گہرے بادلوں نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور دہکتا ہوا سورج اس کے اوٹ میں جاچھپا تھا۔
آپریشن تھیٹر سے جب ڈاکٹر خالد تھکا ماندہ سا باہر نکل آیا تو اس کا چہرہ کچھ اتر ااترا سا لگ رہا تھا۔ ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے راہداری میں موجود نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کی ایک چھوٹی سی بھیڑ نے اسے گھیر لیا۔ وہ گھبرا اٹھا۔
بھیڑ میں موجود لوگوں نے طرح طرح کے سوالات کی ایسی بوچھاڑ کردی کہ اس کیلئے ہر کسی کے سوال کا جواب دینا مشکل ہوگیا حالانکہ وہ انہیں بار بار سمجھا تا رہا اور تسلی دیتا رہا۔
مگر اس کی یقین دہانی کے باوجود بھی لوگوں کا اضطراب کم نہ ہوا اور نہ ہی نعرہ بازی یا غل غپاڑے میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ بالآخر وہ لوگوں کے غول کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا اپنی کیبن میں داخل ہوا۔ اندر آکر اس نے زور سے دروازہ بند کر لیا اور اس کے ساتھ اپنی پشت ٹیک کر بے ترتیب سانسوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر جیسے ہی اسکے سینے کے زیرو بم میں ٹھہرائو سا آگیا تو اس نے اطمینان کی سانس لی۔
چند لمحوں کے بعد اس نے سامنے دیوار پر ٹنگے قد آدم آئینہ میں اپنی شکل و صورت دیکھی تو اسے لگا کہ جیسے وہ زندگی کی جنگ ہار گیا ہے اور اس کی ہر خواہش دم توڑ چکی ہے۔ ابھی وہ کسی اندرونی کرب سے گزر رہا تھا اور اس کا خوف بھی کچھ کم نہیں ہوا تھاکہ درد سے آنکھیں بھر آئیں ۔ اُسے اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگی ۔ ایسی نفرت کہ اپنا چہرہ دوبارہ آئینہ میں دیکھنا گوارہ نہیں ہوا۔ آج اُسے اپنا ہ چہرہ اپنے اصلی روپ میں نظر آگیا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ اس کھڑکی کے پاس اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھاجس پر ہمیشہ ایک پردہ لٹکتا رہتا تھا۔ البتہ ضرورت کے وقت پردہ ہٹا کر اسے آنے جانے والے کا پتہ لگ جاتا تھا۔ اس نے سامنے رکھے پانی بھرے گلاس کو اپنی حلق میں انڈیل دیا۔ بجھے ہوئے دل کے ساتھ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ ’’کیا پتہ تھا۔ جو نہیں ہونا تھا وہی ہوا۔‘‘
یہ سوچ کر اچانک اسے محسوس ہوا جیسے آج اس نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا گلاگھونٹ دیا اور اپنے ہی تابوت کو کاندھا دے کر قبرستان میں دفنایا اور پھر چپ چاپ کھڑا ہوکر اپنی قبر کو دیکھتا رہا۔ اُس سے یہ رقت آمیزمنظر دیکھا نہ گیا ۔ جیسے وہ دہکتے ہوئے انگاروں پر لوٹتا رہا اور جب یہ نظارہ اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تووہ دوبارہ کسی نئی سوچ پڑ گیا اور خود سے بڑ بڑاتا رہا۔ ’’ اب کیا ہوگا… اپنی صفائی دینے کی کوئی دلیل بھی نہیں … اب اس کے آنے میں دیر ہی کیا رہ گئی ہے۔ کسی وقت آدھمکے گی اور پتہ نہیں آگے کیا گل کھلا دے گی۔‘‘
یہ سوچ کر وہ اپنے دل سے اٹھی ہوک کو شدت سے محسوس کرنے لگا ، تھوڑی دیر کے لئے ساکت و جامد ہو کررہ گیا ، ڈرسے اسکی پیشانی پر پسینے کی بے شمار بوندیں پھوٹ پڑیں اور چہرے پر بے چینی کی عجیب سی لہردوڑ گئی۔ ایک خیال ذہن میں بجلی کی مانند کو ندا تھا اور رگ و پے میں اتر گیا تھا اور پھر اُسے پریشان کئے جارہا تھا۔’’ اس کے آنے پر کون سا منہ دکھائوں گا۔‘‘ بس یہی ایک سوال تھا جو سینکڑوں بار اپنی شکل بدل کر اسکے دماغ میں اٹھ رہا تھا اور کھرچ رہا تھا۔
