حکومت ہند نے’’ آپریشن آل آوٹ‘‘ کی جگہ احترام رمضان کے نام پر’’آپریشن ہالٹ ‘‘کا اعلان کر کے ایک مہینے کی جنگ بندی کا یک طرفہ اعلان کیاہے ، اگرچہ لشکر طیبہ نے اسے ناٹک بازی کہہ کر مسترد کردیا بتایا جاتا ہے مگر بتایا جاتا ہے کہ سیز فائر کو بعد رمضان بھی توسیع دینے کا امکان ہے ۔ جنگ بندی کے اس اعلان کا آج تقریباً تیرہواں دن چل رہاہے مگر اس دوران بھی حالات میں کوئی قابل ذکر بدلاؤ نہ آیا ۔ اس مشروط اعلانِ جنگ بندی کے باوجود نہ صرف اب تک جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا بلکہ دو چشم کشا واقعات بھی پیش آئے جو صیام سیئز فائر کی زمینی سطح پر عدم موجودگی پر دلالت کر تے ہیں :اول شوپیان میں بر سر جنگ راشٹریہ رائفلز نے لو گوں کے لئے بغیر کسی عوامی مرضی یا آمادگی کے افطار پارٹی کا اہتما م کیا تھا۔ عوام بوجوہ اس پارٹی سے لاتعلق رہے لیکن حالات نے اُس وقت کڑا رُ خ اختیارکیا جب لوگوں نے دیکھا کہ آرمی والے پارٹی کی فلم بندی کر رہے تھے۔اس پر لوگوں میں شک وشبہ پیدا ہو ااور انہوں نے مشتعل ہوکر آر آر کی اتنی ہو ٹنگ کی کہ سپاہیوں کے اوسان خطا ہوئے ۔ بجائے اس کے کہ نظم وضبط اور صبر وتحمل کا ثبوت دیا جاتا ہوٹنگ کے جواب میں وردی پوشوں نے بندوقوں کے دہانے کھول کر اندھا دھند فائرنگ کی اور بر سرموقع چار معصوم بچیاں گولیاں لگنے سے شدید مضروب کرڈالیں۔ کہاں افطار پارٹی کی محبتیں اور کہاں گولیوں کی بارش؟؟؟ دوسرا شرم ناک واقعہ سول لائنز سری نگر کے ایک ہوٹل گرینڈ ممتاز میں پیش آیا۔ یہاں آر آر بڈگام کے میجر گگوئی نے دو افراد کے لئے ایک کمرہ بُک کیا تھا ۔ یہ میجر وہی ہے جس نے گزشتہ سال پارلیمانی الیکشن کے دوران بیروہ کے دور افتادہ دیہات میں ایک جوان سال ووٹر فاروق احمد ڈار کو پکڑ کر اپنی جیپ کے بانٹ کے ساتھ رسیوں سے باندھ لیا اور دن بھر اپنی کانوائی کے ہمراہ اسے گاؤں گاؤں گھمایا ۔اس ظالمانہ حماقت کے جوا زمیںمیجر گگوئی نے یہ عذرلنگ تراشاتھا کہ فاروق کا بُرا حال دیکھ کر بیروہ کے عوام نے فوجی کانوائی پر سنگ باری سے پرہیز کیا ۔ اس واقعے کی تصویریں جونہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو افسپا کے زیرسایہ کشمیر میں تعینات انڈین آرمی کی کارستانیوںکی دنیا بھر میں بھرپور مذمت ہوئی ۔افسوس کہ حکومت ہند نے اس واقعے کا سنجیدہ نوٹس لینے کے بجائے متنازعہ میجر کو یہ کہہ کر ’’پُرسکار‘‘ سے نواز اکہ اس نے ایک جدت طراز طریقے پر سنگ بازوں کو بے دست وپا کر کے رکھ دیا۔اسی میجر نے پچھلے دنوں سادہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر ہوٹل گرینڈ ممتا میں چک کاؤسہ بڈگام کی ایک نابالغ لڑکی کو آرمی کے ایک مقامی ڈرائیور سمیر ملہ سے مل کر لایا ۔ ہوٹل کے منیجر نے ایک کشمیری لڑکی ا ور ایک غیرریاستی مرد کو کمرہ دینے سے شک کی بناپر انکار کیا ، میجر اس پر اتنا غصہ ہوا کہ نوبت تلخ کلامی اور ہاتھا پائی پر پہنچی، حتیٰ کہ ہوٹل عملے کے علاوہ مقامی شہری بھی اس واقعہ میں میجر کے خلاف بر افروختہ ہوئے۔ہوٹل کے منیجر نے حاضر دماغی سے کام لے کر پولیس اسٹیشن خانیار کو فوراً مطلع کیا ۔ پولیس نے میجر اور لڑکی کو گر فتار کر کے تھانے پہنچایا جہاں یہ انکشاف ہوا کہ ملزم کوئی اور نہیں بلکہ سادہ کپڑوں میں آرمی میجر لٹیلو گگوئی ہے۔ اب پولیس اس کیس کو کس رُخ موڑے گی ،وہ ایک الگ بات ہے مگر ان ہر دو واقعات سے متر شح ہوتا ہے کہ اگر جنگ بندی کا اعلان ڈھکوسلہ نہ ہوتا تو نہ شوپیان میں چار معصوم بچیاں گولیوں کا شکار ہوتیں اور نہ رمضان کا مذاق اڑاتے ہوئے کسی نابالغ معصوم لڑکی کو ایک آرمی آفسر اپنے اوپر لاگو تمام آرمی رولز کو لتاڑتے ہوئے ہوٹل پہنچا دیتا ۔ ہوٹل میں نابالغ لڑکی اور آرمی میجر کی موجودگی کس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے ،وہ عیاں راچہ بیان ہے اور کسی تبصرے کی متقاضی نہیں ۔
کشمیر میں اعلان جنگ بندی پر نہ صرف ا قتداری ٹولہ اترا ر ہاہے بلکہ ڈھول پیٹ ر ہاہے اور ایسے جھوم رہاہے جیسے ان کے سامنے مودی نے سرینڈر کر کے افسپا ختم کیا ہو، پاور پروجیکٹس ریاست کو واپس ملے ہوں، پاکستان سے مذاکرات شروع ہوئے ہوں ۔ پی ڈی پی کو اس ایک معمولی اعلان میں شاید اپنے ایجنڈا آف الائنس کی غیر معمولی پر چھائیاں رقصاں نظر آتی ہیں۔ ویسے حکمران پارٹی کے لئے کرسی کی مجبوریاںقابل فہم ہیں لیکن این سی کا رویہ اس تعلق سے غور طلب ہے ۔ اس کے قائد ڈاکٹر فاروق جو ہو اکے رُخ پر اپنی سیاست کا سفینہ مختلف اطراف میں چلانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ، جنگ بندی کے اعلان سے اتنے شادماں نظر آئے کہ فوراً ہی کشمیری نوجوانوں کو اُپدیش دیا کہ اب شرافت سے یہ مہینہ گذارو ۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اب تک نوجوان شریفوں کے اُلٹ میں کوئی اور رویہ اختیا کئے ہوئے تھے۔ چونکہ موصوف منہ میں سونے کا چمچ لئے پیدا ہوئے ہیں،اس لئے وہ کبھی حریت کی ایجی ٹیشن کے ساتھ ہونے کا اعلان کر تے ہیں اور کبھی بھارت کی غیر مر ئی جنگ بندی کا خیر مقدم کر تے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کے والد گرامی نے جموں وکشمیر کے سادہ لوح عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح جب جب جس جس طرف چاہا ہانکا ، نتیجہ یہ کہ عوام کو کبھی ایک پہلوامن چین نصیب ہوا، نہ عزت و آبرو سے جینے کا موقع ملا۔ انہوں نے ہی اپنے جانشینوں کو عوامی خواہشات اور امنگوں کو نظر انداز کرنے کا پہلا سیاسی درس دیا جس پر وہ آج بھی پورے شدومد کے ساتھ گامزن ہیں ۔ یہی و جہ ہے کہ این سی ا قتدار میں ہو تو عوام کی مصیبتوں میں کروڑوں گنا اضافہ ہوتا ہے اور جب بھارت اپنی مصلحت کے تحت اسے مسند اقتدار سے محروم کر تاہے تو گر گٹ کی طرح رنگ بدل کر یہ لوگ ’’ عوامی خواہشات کے ترجمان اور رائے شماری‘‘ کے نقیب بننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں لگاتے ۔ ڈاکٹر فاروق کا یہی موروثی اپروچ رہا ہے کہ ا نہوں نے اپنے آقاؤں کی محبت اور کرسی کے عشق میں کبھی ٹاسک فورس کا تحفہ کشمیری عوام کو دیا ، کبھی پاکستان پر بم باری کی وکالت کی ، کبھی ملی ٹینٹوں سے جیلیں بھرنے کے بجائے انہیں گولی مار دینے کی تجویزیں دیں، کبھی کا نگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ، کبھی بی جے پی کو گلے لگایا، کبھی کشمیری کو کبھی مہا بد معاش ، ٹیکس نادہندہ اور بجلی چور کے خطابات سے بھی نوازا اور کبھی انہیں مظلوم جتلایا ۔ حالانکہ یہی ’’چور اچکے ‘‘ انہیں مسند اقتدار پر بٹھانے والے کندھے ہوا کرتے ہیں ۔ عمر عبداللہ بھی اپنی اسی موروثی راہ و منزل کے راہی ہیں ۔ ان کے دور حکومت میں جب’’ رگڑو تحریک ‘‘چلی تھی تو اس کو کچلنے کے لئے آناًفاناً ۱۱۶؍نو عمر کشمیری موت کی نیند سلادئے گئے ، نیلو فر اور آسیہ کی عصمت دری اور قتل کا اندوہناک واقعہ رونما ہواجس میں ملوث مجرموں کو قانون کی گرفت سے ہر حال میں بچایاگیا ۔ سیفٹی ایکٹ اور افسپا بھی اسی پارٹی کی آنکھوں کے دوتارے ہیں ۔ ان کی خون آشام تاریخ میں کئی جلیانوالا باغ رقم ہیں لیکن آج یہ کرسی سے دوری کی بناپر اسی طرح عوام کے غم خوار اور مونس و ہمدرد بنے ہیں جیسے پی ڈی پی اقتدار سے قبل زخموں کی مرہم ، باعزت امن اور گولی نہیں بولی کے نعروں سے لوگوں کی ہم نوائی حاصل کر تی رہی ۔ یہ سب لوگ ایک ہی تھیلی کے جٹے پٹے ہیں اور مشترکہ طور اس بات کے قائل ہیں کہ انہیں اپنی قوم کی قیمت پر دلی کی کتنی بھی جی حضوری کر نی پڑے مگر چیف منسٹری کا وقتی ٹینڈر ہاتھ آئے تو جنت مل گئی ۔ حالانکہ ریاست میں کشمیری چیف منسٹر کی کیا وقعت اور اہمیت ہوتی ہے، اس کا خلاصہ بھاجپا نیتا اور سابق وزیر لال سنگھ کے بھائی راجندر سنگھ نے گزشتہ دنوں اس وقت کیا جب اس نے بر سر عام محبوبہ مفتی کے خلاف غلیظ زبان اختیار کر کے مغلظات بکے ۔ چونکہ یہ لوگ اقتدار کے بغیر نہ تو زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ زندہ رہنا چاہتے ہیں ،اس لئے ہر حال میں مرکز کے سامنے بھیگی بلیاں بننے میں انہیں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا ۔
