اہل کشمیر محسوس بھی کرتے ہیں ، درد بھی جھیلتے ہیں۔
کھو گئی ہے میری بدھی
من تو شد م تو من شدی
لمحوں نے کر ڈالی خطا
پائے سزا ہے یہ صدی
اور اس درد کی ٹیس شہر شہر، گائوں گائوں، قریہ قریہ محسوس ہوتی ہے بلکہ ملک کشمیر کے کھیتوں کھلیانوں، آبشاروں مرغزاروں میں بھی تکلیف دیتی ہے۔ اگلر کنڈی پلوامہ میں بھی اس دھمکی کے ساتھ کہ یا تو علاقہ خالی کردو یا سارے مرد و زن ، طفل و جوان مملکت خداداد سے در آمد کرکے ہتھیار اٹھائو اور بہادر فوجیوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرو عام لوگوں کی نیند حرام کردی گئی ۔یہ چیخ دلی کے تہار جیل میں بھی ابھرتی ہے۔کہیں تہار کے صحن میں دو قبروں کی صور ت مقبول ہوتی ہے یا افضل مقام حاصل کرتی ہیں۔کہیں اٹھارہ قیدیوں کو تختہ مشق بنتے نظر آتی ہے۔تہار کی چیخ خود قائد ثانی کو بھی نیند سے بیدار کرتی ہے اور وہ اسے نا قابل قبول مانتے ہیں ، قیدیوں کے بشری حقوق کا واویلا مچاتے ہیں،قیدیوں کی کشمیر واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور یہ درد تو پیلٹ کے قہر سے بینائی کھو جانے میں بھی نظر آتی ہے اور ایسے میں ہیلنگ ٹچ کے نام پر کچھ ایف آئی آر واپس لینے میں بھی واضح ہوتی ہے کہ بیگناہوں کے خلاف درج شدہ رپورٹیں واپس لینے کا احسان بھاری ہوتا ہے ؎
تم نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
جھک گئے ایسے بوجھ سے شانے میرے
ادھر اپنے ملک کشمیر میں ہل بردار اور قلم دوات والے ایک دوسرے کی تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب کوئی پھسل جائے اور ہم اوپر سے ایک اور لات ماریں کہ گرنے والے کے دوبارہ اٹھنے کا چانس نہ رہے۔اسی لئے ہل بردار ٹویٹر ٹائیگر نے مبینہ سنگ بازوں کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کے بارے میں نون میں نقطہ نکالا کہ صاحب یہ آرڈر تو دلی دربار کا ہے بانوئے کشمیر نے فقط پوسٹ مین کا کردار نبھایا۔ہم تو صحافی ہیں کچھ اندر کی خبر رکھتے ہیں۔ہمیں تو معلوم ہے جب دلی دربار میں زکام ہوتا ہے تو ملک کشمیر کے ہند نوازوں کو سوائن فلو کا دورہ پڑتا ہے۔اسی لئے تو ۲۰۱۰ میں کرفیو لاگو کرنے اور ہٹانے کا فیصلہ دلی دربار میں ہوا۔ شمالی کشمیر میں فوج تعیناتی کا حکم دلی سے آیا بلکہ اسکول کھولنے کی بات بھی دلی سے ہی نکلی ؎
ایوان سیاست میں شہرت کے مزے بھی
اندیشہ رسوائی بھی ہے اس کے علاوہ
خیر یہ سورج پال تو تاریخ کے بدلے دہشت کا طالب ہے جبھی تو فلم ایکٹرس دیپکا پڈکون کو دھمکی دی کہ اس کا سر کٹوا لے گا کیونکہ اس نے رانی پدماوتی کا رول فلم میں ادا کیا ۔دروغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ ملک کشمیر کے بعض تاریخ داند(دان) پدماوتی کا شجرہ نسب پدگام پورہ سے نکال کر لائے ہیں کہ بقول ان تاریخ دانوں کے رانی پدماوتی وہاں پر مٹی کا گھڑا سر پر اٹھائے پانی لانے جاتی تھی ۔گائوں کے چشمے پر سہیلیوں سمیت گیت گاتی ، نہاتی نچوڑتی تھی جبھی پدماوتی کا اغوا ملک کشمیر سے ہو ا تھا اسی لئے تو کنول والے کہتے ہیں کہ اہل کشمیر آج کے نہیں ہزار ہا سال سے آتنکی بنے ہوئے ہیں کہ نجانے کتنے عرصے سے ان کی مان مریادا کو دائو پر لگائے پھرتے رہے ہیں۔