نہ جانے اس کے دل میں وہ کونسا راز پوشیدہ تھا جس کی بنا پر اس کے اعصاب منتشر ہوچکے تھے اور وہ پریشان ہوگیا تھا۔ گوکہ آج اس نے جو آپریشن کیا تھا… وہ بڑے احسن طریقے سے انجام پایا تھا ، مگر جس کی اس نے کبھی امید بھی نہیں کی تھی، وہ سب کچھ ہوگیا۔
آخر آہستہ آہستہ اس کے اعصاب جب بحال ہوئے تو اس کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے تھے اور چہرے پر پسینے کی بوند ین چمک رہی تھیں۔ پھر بھی اس کا جی کررہا تھا کہ نرسنگ ہوم سے بھاگ کر کسی چلتی گاڑی کے نیچے … ’’نہیں چاہئے ایسی زندگی … نہیں چاہئے اتنی دھن دولت اور شہرت … ایسے جینے سے تو اچھا ہے کہ آدمی موت کو گلے لگا کر ساری الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات پالے۔ کیا پتہ تھا کہ یہ دن بھی مجھے دیکھنا پڑے گا۔‘‘
دیر تک بیٹھے بیٹھے نہ جانے کن خیالوں میںگم کیا کیا سوچتا رہا ۔ خوف کے مارے اس کا دم گھٹتا جا رہا تھا۔ حلق خشک ہوگیا تھا اور من ڈولنے لگا تھا۔
سوچتے سوچتے اس کا دماغ گزرے ہوئے چند گھنٹوں کی جانب چلا گیا اور اُسے وہ واقعہ یاد آگیا جب ایک اجنبی عورت اپنی کار میں ایک بارہ سالہ بچے کو زخمی حالت میں اس کے نرسنگ ہوم میں لے آئی تھی ۔ کافی پریشان لگ رہی تھی ۔ بے چارا! جانے کہاں کس سڑک پر فورسز کی جانب سے چلائے گئے پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ چھلنی ہوچکا تھا ۔ جگہ جگہ خون بہہ رہا تھا اور اس کی دونوں آنکھیں متاثر ہوگئی تھیں۔ پیلٹ کے ریزوں نے اس کی حالت انتہائی نازک بنادی تھی۔ بچہ زخموں کی شدت اور تکلیف سے مسلسل رو رہا تھا ۔ روتے روتے درد کی شدت سے اس کی آواز آہوں، سسکیوں اور دھاڑوں میں تبدیلی ہوگئی تھی اور اُس سے بولا نہیں نہیں جارہا تھا۔ صرف آس پاس کھڑے لوگوں کو ملتجی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کا آپریشن کرنا لازمی تھا۔
دفعتاً کیبن کے باہر لوگوں کا شور بلند ہوا تو وہ چونک پڑا ۔ اس نے کھڑکی کی اوٹ سے جھانکا تو وہ بھونچکا سارہ گیا جب اس نے غیرارادی طور پر لوگوں کے درمیان دوبارہ اس اجنبی عورت کو دیکھا جس کے ساتھ اسکی اپنی بیوی ترنمؔ بھی تھی ۔ اس کے ذہن میں خیا لات کے جھکڑ اس تیزی سے گردش کرنے لگے کہ اسے چکر سا آگیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا پھیل گیا اور ساتھ ہی یہ فکر بھی پڑگئی کہ بیوی کے کو اپنا منہ کیسے دکھائے … نہ جانے اب کیا ہوگا؟
ڈاکٹر خالد کوئی معمولی سا عام ڈاکٹر نہ تھا۔ شہر کے معروف ترین ڈاکٹروں میں اسکا شمار ہوتا تھا۔ وہ اپنا ایک ذاتی نرسنگ ہوم چلا رہا تھا ۔ جس میں اسکے علاوہ دوسرے امراض کے ماہر اور ڈاکٹر بھی پریکٹس کرتے تھے اور وہ خود آنکھوں کا مشہور جراح تھا اور اپنے فن میں اچھی مہارت رکھتا تھا۔
وہ شہر کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ والد ایک بڑے تاجر اور اپنے علاقے میں بڑے عزت اور اچھے اثر و رسوخ کے مالک تھے ۔ برسوں پہلے جب وہ اس دنیا سے اٹھ گئے تو اپنے پیچھے لاکھوں کی جائیداد چھوڑدی تھی ، جس میں وہ عالی الشان دو منزلہ بنگلہ بھی شامل تھا جسے بعد میں نرسنگ ہوم میںتبدیل کیا گیا تھا۔
