سرینگر//ریاست جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں افسپا کو ہٹانے یا اس میں نرمی کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے فوجی سربراہ نے کہا کہ شورش زدہ علاقوں میں آپریشنوں کے دوران حقوق البشر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور لوگوں کو گز ند نہ پہنچا نے کی جوانوں کو بھر پور تاکید کی جا تی ہے ،ریاست جموں و کشمیر میں عسکریت سے نمٹنے کیلئے ضرورت پڑی تو حکمت عملی اپنانے یا متبادل اختیار کرنے میں پرہیز نہیں کیا جائیگا ۔ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے درمیان کئی اعلیٰ سطحی میٹنگیں منعقد ہوئیں جن میں جموں و کشمیر کے کئی علاقوں اور شمال مشرقی ریاستوں میں فوج کو حاصل خصوصی اختیارات افسپا کو ہٹانے یا اختیارات کم کرنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا تاہم فوجی سربراہ نے کہا کہ افسپا کو ہٹانے یا اختیارات کم کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا ہے ۔ افسپا کو ہٹانے کے مطالبے پر غور کرنے کے بارے میں سوال کو خارج کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ شورش زدہ علاقوں میں فوج کو افسپا کے ذریعے خصوصی اختیارات حاصل ہیں تاہم عسکریت پسنداور نکسلیوں کے خلاف آپریشنوں کے دوران حقوق البشر کا خاص خیال رکھا جا تا ہے ۔فوجی سربراہ کے مطابق ریاست خاص کروا دی کشمیر میں اب بھی عسکریت پسند سرگرم ہیں اور ان حالات میں آرمڈ سپیشل پاور ایکٹ کو کالعدم قرار دینا صحیح نہیںہوگا۔ مرکزی اور ریاستی سطح پر افسپا کو ہٹانے کے ضمن میں وزارت دفاع اور داخلہ کے سینئر آفیسران کے درمیان میٹنگیں ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فوجی سربراہ نے کہاکہ افسپا قانون کے تحت ہی فوج عسکریت پسندوں کو کیفرکردار تک پہنچا رہی ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان قریبی تال میل کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فوجی سربراہ نے کہاکہ مختلف اداروں کے درمیان تال میل سے ہی سال 2017کے دوران دو سو سے زائد جنگجوئوں کو مار گرایا گیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ریاست جموںوکشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور مجھے یقین ہے کہ بہت جلد ریاست میں امن و امان قائم ہوگا۔ فوجی سربراہ نے کہا کہ حقوق البشر کی پامالی کی چھوٹ نہیں دی جاتی ہے ۔ فوجی سربراہ نے دعویٰ کیا کہ حقوق البشر کے سلسلے میں فوج کا ریکارڈ صاف و شفاف ہے اور ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے وقت فوج انسانی حقوق کا خاص خیال رکھتی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے درمیان اعلیٰ سطحی میٹنگوں کے دوران اگر چہ کئی حلقوں کی جانب سے یہ رائے پیش کی گئی کہ ریاست جموں و کشمیر کے کئی علاقوں سے افسپا کو ہٹایاجائے تاہم زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ عسکریت سے نمٹنے کیلئے فوج ،نیم فوجی دستوں،پولیس اور خفیہ اداروں کے مابین تال میل کی کمی اور خفیہ اداروں کیلئے تال میل کو بہتر بنانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے فوجی سربراہ نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں فوج ،نیم فوجی دستے ،جموں و کشمیر پولیس اور خفیہ ادارے عسکریت کے خلاف مل کر کام کرتے ہیں اور اس سلسلے میں تال میل کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر میں اندرونی اور بیرونی سطح پر عسکریت کا مقابلہ کرنے کیلئے فوج کے تینوں حصوںکو استعمال میں لانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کو ٹالتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ہمارے پاس متبادل موجود ہیں۔ عسکریت سے نمٹنے کیلئے جو بھی وسائل درکار ہونگے انہیں استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا تاہم اس کیلئے حالات اور واقعات سازگار ہونے چاہیے ۔ پاکستان کا نام لئے بغیر فوجی سربراہ نے اشارہ کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو فوج کے تینوں شاخائوں کو استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جائیگی ۔ انٹرویو کے دوران فوجی سربراہ نے کہا کہ فوج ریاست جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں شورش کو کچلنے اورامن و امان کو بحال کرنے کے اپنے مشن پر گامزن ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں صورتحال بہتر ہونگے اور حالات پر قابو پایا جائیگا ۔