زندگی اب ایک آٹو رکھشے کے اردگرد ہی گھوم رہی تھی ۔ صُبح گھر سے نکلنا ، دن بھر شہر کی سڑکیں ناپنا اور پھر شام یا دیر رات گئے گھر پہنچنا ۔ دائرے کا سفر تھا جو صُبح گھر سے نکلتے ہی شروع ہوتا تھا ، دن بھر شہر کی کچی پکی ، ٹیڑھی میڑھی ، پیچدار اور بل کھاتی ہوئی سڑکوں پر سے بھاگم دوڑ کرنے کے بعد سے گزُرتا ہوا شام کو پھر گھر پہنچ کر ختم ہوتا تھا ۔ کبھی کبھار یہ سفر رات دیر گئے تک جاری رہتا تھا اور بھُگتنا بھی پڑتا تھا ۔ میں رات دیر گئے گھر پہنچتا تھا ، تبھی گھر میں میری خُوبصورت بیوی عرشی ہزار وسوسوں کے بیچ دروازہ کھولتی اور غُصہ کرتی ہوئی مجھے اپنی تیز نظروں سے گُھورنے لگتی تھی اور ٹکٹکی باندھے مجھ سے مخاطب ہوکر کہتی تھی ۔
" کیوں جی مسٹر سات سو چھیاسی ؟ کہاں رہے اتنی دیر۔؟" وہ بڑی پریشان نظر آتی تھی ۔
" اری پگلی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
میں کچھ کہنے کی کوشش کرتا ، تو وہ اپنا داہنا ہاتھ اپنے باہنے ہاتھ پر زور سے مارتی ہوئی ڈانٹ ڈپٹ پر اُتر آتی تھی ، جبھی اُس کی کلائیوں میں پڑی ڈھیر ساری چوڑیاں اک دم ایسے کھنکتیں تھیں ، جیسے ایک ساتھ بیسیوں سِتار بج اُٹھے ہوں اور ساز وسرور کی ایک پُر کیف مجلس آراستہ ہوئی ہو ۔ اچانک عرشی پر ہزار جان سے فدا ہونے کو من کرتا تھا ۔ میری جیسے دن بھر کی تھکان دور ہوجاتی تھی اور میرے خنک اور خشک لبوں پر تبسم بکھر جاتا تھا ۔
" اری ، بس بھی کرو ، میری عرش و فرش ۔ نکچڑھی ۔"
میں اپنا منہ بنانے کی کوشش کرتا ہوا اُسے چڑانے کی کوشش کرتا تاکہ وہ سرِ نو اپنی چوڑیاں کھنکھائے اور مجھے مسحور کردے ۔
" اچھااااااا ۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ ، نکچڑھی ۔" وہ اس بار اور زور سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارتی ۔۔۔۔چوڑیاں پھر سے کھنکتیں ، تبھی میں نہال ہوکر اسے گلے لگاتا اور کس کر پکڑنے کی کوشش کرتا ۔ اچانک مجھے عرشی کے دل کی تیز اور برہم ہوتی ہوئیں دھک دھک کی آوازیں سُنائی دیتیں ، تو مجھے اندازہ ہوتا کہ ذرا سی دیر ہونے پر وہ میرے لئے کتنی پریشان رہتی ہے ۔
میرے آٹو رکھشے کا نمبر 786 تھا ، جبھی عرشی کبھی کبھار مجھے چِڑھانے کےلئے مسٹر سات سو چھیاسی کے نام سے بھی پکارتی تھی اور میں جوابا" کبھی اسے ، میری عرش و فرش ، کے نام سے بھی پکارتا تھا ۔
اب مجھے نوکری نہ ملنے کا کوئی ملال بھی نہیں تھا ۔ عرشی ایک اسکول ٹیچر تھی اور میں ایک پڑھا لکھا آٹو ڈرائیور ۔ گھر کا چولہا چوکھا ٹھیک چلتا تھا اور اچھی گُزر بسر ہوتی تھی۔ گھر میں اب ایک نیا مہمان بھی آیا تھا ، سو خوشیاں اور دوبالا ہوگئیں تھیں ۔ میں دن بھر اپنے کام کاج میں مصروف رہتا تھا ، کام بس کام ۔ من اپنا ایک ذاتی گیراج قائم کرنے کےلئے بِلیوں اُچھل رہا تھا تاکہ آمدن میں اور اضافہ ہوجائے اور زندگی کے دن ہنسی خوشی سے گزُر جائیں ۔ قِصہ مُختصر ، میرا سات سو چھیاسی نمبر کا رکھشا دن بھر شہر کی آڑھی تر چھی سڑکوں پر دوڑےجارہا تھا اور سچ پوچھئے تو میرے لئے کافی لکی بھی ثابت ہورہا تھا ۔ پھر میری جورو " میری عرش و فرش " کچھ کم تھی کیا ؟ "۔ وہ " آپ آئے بہار آئی " کے مِصداق میری حیات میں وارِد ہوئی تھی اور اب میرے من مندر میں بہ نفس ِنفیس براجمان تھی ۔
