رئیس مسرور ۔کپوارہ کشمیر
گزشتہ چند سالوں میں، کشمیر کی خوبصورت وادی جو اپنی بے مثال قدرتی خوبصورتی اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کے لیے جانی جاتی ہے، ایک تشویشناک رجحان کا شکار ہو رہی ہے۔ آن لائن جوا اور بیٹنگ۔ یہ لت تیزی سے پھیل رہی ہےجونوجوان اذہان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور انفرادی، خاندانی اور معاشرتی سطح پر تباہی مچا رہی ہے۔
بڑھتا ہوا خطرہ:
اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے جوئے کے پلیٹ فارمز تک آسان رسائی نے اس خطرے کو تقریباً ہر کسی کے لیے قابلِ حصول بنا دیا ہے، بشمول نوجوانوں اور پیشہ ور افراد کے۔ فوری پیسے کے لالچ اور بیٹنگ کی سنسنی نے بہت سے لوگوں کو خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف مالی تباہی ہوئی ہے بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کا ایک سلسلہ بھی پیدا ہوا ہے۔
مالی نقصانات:
آن لائن جوا خاندانوں کو مالی طور پر کھوکھلا کر رہا ہے۔مثال کے طور پر، 12ویں جماعت کے طالب علم، ساگر (نام تبدیل) نے اپنے والدین کی تین لاکھ روپے کی خون پسینے کی کمائی گنوا دی۔ اس کا خاندان جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار تھا، ایک معمولی گھر بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا، لیکن وہ خواب اب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ ساگر کو اپنی پڑھائی چھوڑ کر اپنے والد کے ساتھ کام کرنا پڑا۔
ایک نوجوان ڈاکٹر، ڈاکٹر راج خان ( نام تبدیل) بھی اس لت کا شکار ہو چکے ہیں اور کئی لاکھ روپے گنوا بیٹھے ہیں۔ اپنے پیشے پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی ایک سنگین مسئلہ ہے، جو نہ صرف ان کے مریضوں بلکہ ان کے کیریئر کو بھی متاثر کر رہا ہے۔اسی طرح شمالی کشمیر کی ایک نرس اور ایک استاد نے مشترکہ طور پر ایک بڑی رقم کھو دی، جس سے ان کی مالی حالت اور پیشہ ورانہ ساکھ خطرے میں پڑ گئی۔
نفسیاتی اور سماجی اثرات:
جوئے کی لت اکثر ڈپریشن، اضطراب اور خود اعتمادی کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ مالی نقصانات سے نمٹنے میں ناکامی نوجوان افراد کو شدید ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بنا سکتی ہے۔ اس سے خاندانی تعلقات پر بھی دباؤ پڑتا ہے جو کبھی کبھار ٹوٹنے کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔مایوسی کی حالت میں کچھ افراد اپنی لت کو پورا کرنے کے لیے چوری، دھوکہ دہی یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف کمیونٹی کی ساکھ خراب ہوتی ہے بلکہ تشدد اور معاشرتی اختلافات میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔
معاشرہ اور والدین کی ذمہ داری:
اس مسئلے کی شدت اجتماعی اقدامات کی متقاضی ہے۔ حکام، تعلیمی ادارے، مذہبی تنظیمیں اور والدین کو اس بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
والدین کو اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور انہیں جوئے کے خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ کھلے مکالمے کے ذریعے جوئے کی لت کی ابتدائی علامات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، اسکولوں، کالجوں اور کوچنگ مراکز کو طلبہ کو جوئے کے مالی اور نفسیاتی نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے مہمات شروع کرنی چاہئیں۔ متاثرہ افراد کی رہنمائی اور مدد کے لیے کونسلرز کا تقرر کیا جانا چاہیے۔مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور مذہبی ادارے بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خطبات اور مباحثے جوئے کے اخلاقی اور سماجی نتائج پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔
اگر مسئلہ حل نہ کیا گیا تو مستقبل تاریک ہوگا:
اگر اس مسئلے کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو کشمیری نوجوانوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اپنی مضبوطی، ذہانت اور صلاحیتوں کے لیے مشہور نوجوان افراد اس لت کی وجہ سے اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔حکام کو فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے آن لائن جوئے کے پلیٹ فارمز کو منظم کرنا چاہیے۔ غیر قانونی جوئے کی سرگرمیوں کے لیے سخت قوانین اور سزائیں اس کے خلاف ایک موثر اقدام ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی متاثرین کی مدد کے لیے ہیلپ لائنز اور بحالی مراکز قائم کیے جانے چاہئیں۔
کشمیر میں آن لائن جوئے کا بڑھتا ہوا رجحان صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے، جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اجتماعی کوششوں، شعور بیداری اور سخت کارروائی کے ذریعے ہم اس خطرے کو کم کر سکتے ہیں اور اپنے نوجوانوں کے لیے ایک روشن مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ عمل کرنے کا وقت اب ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
[email protected]