ڈاکٹر محمد عظیم الدین
بھارت میں ڈیجیٹل دور کی آمد نے جہاں بے شمار تبدیلیاں لائی ہیں، وہیں آن لائن سٹہ بازی اور فینٹسی گیمنگ کا بے تحاشا فروغ ایک سنگین بحران بن کر ابھرا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے تحت انٹرنیٹ اور سستے سمارٹ فونز کی وسیع رسائی نے ان پلیٹ فارمز کو گھر گھر تک پہنچا دیا جبکہ مشہور شخصیات کی توثیق اور فوری دولت کے وعدوں نے نوجوانوں کو اس لت کی طرف راغب کیا۔ معاشی عدم استحکام اور بے روزگاری نے اس رجحان کو مزید ہوا دی، کیونکہ بہت سے نوجوان فوری آمدنی کے لئے ان پلیٹ فارمز کی طرف مائل ہوئے۔ یہ رجحان اب ایک سماجی و نفسیاتی طوفان بن چکا ہے جو خاندانوں میں تناؤ، معاشی نقصان اور ذہنی صحت کے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ کچھ ریاستیں اسے جوا مانتی ہیں اور کچھ اسے ’’ہنر کا کھیل ‘‘قرار دیتی ہیں۔جبکہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین، آگاہی مہمات اور متبادل مواقع کی اشدضرورت ہے۔ڈیجیٹل سٹہ بازی کی اس برق رفتاری کے پیچھے اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی وسیع دستیابی کا ہاتھ ہے۔ یو پی آئی (UPI) جیسے ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام نے سٹہ بازی کے پلیٹ فارمز تک رسائی کو حیرت انگیز طور پر آسان بنا دیا ہے۔یہ سہولت بالخصوص نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، جو تیز رفتار ڈیجیٹل کلچر اور فوری انعام کی چمک دمک
کے زیر اثر ہیں۔ اس رجحان کو مزید تقویت سوشل میڈیا اور جارحانہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے ملتی ہے۔ جب مشہور شخصیات اور انفلوئنسرز کی جانب سے سٹہ بازی ایپس کی تشہیر کی جاتی ہے تو نوجوان ان کی پیروی کرتے ہوئے اس دلدل میں اتر جاتے ہیں۔ اس بحران کا سب سے زیادہ خمیازہ نوجوان بھگت رہے ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار ہوشربا ہیں: بھارت میں تقریباً 14 کروڑ افراد باقاعدگی سے آن لائن سٹہ بازی میں ملوث ہیں اور آئی پی ایل جیسے بڑے کھیلوں کے ایونٹس کے دوران یہ تعداد 37 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ فینٹسی گیمنگ جسے بظاہر ایک مہارت کا کھیل سمجھا جاتا ہے، بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے جس کے 18 کروڑ سے زائد صارفین اور 300 سے زیادہ پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ کرکٹ اس صنعت کی آمدنی کا 85 فیصد فراہم کرتا ہے جو اس کے پھیلاؤ کا اہم اشارہ ہے۔ جنوبی بھارت میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، 19.5 فیصد کالج طلبا سٹہ بازی میں ملوث ہیں، جن میں سے 7.4 فیصد میں لت کی واضح علامات دیکھی گئی ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ سٹہ بازی کی لت نوجوانوں کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، انہیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہی ہے اور ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ کئی طالب علم اپنی پڑھائی چھوڑ کر سٹہ بازی میں وقت صرف کر رہے ہیں اور مالی نقصانات کے باعث شدید ڈپریشن اور اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔
سٹہ بازی کے نقصانات صرف مالی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ نفسیاتی اور سماجی تباہی کا بھی پیش خیمہ بنتے ہیں۔ آن لائن سٹہ بازی کی لت دماغ میں ڈوپامائن کی سطح کو متاثر کرتی ہے، جس سے خوشی اور انعام کا ایک مصنوعی احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان بار بار جوا کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ لت شدید ڈپریشن، اضطراب اور بعض اوقات تو خودکشی کے رجحانات کو بھی جنم دیتی ہے۔ملک میں ایسے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں نوجوانوں نے اپنی جمع پونجی، والدین کی بچت یا بھاری قرض لے کر سٹہ بازی میں لگا دیا اور جب نقصان ہوا تو وہ شدید ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھے۔ آن لائن سٹہ بازی کی وجہ سے مالی تباہی بھی ایک عام حقیقت ہے۔ نوجوان اکثر قرض کی ایپس، ساہوکاروں یا دوستوں سے پیسے ادھار لیتے ہیں، اپنے زیورات یا قیمتی اشیاء بیچ دیتے ہیں، یا والدین کے اکاؤنٹ سے پیسے نکال لیتے ہیں۔ جب قرض واپس کرنے کی سکت نہیں رہتی تو نہ صرف متاثرہ فرد بلکہ پورا خاندان شدید مالی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔قانونی لحاظ سے بھارت میں آن لائن سٹہ بازی ایک پیچیدہ اور مبہم مسئلہ ہے۔ 1867 کے پبلک گیمبلنگ ایکٹ کے تحت روایتی جوا غیر قانونی ہے، لیکن آن لائن سٹہ بازی کے لیے کوئی واضح قومی قانون موجود نہیں۔ اسی وجہ سے مختلف ریاستوں نے اپنے اپنے قوانین بنائے ہیں۔ تلنگانہ نے 2017 میں آن لائن سٹہ بازی پر مکمل پابندی عائد کر دی، جبکہ سکم اور ناگالینڈ نے کچھ شرائط کے ساتھ اسے ریگولیٹ کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے 2023 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز میں ترمیم کر کے آن لائن گیمنگ پلیٹ فارمز پر 28 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا، مگر زیادہ تر غیر قانونی پلیٹ فارمز اس سے بچ نکلتے ہیں۔ حکومت نے 2022 سے 2024 کے دوران 1,298 غیر قانونی سٹہ بازی ایپس اور ویب سائٹس کو بلاک کیا، لیکن نئے پلیٹ فارمز مسلسل وجود میں آ رہے ہیں۔
آن لائن سٹہ بازی کے نفسیاتی اثرات انتہائی سنگین اور دور رس ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق سٹہ بازی کی لت نہ صرف ڈپریشن، اضطراب اور معاشرتی تنہائی کو جنم دیتی ہے بلکہ خودکشی کے رجحانات کو بھی بڑھاتی ہے۔ نوجوانوں میں فیصلہ سازی کی صلاحیت مکمل طور پر پختہ نہیں ہوتی، اسی لئے وہ اس قسم کے بہکاوے کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ کئی نوجوان اپنے مالی نقصانات اور بگڑتی ہوئی مالی حالت کو اپنے خاندان اور دوستوں سے چھپاتے ہیں، جس سے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوتی ہے اور انہیں مزید تنہائی کا احساس ہوتا ہے۔اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر جہتی اور مربوط حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آن لائن سٹہ بازی کے لیے واضح، سخت اور قومی سطح کے قوانین بنائے۔ تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل خواندگی اور آگاہی پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کو اس کے ممکنہ نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ وزارت صحت کے تحت خصوصی ہیلپ لائنز اور کاؤنسلنگ سروسز قائم کی جائیں، جہاں متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو پیشہ ورانہ مدد فراہم کی جا سکے۔ والدین کو اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور ان کے ساتھ کھلی اور ایماندارانہ گفتگو کرنی چاہیے۔ اگرچہ حکومت اور سماجی ادارے اس کے تدارک کے لیے سرگرم ہیں، مگر اس کے لیے ایک جامع، مربوط اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ صرف قانون سازی کافی نہیں بلکہ سماجی شعور بیداری، تعلیمی اصلاحات اور نفسیاتی مدد کو بھی اس حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانا ہو گا۔