جانے یہ کنول والے کس مٹی کے مادھو ہیں کہ بات کو اپنے طریقے سے موڑنے کا ہنر کوئی ان سے سیکھے ۔سالہا سال سے تو بھارت میں اہل اسلام کو غزنی اور بابر کی اولاد مان کر نقش کہن مٹانے کی بات کرتے تھے ۔کوئی تاج کو مندر مانتا کوئی بابری مسجد کو منہدم کرواتا اور تاڑنے والے تو قیامت کی نظر رکھتے ہیں کہ کہہ ہی ڈالا۔ اگر مغل ، خلجی ،غزنی وغیرہ راج نہ کرتے شاید تاج نہ ہوتا ، چار مینار کی بلندی نہ ہوتی ، حیدر آباد کا فلک نما پیلس نہ ہوتا تو اب کی بار مودی سرکار مجبور ہوجاتی کہ غیر ممالک کے لیڈران کو کسی گئو شالہ میںلے جاتے ۔گئو متر سے ان کے دکھ درد دور کردیتے۔بات کنول والوں کے ہنر کی چلی تو گری راج سنگھ کا نیا پینترا دیکھو ۔بھارتی مسلمان رام کی اولاد ہیں انہیں رام مندر بنانے میں امداد کرنی چاہئے۔ ارے واہ جب ضرورت پڑی تو کسی کے پیروں پرسر رکھکر دَیا کی بھیک مانگو ۔ اتنا ہی نہیں اب کی بار مودی مہاراج کو بھی اذان یاد آئی بلکہ سمجھ آئی۔واہ رے الیکشن سیاستدانوں کو کیا کیا کرواتا ہے۔نو ساری گجرات میں ۲۹ نومبر کو اذان کے دوران وزیر اعظم مودی نے تقریر روک لی۔اور تب تک خاموش رہے جب تک اذان اختتام کو پہنچی۔مسلم اقلیت کو ۲۰۰۲ میں تہہ تیغ کرنے کا صلہ اذان کے دوران تقریر روکنے سے ادا کیا۔اب بھی اگر مسلم اقلیت مودی کمپنی کو ووٹ نہ دیں تو بڑے احسان فراموش کہلائیں گے ؎
اذان ہو کہ ہو ناقوس کی صدا لیکن
ابھی تخت کے امتحان اور بھی ہیں
گائے ،گنگا اور رام مندر کی تعمیر
اہل سیاست کو بیماریاں اور بھی ہیں
مانا کہ سیاست دان الیکشن کے وقت کچھ بھی کرلیں لیکن کنول والوں کے پاس اور بھی اکائیاں موجود ہیں جو وقت وقت پر مسلم اقلیت کو ڈرانے دھمکانے کے کام آتی ہیں۔ترشول ہاتھ میں لئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کوئی ان سے سیکھے اور جب سے کیرل میں ہندو لڑکی نے اسلام قبول کرکے اور ہادیہ نام رکھ کر مسلم نوجوان سے شادی رچائی تو بھگوا لوگ لو جہاد کی رٹ لگائے ہیں۔خود سپریم کورٹ میں بھی اس مسئلے پر عجب پریم کی غضب کہانی دکھائی دی۔کچھ نہ بن پڑا تو وی ایچ پی لیڈر گوپال نے اعلان کردیا کہ اگر مسلمانوں نے لو جہاد نہیں روکا تو میںبجرنگ دل سے وابستہ جوانوں کو بھیجوں گا کہ وہ مسلم لڑکیوں کو پٹا لیں۔بے چارہ بہت مجبور و محکوم لگتا ہے !
ادھر اپنے ملک کشمیر میں سرنڈر اور غائب ہونے کی خبریں شہہ سرخیاں بنی ہیں کہ ان کے بغیر یہاں زندگی پھیکی پھیکی سی لگتی ہے۔جیسے آٹھ ہزار انسانوں کے غائب ہونے سے تسلی نہیں ہوئی کہ سر شام پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہونے کی خبر بھی عام کردی۔چونکہ اپنے ملک کشمیر کا باوا آدم نرالا ہے اس لئے یہاں گاڑی کی خبر بھی ایسے سامنے آئی کہ ہم سوچتے رہے کہیں عتاب کا شکار تو نہیں ہوئی۔مگر سب کو معلوم ہے کہ اہل کشمیر جہاں دوسروں کے عتاب کا شکار ہیں وہیں اپنے لوگوں کا بھی قہر جھیلتے ہیں۔کہاں آزادی نواز لیڈران نے اعلان کردیا کہ وہ ظلم کے آگے سرنڈر نہیں کریں اور کہاں محکمہ بجلی کے بعد محکمہ آب رسانی کے سرنڈر کی خبر آئی۔
چلتے چلتے یہ خبر کہ یوپی میں قیمتی پودے کھانے کے الزام میں کئی گدھے حوالات بھیجے گئے۔ارے ہمارے یہاں ہوتے تو ہم ایک ایک سو کا نوٹ دے کر واپس بھیج دیتے کیونکہ ہم نے تو کئی گدھوں کو سر پہ بٹھا رکھا ہے!!
رابط [email protected]/
فون نمبر9419009169