نئی دہلی// میانمار کی رہنما آنگ سان سوکی نے تقریباً دو ہفتوں سے روہنگیا مسلمانوں پر جاری تشدد کو لے کر اب عوامی طور پر اپنی خاموشی توڑی ہے۔ مسلمانوں پر ہو رہے تشدد پر خاموش رہنے پر سوکی کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے حالیہ بحران کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا ہے کہ حکومت رخائن صوبے میں ہر کسی کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ تاہم سوچی نے تصادم کے متعلق 'بہت زیادہ غلط اطلاعات' پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی سے دہشت گردوں کے مفاد کو فروغ ملے گا۔میانمار کی رہنما ا?نگ سان سوکی نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ فون پر ہوئی بات چیت کے دوران کہا کہ ان کی حکومت روہنگیا کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کر رہی ہے۔ بی بی سی ڈاٹ کام کے مطابق، آنگ سان سوکی نے اردوغان سے کہا کہ ’کئی افراد سے بہت زیادہ بہتر ہم یہ جانتے ہیں کہ انسانی حقوق اور جمہوری تحفظ سے محروم ہونا کیا ہوتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس لیے ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام افراد کے حقوق کا تحفظ ہو جو نہ صرف سیاسی ہو بلکہ سماجی اور انسانی تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔‘ بیان میں یہ بھی کہا گ?ا ہے کہ ’بہت سی غلط خبریں اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جو کہ غلط اطلاعات پر مبنی ہیں تاکہ دہشت گردوں کے مفاد کے لیے مختلف برادریوں کے درمیان مسائل میں اضافہ کیا جائے۔‘خیال رہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں تقریبا سوا لاکھ روہنگیا مسلمان رخائن صوبے سے نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش منتقل ہوئے ہیں۔ روہنگیا اقلیت کو میانمار یعنی برما میں مظالم کا سامنا ہے۔ ان کی اکثریت مسلمان ہے اور ان کا کوئی ملک نہیں ہے۔