یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ گورنر انتظامیہ میں کم ازکم عوامی مسائل کی طرف دھیان دینے کو اب کی بار ترجیح ملتی دکھائی دے رہی ۔ کم وبیش تمام ریاستی حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ یہی بتلاتاہے کہ شاذونادر ہی مسائل کو لے کر انہوں نے عوام کی آواز اور احتجاج پر کان دھرا ۔ اربابِ اقتدار نے ہمیشہ تجاہل عارفانہ کی مستقل روش اختیار کر کے عوام سے بے اعتنائی اور لاتعلقی بر ت لی ۔ افسوس یہ کہ یہی لوگ الیکشن کے وقت عوام کو سنہرے سپنے دکھا تے ہیں کہ کشمیر کو جنت بنا لیں گے مگر سوال یہ ہے کہ جس’’جنت‘‘ میںآوارہ کتوں کو انسانوں پر فوقیت ملتی ہو ، قابل ستائس چھوڑیئے کیاوہ قابل رہائش ہوسکتی ہے؟ یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے کہ گزشتہ وددہائیوں سے مسلسل شہر ودیہات میں آوارہ کتوں کی آبادی بلاروک ٹوک بڑھتی رہی ہے مگر حکام کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس مسئلے کا کوئی حل نکالنے میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ آئے روز آوارہ کتے شہر ودیہات میں لوگوں کو کاٹ کھاکر واضح کر دیتے ہیں کہ کشمیر میں سگ باش انسان مباش کا اصول چل رہاہے۔ سگ گزیدگی کے یہ صدمہ خیز واقعات اگرچہ بلا ناغہ اخباری سرخیوں کی جگہ بھی لیتے رہے ہیں مگر متعلقین ا س صورت حال کا موثرا زالہ کر نے کے لئے ذرا بھی جنبش کر نے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ بازاری کتوں کے سلگتے مسئلہ پر آج تک خامہ فرسائیاں کرنے میں کاغذ کے انبارا ور سیاہی کے سمندر صرف ہوئے مگر اس کے باوصف یہ گھمبیر عوامی مسئلہ آج بھی جوں کا توںقائم ہے بلکہ لمحہ بہ لمحہ گھمبیرتا اختیار کر تا جارہاہے۔ بایں ہمہ اس اہم مسئلے کو قلم انداز کر نا یا اس پر خاموشی اختیار کر نا عوام کے ساتھ ایک صریح ظلم ہوگا ۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ میونسپل حکام اس معاملے کی اَن دیکھی کر تے آرہے ہیں؟ کیا کوئی مفاد خصو ص اس تعلق سے سر گرم عمل ہے ؟ کیا حکام کو عدم جوابدہی کا ناقابل علاج روگ آوارہ کتوں کے مسئلے سے نپٹنے میں مانع بنا چلا آرہا ہے ؟ یہ سوالات عام آدمی کے لئے گتھیاں بھی ہیں اور لا ینحل معمے بھی ۔ اس با رے میں میونسپل حکام کی گراں گوشی سے یہی اخذ کیا جاسکتاہے کہ شاید ان کی نگاہ میں عوامی مفاد ، رائے عامہ اورعوامی شکایات کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے ، حالا نکہ آوارہ کتے برس ہابرس سے بشمول معصوم بچوں کے پیر وجوان پر حملہ بول کر بقول کسے لوگوں کو پیغام دیتے ہیں تم ہمارے رحم وکرم پر جی رہے ہو، یہ ہماری مر ضی ہے کہ کب تمہیں تگنی کا ناچ نچائیں ، کب کا ٹیں ، کب بھونکتے پھرکر تمہاری نیندیں حرام کریں ۔ سگ گزیدگی کے قیامت خیز واقعات کی تکرار سے والدین اپنے ننھے منے بچو ں کے بارے میں ہمیشہ فکر وتشویش میں مبتلا رہتے ہیں کہیں سکول آ تے جاتے ہوئے اس کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہی بات معمر افراد پر بھی صادق آتی ہے ۔اس بیچ میونسپل حکام کا یہ دعویٰ کہ آوارہ کتوں کی آبادی کم ہورہی ہے ،بادی النظر میں اس کی اپنی عدم کارکر دگی چھپانے کی ناکام کوشش ہے ، کیوں کہ حقیقت اس دعوے کے بالکل برعکس ہے۔ بہر صورت میونسپل حکام بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ، وہ اس گھر گھر کہانی سے غافل ہوسکتے ہیں نہ ناواقف۔