بچن سے غریبوں ، بیوائوں اور محتاجوں کیلئے کچھ کر دکھانے کی چاہ ڈاکٹر خالد کے من میں انگڑائیاں لے رہی تھی اور پھر ایک دن اسکی یہ تمنا پوری ہوتی نظر آئی جب وہ امریکہ سے امراض چشم جراحی کی تربیت حاصل کر کے لوٹ آیا تھا ۔ یہاں آکر اس نے اپنا خواب پورا کرنے کی غرض سے ایک نرسنگ ہوم بنانے کا ارادہ کر لیا۔ اور پھر اسکے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی بھی نہیں تھی۔ ارادہ بڑا نیک اور قابل عمل تھا۔ چونکہ والد کو شہر کے کئی بڑے لوگوں سے اچھے تعلقات تھے اور ان کے ساتھ ملنا جلنا بھی تھا ۔ اس نے ان کے ذاتی اثر و رسوخ کا خوب فائدہ اٹھایا اور پھر سات سمندر پار رہنے کی وجہ سے اسکا سیاسی ، سماجی اور معاشی شعور پختہ ہوچکا تھا اور وہ کافی ہوشیار ہوگیا تھا۔ کچھ لوگوں سے صلاح مشور ے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے بعد وہ اس بنگلہ کو نرسنگ ہوم کے روپ میں کھڑا کرنے میں سرگرم عمل ہوگیا۔
نرسنگ ہوم بننے میں کئی مہینے لگ گئے ۔ اس کے اندرونی حصے کو ہر قسم کے جدید سائنسی آلات سے لیس کردیا اوربیرونی حصے کو بھی نقش و نگار سے مزین کیا گیا تاکہ دور سے دیکھنے والے کادل موہ لے۔ ساتھ ساتھ غریب ،نادار اور مسکین لوگوں کے لئے ایک الگ علاحدہ شعبہ بھی بنوایا، جہاں انہیں مفت طبی امداد اور مفت دوائیاں فراہم کرنے کا انتظام رکھا گیا تھا۔ نرسنگ ہوم جیسے ہی تیار ہوگیاتو اس کی شہرت جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی۔ ضرورت مندوں کی دوڑ دھوپ شروع ہو گئی اور لوگ منہ مانگی فیس دینے کو تیار ہوگئے۔جیسے ہی لوگو ں کا ہجوم بڑھتا گیا تو بینک بیلنس کا گراف بھی بڑھ گیا ۔ اس لئے لوگوں سے منہ مانگی فیس لینے کا آغاز بھی ہوا۔ رفتہ رفتہ اب اس کے دل و دماغ میں خواہشوں نے بھی بال و پر نکالنے شروع کئے اور جب یہ خواہش حدود پار کرگئیں تو اسکی آنکھوں پر طمع و لالچ اور حرص کا غبار چھا گیا۔ وہ اس میں اتنا کھویا کہ ا س کا دل اب اسکے اختیار سے باہر تھا اور پھنس کر کبھی نکل نہ پایا۔
وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا۔خدانے اُسے ایک خوبصورت اور تندرست بیٹا دیا تھا، جسے دیکھ کر وہ جیتا تھا۔ ابھی وہ آٹھویں درجہ میں پڑھ رہا تھا مگر قابلیت کے لحاظ سے نویں درجہ سے کم نہ تھا ۔ اسکے دم سے اسکی دنیا آباد تھی اور وہ ہر حال میں اُسے خوش و خرم دیکھنا چاہتا تھا۔ دن کے اجالے میں کھلی آنکھوں سے وہ خواب دیکھا کرتا اور اس کا مستقبل سجانے اور سنوارنے کی فکر کرنے لگتا ۔ غرض اپنے خوابوں کی تکمیل اور اسے دنیا کا ہر سکھ دینے کی خاطر وہ ڈھیر ساری دولت کمانا چاہتا تھا اور دنیا بھر سے نئی نئی چیزیں منگواکہ اسکی جھولی میں ڈال دینا چاہتا تھا۔
اچانک موبائیل فون کی گھنٹی بج اُٹھی اور اسکے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا اور اسکا موڈ خراب ہوگیا تھا ۔ اس نے بنا دیکھے پرکھے موبائیل آف کردیا۔جب اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تو وہ خیالات کے ٹوٹے بکھرے تاروں کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد موبائیل دو بارہ بج اٹھا اور مسلسل بجتا ہی جارہا تھا۔ اس نے بے دلی سے فون اٹھاکر اس کا بٹن دبایا۔
’’ ہیلو‘‘