بہر بات ہورہی تھی ایک مہینے کی جنگ بندی کی۔ اس کے اعلان کا ہند نوازوںنے ڈھول بجا بجاکرخیر مقدم کیا اور بزبانِ حال اور بزبانِ قال بتایا کہ مر کز نے’’ آپریشن ہالٹ ‘‘ سے اہل کشمیر پر احسان کیا ۔ اگر واقعی یہ احسان ہے تو ذرا یہ بھی بتا نے کا کشٹ کیجئے کہ شوپیان میں چار معصوم بچیوں پر گولیاں چلانے والے آرمی والے چونکہ جنگ بندی کا اُلنگن کر چکے ہیں ،ان کے خلاف کون سی قانونی کارروائی ہوئی ؟ میجر گگوئی نے اتنا ’’ پُر سکاری‘‘ کام کیا ،اس پر میجر کااب تک کوئی مواخذہ ہو ا؟ اُسے پولیس نے اولین فرصت میںاپنے یونٹ کے حوالے کرکے واضح کر دیا کشمیر میں کنن پوشپورہ ہو یا ہوٹل گرینڈ ممتا کی رُوداد، جہاں جہاں بادی النظر میں وردی پوش قانون کے مجر م ٹھہرتے ہوں، وہاں ان کی دیش بھگتی اور مورال کے نام سے ہر قانون شکنی حکومت کو قابل قبول ہے ۔ حالانکہ اُناؤ اتر پردیش کابھاجپا ایم ایل اے اسی نوع کے الزام میں ا س و قت سی بی آئی کی جیل میں چکی پیس رہا ہے جب کہ میجر گگوئی آزاد ہے ۔ ان وجوہ کی بنا پر مزاحمتی قیادت اگر جنگ بندی کو محض ڈرامہ بازی اور ظالمانہ مذاق قرار دے تو اسے کس منطق کی رُوسے رد کیا جاسکتا ؟ بہر کیف اصولی طور جنگ بندی ( صحیح لفظوں میں حملہ بندی ) کشمیری عوام کی دیرینہ آرزو ہے کیونکہ وہ فوجی کارروائیوں کا سارا خمیازہ اٹھا رہے ہیں، اس کی بھاری قیمتیں چکا رہے ہیں ، ان کے عزیز واقارب قبروں میں ابدی نیند سلائے جاتے ہیں ،ا ن کے گھر بار خاکستر ہوتے ہیں ،ان کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے ۔ اس لئے ان کی پہلی خواہش ہے کہ یہ گھٹن اور مار دھاڑ ختم ہو ، مگر جنگ بندی کوئی ہوائی قلعہ نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہو تو کوئی بات ہے ۔ بالفرض اگر جنگ بندی حقیقت حال سے مربوط ہے تو اس کا پہلا تقاضایہ ہے کہ حکومت ہند ان اسباب کی کھوج لگائے جو کشمیر کو بدامنی ا ور بے چینی میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں ، پھر تو دلی کو اصل مرض کی جڑ تک پہنچنا ہوگا اور ایک موثر حکمت عملی وضع کر کی اپنے جی حضوریوں کے بجائے اپنے ناقدین اور مخالفین کو کھلے دل ودماغ سے سننا ہوگا۔ اسے مسئلہ کشمیر کی حقیقت اور اس کے سہ فریقی کر یکٹر کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا ہوگا اور ایڈوانی کی زبان میں اسلام آباد سے’’ کچھ دو کچھ لو‘‘ کا مول تول کر کے مسئلے کا حتمی سیاسی نپٹارا کر نا ہوگا ،اسے بحالی ٔ اعتماد کے اقدام کے طور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا قصہ طولانی مختصر کر نا ہوگا ،اسے کھٹوعہ سے لے کر شوپیان اور ہوٹل گرینڈممتا تک پھیلی بدنماکہانی کے وردی پوشوں کرداروںکو قانوناً سزا دے کر مورال اور دیش بھگتی کی بنسری بجانے سے پر ہیز کر نا ہوگا ،اسے سمجھنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کشمیر کا تعلیم یافتہ نوجوان بندوق کی راہ اختیار کر رہاہے ، کہیں اس کے لئے دلی کی اپنی سخت گیریت اور آہنی ہاتھذمہ دار تو نہیں ۔مختصر یہ کہ اسے کشمیر پالیسی کو نئی طرح دینا ہوگی تاکہ جنگ بندی سے کوئی ٹھوس مقصد بر آمد ہو ۔
