یہ ایک انتہائی افسوس ناک حقیقت ہے کہ شہر ودیہات میں آوارہ کتوں کی آبادی بلاروک ٹوک بڑھنے کے باوجود میونسپل حکام ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ اس مسئلے کا حل نکالنے میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ آئے روز آوارہ کتے شہر یوں کو نوچ کھاکر واضح کرتے ہیں کہ کشمیر میں شاید سگ باش انسان مباش کا اصول اپنایا جارہاہے۔ سگ گزیدگی کا ہر واقعہ یک کالمی اخباری خبر کی جگہ ضرو رلیتا ہے مگر ایسے واقعات کا موثرا نسداد ہو اس کے لئے اصلاحِ احوال کا کو ئی قدم نہیں اٹھایا جاتا ۔ باوجود یکہ بازاری کتوں کے مسئلہ پر آج تک اتنی خامہ فرسائیاں کرنے اور کاغذ کے انبارا ور سیاہی کے سمندر اس موضوع کو اجاگر کر نے کے باوصف یہ گھمبیر عوامی مسئلہ آج بھی جوں کا توںقائم ہے۔ کچھ بھی ہو عوامی اہمیت کے اس اہم مسئلے کو قلم انداز کر نا یا اس پر خاموشی اختیار کر نا بھی ایک صریحی ظلم ہے۔ زیر بحث مسئلے کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عوام آوارہ کتوں کے حل طلب مسئلے کے تعلق سے متواتر چیخ وپکار کر رہے ہیں لیکن میونسپل حکام ہیں کہ برسوں سے متواتر ان کی اَن سنی کر رہے ہیں۔ایساکیوں ہورہاہے؟ کیا کوئی مفاد خصو ص ا س تعلق سے سر گرم عمل ہے یا حکام کو عدم جوابدہی کا ناقابل علاج روگ لگا ہوا ہے ؟ چونکہ اس سوال کا جواب دینا یا پانا مشکل ہے ،اس لئے عام آدمی کے لئے یہ معاملہ ایک گھتی بھی ہے اور ایک لا ینحل معمہ بھی ۔ بایں ہمہ اس با رے میں میونسپل حکام کی گراں گوشی سے یہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ شاید ان کی نگاہ میں عوامی مفاد ، رائے عامہ اورعوامی شکایات کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پچھلے کئی برس سے ہزار ہا دفعہ آوارہ کتوں نے معصوم بچوں کو بالخصوص اور ہر عمر اور جنس کے لو گوں کو بالعموم کاٹ کھاکر بزبان حال بتا دیا کشمیر میں رہ رہے لوگو! تم ہمارے رحم وکرم پر جی رہے ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ روز کسی نہ کسی بستی میں کوئی کم سن بچہ یامعمر بزرگ آوارہ کتوں کا شکار ہو کر اپنے زخم زخم وجود سے شہر ناپرساں کے درد و کرب کا نوحہ سناتا ہے ۔ حق با ت یہ ہے کہ ا س نوع کے منحو س سانحوں اور قیامت خیز واقعات کی تکرار سے والدین خاص کر اپنے ننھے منے بچو ں کے بارے میں ہمیشہ فکر وتشویش میں مبتلا رہتے ہیں کہیں سکول کے لئے آمدورفت کر تے ہوئے گلی کے آوارہ کتے ان پر جھپٹ نہ پڑیں ۔ خیر میونسپل حکام بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ، وہ نہ اس گھر گھر کہانی سے غافل ہوسکتے ہیں نہ ناواقف۔ان سے اس اہم مسئلہ کے بارے میں اپنی عدم دلچسپی کی وضاحت طلب کیجئے تو وہ کبھی قانونی موشگافیوں کا باب کھولیں گے اور کبھی زبا نی جمع خرچ سے کام چلا کر اپنی پنڈ چھڑا ئیں گے۔ ستم ظریفی یہ کہ انسا نی فلا ح کے بلند بانگ دعوے رکھنے والی رضا کا ر تنظیمیں اور سول سوسائٹی کی مجرمانہ خا مو شی بھی اس حوالے سے کچھ کم اذیت نا ک نہیں۔ بنابریں ایسا محسوس ہوتاہے کہ غالباً وادیٔ کشمیرمیںشاید کتوں کو صوابدیدی اختیار دیا گیاہے کہ وہ جس کسی راہگیرکو چاہیں سر راہ کا ٹ کھائیں ، گلی کو چوں میں بچوں اور بزرگوں کی آزادانہ چلت پھر ت روکیں ‘ گھر کے آنگن میں گھس کرمکینوں کو تگنی کا نا چ نچائیں، جو چاہیں کریں کوئی ان کا بال بیکا نہ کر ے گا۔