اِکز اقبال، قاضی آباد
(صفحہ چھ ۔باٹم)
بچے کسی بھی معاشرے کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کی معصومیت، بے ساختگی اور بے لوث محبت دنیا کی ہر شے سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر یہی بچے جب بڑے ہوتےہیں، تو ان کی شخصیت میں کیا خوبیاں اور خامیاں شامل ہوں گی، اس کا انحصار بہت حد تک ان کے والدین کی توجہ پر ہوتا ہے۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں، جہاں والدین اپنی مصروفیات میں گم ہیں، وہیں بچے توجہ کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کمی کے اثرات نہ صرف ان کی نفسیات پر مرتب ہو رہے ہیں بلکہ پورے معاشرے پر بھی اس کے منفی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
اگر ہم گزرے وقتوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے والدین اپنی اولاد کے لیے زیادہ وقت نکالتے تھے۔ بچے دادا، دادی، نانا، نانی اور والدین کے قریب رہتے، ان کی باتیں سنتے، ان سے کہانیاں سنتے، ان کے تجربات سے سیکھتے، اور زندگی کے اصولوں کو سمجھتے تھے۔ مگر جدید دور کی مصروفیات اور مادہ پرستی نے والدین کو اس قدر مشغول کر دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے وقت نکالنے سے قاصر ہیں۔ نتیجتاً بچے یا تو موبائل، ٹیلی ویژن اور ویڈیو گیمز میں مصروف ہو جاتے ہیں یا پھر دوستوں کی محفلوں میں وقت گزار کر والدین سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ والدین کی محبت بے لوث ہوتی ہے، مگر یہ محبت اگر صرف مادی اشیاء دینے تک محدود ہو جائے، تو بچے کی روحانی اور جذباتی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو مہنگے کھلونے، قیمتی کپڑے اور ہر طرح کی آسائشات تو فراہم کر دیتے ہیں، مگر ان کے جذبات اور احساسات کی تسکین کے لیے وقت نہیں نکالتے۔ حالانکہ، حقیقت یہ ہے کہ بچے کو کسی چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تو وہ والدین کی محبت، شفقت، اور توجہ ہے۔
ایک بچے کے ذہن میں کئی سوالات ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا چاہتا ہے۔ اگر والدین اس کے سوالات کے جوابات نہیں دیں گے، اس کی الجھنوں کو سلجھانے میں مدد نہیں کریں گے تو وہ یا تو کسی غلط ذریعے سے معلومات حاصل کرے گا یا پھر خاموشی اختیار کر لے گا، جو اس کی شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ والدین کی توجہ اور رہنمائی ہی وہ روشنی ہے جو بچے کے اندر خود اعتمادی اور مثبت سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانا ضروری ہے۔ اگر والدین سختی کریں گے، صرف ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیں گے اور ان کی غلطیوں پر تنقید کریں گے، تو اس سے بچے والدین سے خوف کھانے لگیں گے اور اپنی بات ان سے چھپانے لگیں گے۔ اس کے برعکس، اگر والدین نرمی، محبت اور سمجھداری کے ساتھ ان کی غلطیوں کی اصلاح کریں، تو بچے بہتر طور پر سیکھ سکتے ہیں اور زندگی میں ترقی کر سکتے ہیں۔
والدین کی توجہ نہ صرف بچوں کی نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ وہ بچے جن کے والدین ان کی تعلیم میں دلچسپی لیتے ہیں، ان کی پڑھائی میں مدد کرتے ہیں اور ان کے اسکول کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں، وہ زیادہ خوداعتماد اور محنتی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ بچے جو والدین کی بے توجہی کا شکار ہوتے ہیں، اکثر تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کے اندر احساسِ کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔
والدین کی توجہ کا ایک اور پہلو اخلاقی تربیت ہے۔ بچوں کو اچھائی اوربُرائی کا فرق سمجھانا، انہیں سچ بولنے، دیانت داری، ہمدردی اور انسانیت کے اصول سکھانا والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود ایمانداری، محنت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے، تو بچے بھی انہی خوبیوں کو اپنائیں گے۔ اس کے برعکس، اگر والدین بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں، غصہ کریں یا دوسروں کی برائی کریں، تو بچے بھی انہی رویوں کو اپنانے لگیں گے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین بچوں کو وقت دینے کے بجائے، انہیں مادی چیزوں میں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے جب والدین کی توجہ چاہتے ہیں، تو انہیں موبائل تھما دیا جاتا ہے، جب وہ والدین سے کھیلنا چاہتے ہیں تو انہیں کارٹون لگا کر دے دئیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے رویے بچوں کے اندر خود پسندی، بے صبری، اور جذباتی عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔
والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بچوں کی تربیت میں وقت دینا سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اگر بچپن میں انہیں والدین کی محبت، شفقت اور رہنمائی حاصل ہوگی، تو وہ ایک بہتر انسان بن کر ابھریں گے۔ ایسے بچے جو والدین کی توجہ سے محروم ہوتے ہیں، وہ یا تو باغی ہو جاتے ہیں یا پھر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔لہٰذا، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت ضرور اپنے بچوں کے لیے نکالیں۔ ان کے ساتھ بیٹھیں، ان کی باتیں سنیں، ان کے جذبات کو سمجھیں، ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کریں اور انہیں اپنی زندگی کا سب سے اہم حصہ سمجھیں۔ کیونکہ آخر میں، بچوں کے لیے سب سے قیمتی چیز ان کے والدین کی توجہ ہی ہوتی ہے۔ اگر انہیں وقت پر یہ محبت اور توجہ نہ ملی، تو بعد میں والدین چاہ کر بھی ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔
یاد رکھیے! وقت پر دی جانے والی توجہ، محبت اور رہنمائی ہی وہ ورثہ ہے جو والدین اپنی اولاد کے لیے چھوڑ سکتے ہیں۔
(مضمون نگار، مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]