وادی کے اندر کتوں کی تعداد میں جس طوفانی رفتار کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ دس برسوں کے اندر عوام کو کس بدترین صورتحال کا سامنا ہوگا، الا یہ کہ ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کرنے کےلئے کوئی ہنگامی اور مؤثر اقدام کیا جائے۔ لیکن فوری طور پر ایسی کوئی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ وادی کے مرکز سرینگرکی میونسپل کارپویشن نے کتوں کی نسبندی کرانے کا ایک جدید ترین مرکز قائم کرنے کا منصوبہ مرتب کیا تھا، لیکن تا ایں دم یہ صرف کاغذات تک ہی محدود ہے اور عملی سطح پہ اس پر کوئی کام نہیں ہوسکا ہے۔ فی الوقت ایسا ایک مرکز، جو شوہامہ میں چل رہا ہے، محدود انتظامات کے سبب مؤثر ثابت نہیں ہورہا ہے، کیونکہ یہاں پر روزانہ دو درجن کے قریب کتوں کی نسبندی کی سہولیات میسر ہیں۔ بھلا ایسے حالات میں جہاں آوارہ کتوں کی تعداد لاکھوں میں ہو، یہ برائے نام بندوبست اس گھمبیر مسئلے کو کیسے حل کرسکتا ہے؟ یہ تو ریاست کے دارالحکومت سرینگر کا حال ہے، قصبہ جات اور دیہات کا ایسے حالات میں خدا ہی حافظ ہیں اور عملی طور پر راہگیر ان آور گان کے رحم و کرم پر ہیں ۔وادی میں لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے تشدد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے ، لیکن روزانہ بنیادوں پرپیش آنے والے ان واقعات کے تئیں بلدیاتی حکام کی خاموشی انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور دلسوز ہے ۔روزانہ کہیں نہ کہیں سے کتوں کے حملوں میں راہگیروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہونا ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔ صورتحال مظہر ہے کہ اس مصیبت پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔جس سے یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ ہسپتالوں میں رجسٹر کئے جانے والے کتوں کے کاٹنے کے کیسوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہوسکتا ۔وادی کی بستیوں اور قصبہ جات میں جہاں سے بھی گذر ہوتاہے وہاں گند و غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے بڑے بڑے ڈھیر نظر آتے ہیں ، جس کی وجہ سے کتوں کی تعداد میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ غول درغول آوارہ کتّے لوگوں کے لئے سدراہ بنتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں راہ گیران کے حملوں کا شکار ہوکر اسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں اور کئی ایک تو موت کی کگار پر پہنچ جاتے ہیں۔آوارہ کتّے عادتاً چھوٹے بچوں پر چڑھ دورتے ہیں اور بچے بھی گھبراہٹ کے عالم میں جدھر کو راستہ ملے خود کو بچانے کے لئے اْدھر کی طرف بھاگنے میں عافیت سمجھتے ہیں اور یہ صورتحال بعض اوقات انتہائی رنجدہ سانحات کو جنم دیتی ہے۔آئے روز میڈیا کے توسط سے شہر اور قصبہ جات میں آوارہ کتوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انتظامیہ نے ان سانحات کے محرکات کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے۔ آج شہر سرینگر میں آوارہ کتّوں کی تعداد کے بارے میں ثقہ اعداد وشمار دستیاب نہیں لیکن ظاہری طور پر جو تناسب دکھائی دے رہا ہے وہ کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ کتوں کی تعداد میں اس پیمانے پر اضافہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برسہا برس سے لوکل باڈیز اداروں نے کتّوں کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ہے۔پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک قانون بنایا ہے ، جس کی رو سے آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد کردی گئی ہے ،لیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی ہدایات موجود ہیں ،مگرریاست کے اندر انتظامیہ نے جہاں ایک جانب بستیوں کے اندر غول در غورل گھوم رہی اس موذی مخلوق کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ،وہیں دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود نس بندی کا کوئی منظم پروگرام عمل میں نہیں لایا ،یہ الگ بات ہے کہ جب کہیں پہ کتوں کے کاٹے کی شکایات بار بار سامنے آتی ہیں تو یہ اقدام کیا جاتا ہے ۔ لیکن بہ ایں ہمہ صورتحال دن بہ دن بے قابو ہورہی ہے۔ فی الوقت یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست میں آوارہ کتّے ایک عوامی مصیبت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اگرچہ میونسپل قوانین کے مطابق انتظامیہ کو ایسے کتّوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ، جو سماج کے لئے مصیبت کا درجہ اختیار کریں ، لیکن عملاً ایسا نہیں کیا جارہاہے۔ خاص کر باؤلے کتوں کے حملوں کے سدباب کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔سرکار کے تمام تر تحفظات کے باوجود موجودہ صورتحال عوام کے لئے قطعی قابل قبول نہیں ہوسکتی، لہٰذا انتظامیہ کو کوئی متبادل راستہ اختیارکرکے فوری طور پر موجودہ صورتحال کا ازالہ کرنا چاہئے۔