میرا آٹو " سُرخاب چوک " کے آٹو اسٹینڈ سے ضرور جُڑا تھا مگر میرا گزُر شہر کی تقریبا" ہر گزرگاہ سے ہوتا تھا ۔ اکثر میں "مسجد والے بابا " کی درگاہ روڈ سے بھی گزرتا تھا اور آگے" دُرگا شری چوک " سے ہوتا ہوا کالی گھاٹ شمشان کی سڑک پر سے ہوتا ہوا نکل جاتا تھا ۔ یہ راستہ شہر کے مرکزی علاقے تک پہنچنے کا شارٹ کٹ راستہ تھا اور رات دیر گئے یہ راستہ سفر کےلئے بڑا مُناسب رہتا تھا ۔ ایک شب میں کام ختم کرکے اسی گزُر گاہ سے گزُر رہا تھا کہ کالی گھاٹ کے قریب ایک زنانہ سواری نے ہاتھ کے اشارے سے رُکنے کا اشارہ کیا ۔ سوچا کہ نہ رُکتے ہوئے نکل ہی جاوں ، پھر یہ سوچ کر کہ اتنی رات گئے اور ایک اکیلی لڑکی ، کچھ مجبوری ہی رہی ہوگی ، پھر بارش بھی ہورہی تھی ، لڑکی کچھ بھیگی بھیگی سی بھی لگ رہی تھی ۔ رات گہری ہوئے جارہی تھی اور دھیرے دھیرے بارش کا زور بھی اب بڑھتا جارہا تھا ۔ میں نے لڑکی کے قریب جاکر اپنا آٹو روک لیا ۔
" کہاں جانا ہے محترمہ ؟" میں نے پوچھا اور اسے ایک نگاہ دیکھنے کی کوشش بھی کرنے لگا ۔
" وشِنو نگر ۔ " وہ دھیرے سے بولی ، ایسے جیسے سرگوشی کی ہو ۔ شال اوڑھے ہوئی تھی اور جیسے بے جان سی لگ رہی تھی ۔
" بہت دُور ہے محترمہ اور ۔۔۔۔ ۔" میں کچھ ہچکچایا ۔ مجھے پہلے ہی سے بہت دیر ہوچکی تھی ، بارہ بج رہے تھے اور گھر میں عرشی بھی بڑی پریشان ہو رہی ہوگی ۔ میں نے سوچا۔
" مگر مجھے جانا ہے ، کرایہ جو بھی ہو ۔" وہ دھیرے سے کہتی ہوئی آٹو میں سوار ہوگئی ۔
" ڈیڑھ سو روپے تو بنتا ہی ہے ۔ " میں نے کہا اور آٹو کو گئیر میں ڈالتے ہوئے زووووں کی آواز کے ساتھ آگے نکل گیا ۔
" جی جی ۔۔۔ ۔" وہ پھر دھیرے سے بولی ۔ اب وہ اپنے شال کو درُست کرنے لگی تھی ۔
اب لڑکی نے اپنے شال کو اپنے سر کے اوپر سے لپیٹ لیا تھا ، میں نے مگر اسے ایک جھلک ضرور دیکھ لیا تھا ۔ بے شک ملگجا اندھیرا تھا مگر کہیں کہیں سڑک کے دائیں بائیں اِستادہ بجلی کھمبوں پر نصب ٹیوب لائیٹیں روشن تھیں اور اس سیاہ اور کالی رات میں بھی روشنی بکھیر رہی تھیں ۔
ہو کا علم تھا ، سڑکیں سنسان اور ویران تھیں ، البتہ کہیں کوئی ٹرک ، رکھشا یا ٹیکسی نظر آرہی تھی ۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی لڑکی یا خاتون خاموش تھی اور میں بیچ بیچ میں اپنے رکھشے کےعقب نما آئینے میں سے اسے دیکھنے کی کوشش کررہا تھا ، پچیس چھبیس سال کی لگتی تھی ، پریشان و مضطرب ، خاموش اور ساکت سی ۔۔۔۔۔۔
تقریبا" آدھے گھنٹے بعد ہم وشنونگر پہنچے تو لڑکی نے " وہ ۔۔۔۔ وہاں سے ۔" کہتے ہوئے ایک گلی میں مُڑنے کا اشارہ کیا ۔ میں نے رکھشا گلی میں موڑ دیا جبھی اُس نے کچھ آگے جاکر مجھے مخاطب کیا ۔
" بس یہیں ۔۔۔۔ روک دیجئے ۔" وہ بولی اور رکھشا کے رُکتے ہی رکھشے سے اُتر گئی ۔
" آپ انتظار کیجئے ۔" وہ بولی اور گلی کے ایک مکان کا بیرونی دروازہ کھولتی ہوئی اندر چلی گئی ۔
