گزشتہ چند روز سے حکومتی سطح پر مسلسل دعوے کئے جارہے ہیں کہ تدریسی عمل کا بلاخلل تسلسل یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں او ر اس ضمن میں سرکاری ٹیلی ویژن ’دوردرشن‘کے مقامی سٹیشن کی خدمات مستعار لینے کے علاوہ آن لائن کلاسز کا ذکر زور و شو ر کے ساتھ کیاجار ہا ہے۔اس بات سے ہرگز مفر نہیں کہ دور درشن کیندرا سرینگر اور جموںسے سکولی تعلیم کی سطح پر تدریسی کلاسز کی نشریات چل رہی ہیں اور کسی حد تک اس سے طالب علم مستفید بھی ہورہے ہیں تاہم جہاں تک آن لائن کلاسز کا تعلق ہے تویہ محض خانہ پری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔جہاں تک تدریسی عمل کا تعلق ہے تویہ دوطرفہ ٹریفک ہوتا ہے اور اس میں متعلم اور معلم کی شرکت انتہائی لازمی ہے۔ کسی بھی جماعت کے طالب علم کی اُس وقت تک تشفی نہیں ہوسکتی ہے جب تک نہ استاد کی جانب سے دئے جارہے لیکچر کے دوران اُس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دئے جائیںلیکن یہاں اس کے بالکل الٹ ہورہا ہے۔جہاں تک ٹیلی کلاسزکا تعلق ہے توان کلاسز میں بھی موجودہ تدریسی عمل یکطرفہ ہے ۔پہلے سے ریکارڈ کئے گئے لیکچر بنا کسی رکاوٹ کے چلائے جاتے ہیں اور جب کلاس کا وقت ختم ہوتا ہے اور استاد اپنا موضوع مکمل کرلیتا ہے توپروگرام ختم ہوجاتا ہے ۔اس عمل میں بھی استاد اور شاگرد کے درمیان کوئی کلام نہیں ہوتا ہے ۔یہ ایک طرح سے لکھے من اور پڑھے خدا والا معاملہ ہوتا ہے جہاں لیکچردینے والا کسی مخصوص موضوع پراپنی تیاری کے مطابق آدھے یا ایک گھنٹہ کی تقریر کرکے چلا جاتا ہے اور افہام و تفہیم اور گفت و شنید کا کوئی نظم نہیں ہوتا ہے ۔اب جہاں تک آن لائن کلاسز کا تعلق ہے توان کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے ۔زوم اپلی کیشن کے ذریعے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے جو آن لائن کلاسز چلا ئی جارہی ہیں،وہ محض طلباء کو مصروف رکھنے کا ایک ذریعہ ہیں اوران سے نصاب کی تکمیل کی سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوپارہی ہے ۔اول تو مرکزی وزارت داخلہ نے زوم اپلی کیشن کو غیر محفوظ قرار دیا اور سرکاری سطح پر اس کے استعمال کی ممانعت کی لیکن اس کے باوجود ہمارے سرکاری سکول اس اپلی کیشن کو استعمال کررہے ہیں ۔دوم ،اب اگر اس اپلی کیشن کے ذریعے آن لائن کلاسز چلائی بھی جارہی ہیں تو وہ بھی ٹیلی کلاسز کی طرح ہی محض ایک نمائشی تماشہ ہی ہوتے ہیں۔زوم کلاسز میں متعلقہ اساتذہ صاحبان ٹائم ٹیبل کے حساب سے جب کلاسز شروع کرتے ہیں توپہلی ہدایت بچوں کو یہ دی جاتی ہے کہ وہ ویڈیو اور آڈیو لنک بند رکھیں۔پھر موبائل کے سیاہ سکرین پر پس منظر میں کسی استاد کی آواز چلتی ہے اور وہ مسلسل آدھے سے پونے گھنٹہ تک بولتے ہی چلاجاتا ہے اور جب اس استاد کو لگتا ہے کہ اُسکی کلاس کا وقت ختم ہونے والا ہے تو وہ زوم اپلی کیشن کی اس آن لائن میٹنگ سے سائن آئوٹ کرکے میٹنگ ہی ختم کردیتا ہے ۔اس عمل میں پہلے بچوں کو اپنے استاد کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا ہے اور دوم بچوں کو اپنے فون کا مائک بند رکھنا پڑتا ہے اور یکطرفہ طور استاد کی سننا پڑتی ہے اور اس لیکچر کے دوران ان کے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کا کوئی جواب دینے والا دستیاب نہیں ہوتا ہے ۔اب اگر غلطی سے کوئی استاد ویڈیو لنک چالو کرنے کی اجازت دے توپھر لائیو کلاس میں خلل پڑجاتا ہے اور ویڈیو نہ صرف رک رک کر چلتا ہے بلکہ عکس پھٹ جاتا ہے اور آواز بھی کٹ جاتی ہے ۔حقیقی معنوںمیں دیکھا جائے تو یہ تدریسی عمل کے نام پر کسی مذاق سے کم نہیںہے ۔ارباب بست و کشاد کو معلوم ہونا چاہئے کہ آن لائن کلاسز کیلئے برق رفتار انٹرنیٹ سہولیات لازمی ہیں اور جب انٹرنیٹ کی رفتار صحیح ہو ،جبھی یہ کلاسز مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔سکول انتظامیہ کی اس میں یہ غلطی ہے کہ وہ سب کچھ جان کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں اور اس بے تکے نظام کے تحت عملی طور طلباء کی توانائی غلط سمت میں خرچ کررہے ہیں۔دنیا اور باقی ملک میں آن لائن کلاسز چلتی ہیں لیکن وہ باہمی تبادلہ خیال سے بھرپور ہوتی ہیںجہاں استاد اور شاگردوں کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے۔ لیکن یہاں کا باواآدم ہی نرالا ہے ۔یہاں آن لائن کلاسز کے نام پر آدھا یا ایک گھنٹہ کی وعظ خوانی کو تدریس کا نام دیاجارہا ہے جوقرین انصاف نہیں ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ لاک ڈاون کی وجہ سے تدریسی عمل کی فوری بحالی ممکن نہیںہے اور آن لائن کلاسز سے ہی فی الوقت کام چلانا پڑے گاتاہم ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اس عمل کو مذاق بنانے سے گریز کریں اور اس کی سنجیدگی کا ادراک کریں۔یہ قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے اور اس کو یونہی نہیں لیاجاسکتا ہے۔ اگر آن لائن کلاسز ہی چلانی ہیں ،جو موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے چلانے بھی ہیں تو انٹرنیٹ کی بیماری کا پہلے علاج کیا جائے۔انٹرنیٹ کی رفتار فور جی تک لیجا ئی جائے ،پھر جاکر آن لائن کلاسز کی اثر پذیری پر بھاشن دیا جائے۔اُس وقت تک حکام دعوے کھوکھلے ہی رہیں گے اور کاغذی گھوڑے بے اثر ہی ثابت ہوتے رہیںگے۔