ان سے آوارہ کتوں کے مسئلے کا سدباب کر نے کے بارے میں عدم دلچسپی کی وضاحت طلب کیجئے تو وہ کبھی قانونی موشگافیوں کا باب کھولیں گے اور کبھی زبا نی جمع خرچ سے کام چلا کر اپنی پنڈ چھڑا ئیں گے۔ انسا نی فلا ح کے بلند بانگ دعوے رکھنے والی رضا کا ر تنظیمیں اور سول سوسائٹی کی اس موضوع پرمجر مانہ خا مو شی بھی کچھ کم اذیت نا ک نہیں۔ بنابریں ایسا محسوس ہوتاہے کہ غالباً وادیٔ کشمیرمیںشاید کتوں کو صوابدیدی اختیار دیا گیاہے کہ وہ جس کسی راہگیرکو چاہیں سر راہ کا ٹ کھائیں ، گلی کو چوں میں بچوں اور بزرگوں کی آزادانہ چلت پھرت روکیں ‘ گھر کے آنگن میں گھس کرمکینوں کو تنگ کریں ،جو چاہیں کریں کوئی ان کا بال بیکا نہ کرے گا۔ شہر خاص سری نگر میںکئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ذبح خانے واقع ہیںجن کے گردونواح میں ایک بڑی تعداد میں شیر نما آوارہ کتوں کی موجودگی سے یہ علاقے عام لوگوں کے لئے نو مینز لینڈ بنے ہیں۔ خاص کر اندھیرے میں ان علاقوں میں کسی انسان کاگھر سے باہر قدم رکھنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ پولٹری فروش بھی کتوں کی افزائش نسل کے سبب و محرک بنے ہوئے ہیں۔ حا لت بہ ایں جا رسیدکہ جن لو گو ں کوکتے کاٹ کھا تے ہیں ، بسا اوقات ایسے کم نصیب مریضوں کا رش بڑھ جا نے سے طبی مراکز بھی ان کا بروقت دوا دارو کرنے سے بھی قا صر رہتے ہیں۔ بہر صورت چونکہ میونسپل حکام ہی ا س عوامی مسئلے کا ترجیحی بنیادوںپر تیر بہدف حل نکالنے کے مکلف ہیں،اس لئے انہیںعلی الخصوص ذبح خانے والوں اورپولٹری ٹریڈ سے وابستہ دوکانداروں کوقانون کی خوارک پلانی چاہیے۔ جو مرغ فروش کام دھندا کرتے وقت مرغوں کی انتڑیاں،ٹانگیں،سروغیرہ کتوں کی نذر کر کے بستی بستی ان کی آبادی بڑھانے کے موجب بن رہے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے ۔مزیدبرآں آوارہ کتوں کی نامعقول طر ف داری میں تحفظ حیوانات کے لئے سرگرم بعض عناصر کی اس منطق سے انکار نہیںکہ جانوروں کو اُسی طرح زندہ رہنے کا حق حاصل ہے جیسے اشرف المخلوقات انسان کو روئے زمین پر گزر بسرکرنے کا حق حاصل ہے اور یہ کہ کائنات میںہر مخلو ق کی موجودگی کی اپنی ایک ٹھوس مقصد یت ہے۔ بلا شبہ کوئی چیز یہاں عبث نہیں بنائی گئی ہے، البتہ کائنات کی تمام مخلوقات کا مقصد کسی نہ کسی طرح انسانی زندگی کو آسا ن تر بناناہے۔ قانون قدرت کا سرسری جا ئزہ لیجئے تو خو د بخود یہ بات آشکارا ہو جا تی ہے کہ کا ئنا ت میں انسان کی راحت و آسائش ہر دو سری چیز پر مقدم ہے۔ جب امر واقع یہ ہے تو ظا ہر ہے جہاں کہیں انسا ن اور دیگر مخلوقات کے ما بین ترجیح کا ترازو کھڑا ہوجا ئے تو لا محالہ انسان کی طرف کا پلڑا ہی بھاری رہے گا۔ انسان کے مفاد کونظر انداز کرکے حیوانوں کی وکا لت کا پلڑا بھاری ہونا قابل قبول دلیل نہیں ،وہ بھی اس مغا لطے کے ساتھ کہ یہ طرز عمل انسانیت،رحمدلی اور انصا ف کا مظہر ہے۔نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ المختصراس سے قبل کہ ہمیں آوارہ کتوں کے سلگتے موضوع پر یہی رونا آگے بھی رونا پڑے ، نیز آوارہ کتوں کی وحشت وبربریت کا منہ دیکھ کر مز ید بچوں، مستورات اور بزرگوں ان کا شکاربننا پڑے، قرین عقل یہی ہے کہ گورنر انتظامیہ میو نسپل حکام کو بھی فی الفور اپنی روایتی جمود پسندی اور غفلت شعاری کو خیر باد کہہ کر اس مسئلے کے نپٹارے کیلئے کلیدی ذمہ داری نبھانے کا مکلف ٹھہرائے اورکو ئی ایسی انسان دوست قانونی راہ اور بااثر حکمت عملی وضع کر وا ئے کہ سانپ بھی مرے اور لا ٹھی بھی نہ ٹوٹے۔