بارش اب تھم چکی تھی ۔ گرمیوں کے دن تھے سو بارش سے پیدا ہوئی تھوڑی ٹھنڈی بڑی اچھی لگ رہی تھی ۔ میں رکھشے میں بیٹھا مکان کے اندر گئی ہوئی لڑکی کا انتظار کر رہا تھا ، کب وہ آئے اور میں کرایہ لے کر نو دو گیارہ ہوجاوں ، کیونکہ اب تو خاصی دیر ہوچکی تھی اور میں پریشان ہوئے جارہا تھا ۔ ہارن بجاوں ، سوچا ضرور تھا مگر رات دیر گئے کا وقت تھا ، کہیں کسی مکین کی نیند میں خلل نہ پڑ جائے اور وہ خفا ہوجائے ، سو مناسب نہ ہوگا ۔ یہ سوچتے ہی میں نے مکان کے اندر جانے کا فیصلہ کِیا اور میں مکان کے بیرونی دروازے کو کھول کر اندر داخل ہوگیا ۔ میں مکان کے چھوٹے سے باغیچے کی ایک چھوٹی سی روش پر سے گُزرتے ہوئے مکان کے برآمدے تک پہنچ گیا ، جہاں ایک کمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں سے روشنی چھِن چھِن کے باہر آرہی تھی ۔ کال بیل ندارد تھا ، سو میں نے دروازے پر دستک دی ۔
" ٹھک ٹھک ۔۔۔ ٹھک ٹھک ۔"
" آئیے آئیے ۔۔۔۔۔۔ دروازہ اندر سے کُھلا ہے ۔" کوئی اندر سے اُونچی آواز میں بولا اور کھانسنے لگا ۔ مردانی آواز تھی سو میں بے دھڑک اندر چلا آیا ۔
اندر آتے ہی جیسے میرے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔
چھوٹا سا ڈرائینگ روم تھا جہاں ادھیڑ عُمر کا ایک شخص اور ایک خاتون بیٹھی تھی ۔ دونوں لگ بھگ ہم عمر تھے اور تقریبا" ساٹھ سال کی عمر کے لگتے تھے۔ دونوں کے ماتھے پر ایک لمبی سی بِندی لگی ہوئی تھی ، ایسے جیسے ابھی ابھی پوجا کرکے آئے ہوں ۔ سامنے ایک چھوٹی سی میز پر ایک برتھ ڈے کیک بھی رکھا ہوا تھا جس پر بہت ساری رنگین موم بتیاں روشن تھیں ۔ جبھی میرے اوسان خطا ہوگئے ، میز پر ایک خوبصورت فریم کی ہوئی ایک تصویر بھی کھڑی تھی جو اُسی لڑکی کی تھی جسے میں نے تھوڑی دیر قبل باہر ڈراپ کیا تھا اور جو میرے سامنے ہی مکان کے اندر چلی گئی تھی ۔ حیرت کُن بات یہ تھی کہ تصویر پر پھول مالا ڈالی ہوئی تھی ، مطلب یہ کہ لڑکی سورگباشی تھی۔
" کیا دیکھ رہے ہو ۔؟ جبھی بوڑھے بابو جی بولے تو میں چو نک گیا ۔
" جی وہ ۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ۔۔۔۔ ۔ " میں ہڑبڑا گیا ۔ کیا کہوں ، کچھ سوجھا نہیں ۔
" ہماری بیٹی ہے ۔ شالو ۔۔۔۔۔ شالنی مہرہ ۔ پانچ سال قبل شالو کا ایک ایکسیڈنٹ میں سورگباش ہوا تھا۔"
" مگر ۔۔۔۔۔۔ ؟" میں بدقت تمام اتنا ہی کہہ سکا ۔
میرے پورے بدن میں جیسے بجلی سی دوڑ گئی ۔ آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی بجلیاں کوندنے لگیں ، کپکپی سی طاری ہوگئی اور میں اپنا سر تھام کر ایک صوفے پر بیٹھ گیا ، جبھی ادھیڑ عُمر کی عورت دردناک آواز میں بولی ۔
" ہم شالو کے بدقسمت ماتا پتا ہیں ۔ آج شالو کا جنم دن ہےاور ہم ہر سال سورگباشی شالو کا جنم دن مناتے ہیں ۔"
" ج ۔۔۔ نم ۔۔۔۔۔ د ۔۔۔ ی۔۔۔۔ ن ۔" میں بڑبڑایا ۔
اب میں پسینے میں شرابور تھا ۔ حالت بہت خراب تھی ، غشی طاری ہونے لگی تھی اور آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہونا شروع ہوگئیں تھیں ۔ جبھی میرے کانوں میں " ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو شاااااالو وو ۔۔۔ ، ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔ اب یہ آوازیں ڈوبتی ہوئی سی محسوس ہو رہی تھیں اور جیسے میرے پردہ سماعت سے دھیرے دھیرے بہت دور ہوتی چلی جارہی تھیں ۔
فرینڈس اینکلیو ، نیو ایئر پورٹ،سری نگر کشمیر
موبائل نمبر؛9622900678