ریاستی اقتدار میں شریک بی جے پی پچھلے کئی برس سے کشمیر میں اپنے ایجنڈے کے عین مطابق ایک ایسے جنگی ماحول کو جنم دیتی چلی آرہی ہے جس سے مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی جارہا ہے ۔ اس فضا میں بھاجپا کے سامنے پی ڈی پی کی حالت ایسی ہی بنی ہے جیسے ایک شیر کے سامنے ایک میمنہ کی ہو ۔ بنابریں ا س وقت زمینی صورت حال یہ ہے کہ کنٹرول لائین اور بین ا لاقوامی سرحد پر آئے روز جنگ وجدل کی قیامت خیز آگ برس رہی ہے ۔ چونکہ مودی کو اگلا الیکشن جیتنے کے لئے سرحدوں پریہ گرما گرمیsuit کر رہی ہے، اس لئے وہ اپنے زعفرانی ایجنڈے کو حرف بہ حرف سامنے رکھ کرچلتے ہیں، حالانکہ دنیا چیخ رہی ہے چلّا رہی ہے کہ برصغیر میں دونوں نیوکلیئر طاقتوں کو ماضی اور حال کی تلخیاں بھلا کر جامع مذاکرات کی راہ پر چلنا چاہیے لیکن مودی کے لئے ا س راہ پر چلنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بی جے پی کا ووٹ بنک ان سے مایوس ہو اور انہیں اگلے پارلیمانی الیکشن میں ایک اور کر ناٹک سے پالا پڑے ۔ اس لئے جہاں قومی مفاد کے بجائے گروہی اور نجی مفاد کو فوقیت ملے ، وہاں جنگ اور ناجنگ کا سارا معاملہ ایک بے بھروسہ ریاکاری ہوتی ہے۔ بایں ہمہ اس بات سے مفر نہیں کہ کشمیر کو تخریب و جنگ کی مار سے فوراًسے پیش تر بچایا جائے ۔ البتہ اس سلسلے میں کشمیر کے تعلق سے سیاسی حقائق کی اَن دیکھی کی گئی تو سب کچھ چوپٹ ہوگا ۔ مرکز کو اس حوالے سے وہ بے ساختہ طوفانی جذبہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ جو اس وقت سب لوگوں کے اعصاب پر سوار ہوتا ہے جب وہ شہداء کے جنازوں میں لاکھوں کی تعداد میں دیوانہ و ار شرکت کرتے ہیں ، یا نوجوان گولیوں کے آگے اپنے سینہ سپر ہوکر اُن زیر محاصرہ سرفروشوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان تک کوداؤ پر لگاتے ہیں ، مساجد میں نعرہ بازی ، فیلڈ میں پتھراؤ اور فقیدالمثال ہڑتالیں کئے جاتے ہیں ۔ ا سلئے اگر اربا ِب ِ اقتدار کے دل و دماغ میں کشمیر میں نارملسی لانے کی خواہش ہے اوراس کے لئے درکار خلوص اور صلح جوئی نام کی کوئی چیز بھی اس کے پاس ہے تو اسے سرزمین کشمیر میںمستقل جنگ بندی اور خون خرابے پر روک لگانے کے لئے کمر ہمت کس لینی چاہیے ۔ اس کے لئے ڈایول ڈاکٹرائین کا ترک کیا جا نا ، آرمی چیف کا کشمیریوں کے جذبات کو مشتعل کر نے والے بیانات سے اجتناب کیا جانا ، ایجنسیوں کی کارستانیوں پر قدغن لگانا، اسلام آباد سے بات چیت کا آغاز کر نا وہ ابتدائی سنگ ہائے میل ثابت ہوسکتے ہیں جن سے کشمیر میں لگی آگ بجھ سکتی ہے ۔
9419514537
ْ