’’ کتنی دیر سے فون کر رہی ہوں۔ آپ ٹھیک تو ہیں ۔‘‘ دوسری طرف سے اسکی بیوی ترنمؔ کی آواز تھی، جو بے حد گھبرائی ہوئی لگ ورہی تھی ۔
’’ ہاں ٹھیک ہوں ۔ کہو کیا بات ہے؟‘‘ اس نے ناگواری سے مگر جلد ہی اسکی بیقراری اور اداسی محسوس کرکے ہنس کر کہا۔
’’ منوبیٹا ۔ اب تک گھر نہیں آیا ۔ شاید صبح سے گھنٹہ گھر کے قریب لوگوں اور فورسز کے درمیان تصادم چل رہا ہے۔ حالات کافی خراب معلوم ہو رہے ہیں ۔ ذرا معلوم کر لو بات کیا ہے؟‘‘
’’ کیا تم نے فون لگا کر خود اُسے پوچھا نہیں۔؟‘‘
’’ ایک بار نہیں۔کئی بار پوچھا ۔ پوچھتے پوچھتے اب میں تھک گئی ہوں ۔ مجھے ڈر لگتا ہے ۔ کبھی کہتا ٹیوشن کررہا ہوں اور کبھی کہتا ہے دوست کے گھر میں ٹھہرا ہوں۔ حالات ٹھیک ہوتے ہی آئوں گا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے۔ پلیز ۔ اب تم خود ہی فون لگا کر اُس سے پوچھو کہ معاملہ کیا ہے؟ وہ رونے کے انداز میں فون پر گڑ گڑانے لگی۔
’’ ہاں ۔ ہاں۔ ابھی فون لگا دیتا ہوں ‘‘… وہ اپنی بھاری آواز میں بولا مگر اس میں غصہ اور تردد صاف نظر آرہا ہے۔
’’ سنو جی ! میر ا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔ پلیز کچھ جلدی کرو، نہیں تو اپنی کار لے کر اُسے لے آئو ‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم آبدیدہ ہوگئی۔ اس کی آواز میں مایوسی کے ساتھ ساتھ انجانا خوف بھی تھا۔
’’ تم ناحق پریشان ہوتی ہو۔ وہ ایسا ویسا لڑکانہیں کہ دوسروں لڑکوں کے بہکائے میں آئے اوران کی باتوں پر عمل کرکے سنگ بازی میں حصہ لے گا۔ بڑا ہوشیار بیٹاہے ہمارا۔ ابھی آدھ گھنٹہ پہلے اس سے بات ہوئی تھی۔‘‘
اس نے فون پر اُسے تسلی دی اور اسکی ڈھارس بندھائی ۔مگر تسلی دینے کے باوجود بھی اس کا خوف کچھ کم نہ ہوا اور وہ چند لمحے کے بعد رک کر بولی ۔
کیا آپ کا گھر آنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ کتنی بار کہا کہ ان حالات میں جلدی گھر آیا کرو۔
وہ دیر تک سوچتا رہا ۔ اس کے دل میں آیا کہ اسے کہہ دے ۔ ’’ رہنے دے اپنا بھاشن ۔ مجھے نہیں چاہئیے تمہاری یہ وعظ و پند۔ مگر اس کے منہ سے کوئی بات نکل نہ سکی۔ صرف بد بدا کر رہ گیا۔
’’ اری پگلی! کیسی باتیں کر رہی ہو۔ جب بن مانگے ہُن برسے تو اس شبھ گھڑی کو ہاتھ سے کیسے جانے دوں۔ بھئی! ایک مدت کے بعد شہر میں آگ بھڑک اٹھی ہے اور لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں ۔ یہ تشدد نہ کریں۔ یہ گولیاں نہ چلیں اور یہ پیلٹ گن نہ گرجیں ۔ہمارے نرسنگ ہوم کی رونق میں کیسے اضافہ ہوگا۔ آخر ہم نے اس نرسنگ ہوم پر اتنا سرمایہ لگایا ہے۔‘‘
’’ چھی ۔چھی۔ کیسی باتیں کرتے ہو۔ لعنت ہو ایسی کمائی پر‘جس میں کوئی سکون و آرام نہ ہو۔ ایک آپ ہیں جو ہر چیز کو کاروباری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہیں اس سیلاب میں …‘‘
پھر جیسے ہی دوسری جانب سے اسکی آواز اسکے حلق میں پھنس کر رہ گئی تو اس نے چپ سادھ لی۔
’’ جان من ! اب غصہ تھوک دو۔ میں یہ سب اپنے منو بیٹے کے لئے کررہا ہوں۔ اُسے ڈاکٹر بننے دو ،پھر دیکھنا ۔ سب کچھ بدل جائے گا۔
پھر ایسا ہوا کہ