یہی وجہ ہے کہ اطراف وجوانب سے شکایتیں موصول ہورہی ہیں کہ آوارہ کتوںنے لوگو ں کا جینا ہر دو بھر کر کے رکھ دیا ہے اور شہر سمیت مختلف دیہات میں عوام کے کس بل نہ نکال رہے ہیں۔ حکو متی اکا بر ین اورانتظا میہ کے تمام کل پر زوں کو یہ حقیقت حال جان کر انجا ن نہیں بنناچاہیے کہ ایک سرسری اندازے کے مطابق سوا لاکھ سے متجاوز آ وار ہ کتو ںکے درمیان لو گو ں کو کس کس طرح سے ذہنی کوفت کاسامنا پڑ رہاہے۔ انہیںاپنا بہرا پن چھوڑ کر سننا چاہیے کہ وادی کے اطراف و اکناف میں لو گ مسلسل چیخ وپکار کر رہے ہیںکہ آوارہ کتے اُن کے لئے سو ہا نِ رو ح بنے ہوئے ہیں۔ شہر خاص سری نگر میںکئی علاقے ایسے بھی ہیں کہ جہاں ذبح خانے وقع ہیں ۔اس کے سبب ذبح خانوں کے گردونواح میں ایک بڑی تعداد میں شیر نما آوارہ کتوں کی موجودگی سے ان علاقوں کے لوگوں میں اتناخوف و دہشت بیٹھا ہوا ہے کہ اندھیرے میں ان کاگھر سے باہر قدم رکھنا اپنی مو ت کو دعوت دینے کے برابر لگتا ہے ۔ حا لت بہ ایں جا رسیدکہ جن لو گو ں کوکتے کاٹ کھاتے ہیں ، بسا اوقات ایسے کم نصیب مریضوں کا رش بڑھ جا نے سے طبی مراکز بھی ان کا بروقت دوا دارو کرنے سے بھی قا صر رہتے ہیں۔ میونسپل حکام ہی ا س مسئلے کا ترجیحی بنیادوںپر تیر بہدف حل نکالنے کے مکلف ہیں۔ انہیںعلی الخصوص پولٹری ٹریڈ سے وابستہ دوکانداروں کوقانون کی خوارک پلانی چاہیے جو مرغ فروشی کر تے وقت انتڑیاں ،ٹانگیں وغیرہ کتوں کی نذر کر کے بستی بستی ان کی آبادی بڑھانے کے موجب بنتے ہیں ۔مزیدبرآں آوارہ کتوں کی نامعقول طر ف داری میں تحفظ حیوانات کے لئے بر سر پیکار بعض عناصر کی اس منطق سے انکار نہیںکہ جانوروں کو اُسی طرح زندہ رہنے کا حق حاصل ہے جیسے اشرف المخلوقات انسان کو روئے زمین پر گزر بسرکرنے کا حق حاصل ہے اور یہ کہ کائنات میںہر مخلو ق کی موجودگی کی اپنی ایک ٹھوس مقصد یت ہے۔ بلا شبہ کوئی چیز یہاں عبث نہیں بنائی گئی ہے، البتہ کائنات کی تمام مخلوقات کا مقصد کسی نہ کسی طرح انسانی زندگی کو آسا ن بناناہے۔ قانون قدرت کا سرسری جا ئزہ لیجئے تو خو د بخود یہ بات آشکارا ہو جا تی ہے کہ کا ئنا ت میں انسان کی راحت و آسائش ہر دو سری چیز پر مقدم ہے۔ جب امر واقع یہ ہے تو ظا ہر ہے جہاں کہیں انسا ن اور دیگر مخلوقات کے ما بین ترجیح کا ترازو کھڑا ہوجا ئے تو لا محالہ انسان کی طرف کا پلڑا ہی بھاری رہے گا۔ انسان کے مفاد کونظر انداز کرکے حیوانوں کی وکا لت کا پلڑا بھاری ہونا قابل قبول دلیل نہیں ،وہ بھی اس مغا لطے کے ساتھ کہ یہ طرز عمل انسانیت،رحمدلی اور انصا ف کا مظہر ہے۔نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ المختصراس سے قبل کہ ہمیں آوارہ کتوں کے سلگتے موضوع پر یہی رونا آگے بھی رونا پڑے ، نیز آوارہ کتوں کی وحشت وبربریت کا منہ دیکھ کر مز ید بچوں، مستوارت اور بزرگوں ان کا شکاربنتے دیکھنا پڑے، بہتر یہی ہے کہ میو نسپل حکام فی الفور اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کر نے کے ضمن میں آ ج تک اپنائی جا رہی جمود پسندی اور غفلت شعاری کو خیر باد کہہ کر کو ئی ایسی انسان دوست قانونی راہ اور بااثر حکمت عملی وضع کریں کہ سانپ بھی مرے اور لا ٹھی بھی نہ ٹو ٹے۔