شہر میں ایک روز فورسز کے ساتھ جھڑپ ایک عسکریت پسند ہلاک ہوا۔ چنگاری ہوا میں اُٹھی، پھر کیا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ سڑکوں پر اتر آئے اور اسکی موت کا ماتم شروع ہوا۔ جلوس نکلنے لگے، فورسز نے روکنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے پتھر اٹھائے، بچے بھی فورسز پر پتھر پھینکنے لگے۔ جواب میں فورسز نے امن و قانون کے لئے پیلٹ گن کے دہانوں سے چھروں کی بوچھاڑ کردی۔ پھر جہاں جسے لگا۔ خون ابل پڑا۔ اس روز اتفاق سے ایک نوجوان عورت کہیں سے نمودار ہو کر گھنٹہ گھر کی سڑک پر نکلی ۔ الٹی سیدھی رفتار میں وہ اپنی کار دوڑائے جارہی تھی۔ اس کا ماتھا ٹھنکا، جب اس نے دور سڑک کے کنارے پل کے قریب ایک بچے کو گرا پڑا دیکھا تو اس کا دل دہل اٹھا اور اسکی چیخ حلق میں اٹک کر رہی گئی ۔ گو یہ جانتی تھی کہ آگے کا راستہ پُر خطرہے، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ گولی یا پتھر۔ دونوں میں سے کسی ایک کا نشانہ بن سکتی ہے ۔ نہ جانے وہ عورت کس مٹی سے بنی تھی ۔ اچانک اسکے دل میں بچے کے تئیں اپنایت اور انسیت کا ایسا جذبہ اُمڈ آیا کہ وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بے اختیار آگے بڑھ کر اس کے قریب پہنچ گئی ۔ اتنے میں کئی نوجوان بھی اسکی مدد کو آچکے تھے ۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا ۔ از راہ ہمدردی اس نے ان کی مدد سے اسے کار میں لاد کر کسی طرح اسپتال پہنچا دیا۔
نرسنگ ہوم زیادہ دور نہ تھا۔ ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر خالد اپنے ماتحت متعدد ڈاکٹروں کے ساتھ ڈیوٹی پر موجود تھا۔ جب اُسے پتہ چلا تو اسکے من میں چو ر گھسا اور خون میں ابلیس دوڑنے لگا۔ پھر جیسے بچے کی ذات میں اس نامعلوم عورت کی بڑھتی دلچسپی دیکھ کر اسکے دل میں ایک گرہ پڑ گئی ۔ اس نے عورت سے بڑی بے باکی کہہ دیا۔
’’ بچے کے زخموں کی مرہم پٹہ ہم کر سکتے ہیں لیکن آنکھوں کے آپریشن کرنے میں …‘‘
ڈاکٹر خالد کی باتوں کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔ متانت بھرے لہجے میں اُسے بولی ۔
آپ تب تک میری یہ چوڑیاں اپنے پاس بطور گرو ی رکھ سکتے ہیں۔ میں ابھی گھر جاکر پوری کی پوری رقم اپنے ساتھ لے کر آتی ہوں ۔
یہ کہتے ہوئے اس عورت نے اپنے دونوں باز وں سے سونے کی چوڑیاں اُتار کر اسکی جانب پھینک دیں اور پیر پٹختی ہوئی نرسنگ ہوم سے باہر آئی۔
پھر جب چر چراہٹ کی بھاری آواز نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا تو وہ چونک پڑا۔اجنبی خاتوں اسکی بیوی ترنمؔ کو لے کر اوپر آگئی تھی۔ جو اپنا دوپٹہ سنبھالے اسکے پیچھے پیچھے آرہی تھی اور اُ سے دیکھتے ہی وہ لپک کر اس کے قریب جاکھڑی ہوئی۔ پھر جیسے ہی کیبن میں ان دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا۔ تو وہ اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا سا گیا ۔ اسکے چہرے پر مایوسی اور شرمندگی کے سائے لہرانے لگے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ شکار اور شکاری کا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔
’’ یہ رہی آپ کی فیس ۔ میں اس بہن کی شکر گذار ہوں جس نے منو بیٹے کے آئی کار ڈپر فون نمبر دیکھ کر ساری حقیقت بتادی ۔یہ کہتے ہوئے اس نے جھٹ اپنے پرس سے سو سو کی دو گڈیاں اس کی جانب پھینک دیں اور پیر پٹختی ہوئی کیبن سے باہر نکل کر وارڈ کی جانب دوڑ پڑی ۔ اسکی آنکھیں بے تحاشا آنسو لٹا رہی تھیں!!!
………٭٭٭……
رابطہ؛ ٹینگہ پورہ نواب بازار سرینگر،9858989900