’’ دیکھ بیٹی ۔۔۔۔۔۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں تمہاری ہی خوشی کے لئے کر رہے ہیں۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اپنی ضد چھوڑ کر ہماری بات مان لے‘‘ ۔
ماں نے پیار سے اداسی میں ڈوبی نازنین ،جس کی حالت انگور سے کشمش ہو تی جا رہی تھی، کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’مما ۔۔۔۔۔۔وہ اس میں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
نازنین،جس کے رگ و ریشے میں ماں کی بات سے درد کی ایک تیز ٹیس اٹھی ، نے ہمت کرکے کچھ بولنا چاہالیکن آواز جیسے اس کے حلق میں ہی اٹک گئی۔وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں گئی ،اس کی آنکھوں سے تیز تیز قطار در قطار آنسوںگر کر ایسے ٹوٹنے لگے جیسے شبنم کے قطرے چوٹ کھا کھا کر ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
’’ نازنین ۔۔۔۔۔۔ آنسو مت بہا، نازنین ۔۔۔۔۔۔ تمہاری غزالی آنکھوں میں یہ آنسو مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ موتی جیسے آنسو میرے جگر کو ریزہ ریزہ کر رہے ہیں‘‘ ۔
دفعتًاذہنی طلاطم میں مبتلا نازنین کو لگا کہ ساحل اس کو پکار رہا ہے ۔وہ جلدی سے اٹھی ، آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگی لیکن کسی کو نہ پا کر ساحل کی تصویر سامنے رکھ کر گلے شکوے کرنے لگی۔
’’ میری غزالی آنکھوں کے دیوانے ۔۔۔۔۔۔تم کیا سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔ میں بے وفا ہوں ،مجھے تمہاری آنکھیں پسند نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ہرگز نہیں میرے شہزادے ۔۔۔۔۔۔ میں اب بھی ساری دنیا کو چھوڑ کر تمہاری آنکھوں میں کھو جانا چاہتی ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ساحل کی تصویر سامنے رکھ کر من کا بوجھ ہلکا کرتے کرتے وہ ماضی کی یادوں میں کھو گئی ۔
ساحل نازنین کے ہی خاندان کا فرد تھا اور ان کے رشتے میں آتا تھا ۔دونوں ہم عمر تھے اور ایک ہی محلے میں رہتے ہوئے اکھٹے ہنستے کھیلتے پلے بڑھے تھے ۔دونوں نے ایک ساتھ تعلیم بھی حاصل کی تھی ،ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا بھی تھا اور دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نازنین کے والد نے شہر کی ایک پاش کالونی میں نیا گھر خرید لیا او ر وہ اپنے آبائی محلے کو خیر آباد کہہ کر وہیں منتقل ہوگئے۔نازنین اور ساحل کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے اگر چہ سن بلوغت سے ہی پیار کے جذبات ٹھاٹھیںمارنے لگے تھے لیکن شرم وحیا اور خاندانی عزت کی وجہ سے انھوںنے کبھی ایک دوسرے سے ان جذبات کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن ایک دن اچانک ان کی تقدیر کے ستارے چمک اٹھے ،انہیں بن مانگے موتی مل گئے ۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی اس وقت ان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں رہا جب ساحل کے والدین کو نازنین کو اپنی بہو بنا نے کا خیا ل آیا ۔انہونے نازنین کے والدین سے اس کا ہاتھ مانگا اور چند دنوں میں ہی دونوں کی نسبت طئے ہوگئی، جب کہ جلد ہی منگنی بھی ہوئی اور شادی کی تاریخ بھی پکی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ ساحل کے دامن میںجیسے پکے انگوروں کا گچھا ٹپک پڑا۔۔۔۔۔ ۔رعنائیوں سے بھر پور نازنین کے وجود پر ہر وقت سپیدہ سحر کا ہالہ چھایا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔لمبے سنہرے ریشمی بال ۔۔۔۔۔۔غزالی آنکھیں۔۔۔۔۔۔پتلے پتلے ہونٹوں پر گلاب کی پتیاں بکھریں ۔۔۔۔۔۔ گالوں پر شفق کھلے اور چہرے پر بکھرے ہوئے سونے اور چاندی کے ورق ہی ورق ایسے جیسے وہ ابھی بیسن، دہی اور دودھ سے نہا بیٹھی ہو ۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے تصور سے ہی ستاروں میں پہنچ جاتا تھا جب کہ نازنین بھی اس کو دل وجان سے چاہتی تھی۔ برسوں سے راکھ کے نیچے دبی چنگاری کو ہوا ملی اور دونوں کے دلوں کے تار جھنجھنائے اور کر پوشیدہ محبت کی آگ بھڑک اٹھی۔ساحل اور نازنین شادی کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ رنگین خوابوں کے اڑن کھٹولے پر سوار ہو کر سپنوں کے محل تعمیر کرنے میں جٹ گئے ۔ دونوں اب سیل فوں پر گھنٹوں باتیں کرنے کے علاوہ اکثر کسی جگہ بیٹھ کر پیار کی پینگیں بڑھاتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔
لیکن یاس وحسرت کی کالی ناگن نے اپنا پھن پھیلایا۔ ان کی شادی میں اب کچھ ہی دن بچے تھے کہ اچانک شہر کے حالات نے ایسا سنگین رخ اختیار کیا کہ سارا شہر زخم زخم ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔ ہر سو مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کے مناظررقص کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔شہر کے مکینوں کو جان کے لالے پڑ گئے ۔۔۔۔۔۔ سڑکیں انسانی خون سے لالہ زار ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔بہت سے روشن چراغوں کو مہیب اندھیروں نے نگل لیا ۔۔۔۔۔۔خوف و دہشت اور آہ وبکا کا عالم بھرپا ہوگیا۔۔۔۔۔۔ آتش و آہن اور بارود کی گندی بو سے شہر کی فضائیں آلودہ ہو گئیںاور دہشت زدہ ہو کر پرندوں نے بھی اپنے آشیانے بدل دئے ۔۔۔۔۔۔حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی اس مار سے نازنین اور ساحل بھی نہ بچ پائے۔پہلے شہر کے دوسرے گھرانوں کی طرح ان کی شادی بھی ملتوی کرنا پڑی لیکن پھر ان پر ایک ایسی بھیانک اُفتاد آن پڑی جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سارے حسین سپنے ریت کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے بلکہ ان کا مقدس رشتہ ہی ختم ہونے کی نوبت آپہنچی۔پیار کی سنہری زنجیروں میں بندھی نازنین کے نازک دل میں کانٹے چبھنے لگے۔وہ ہرگز ساحل کے بھروسے کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی جب کہ اس کے والدین, ،جن کی دانست میں نازنین جوانی کے اس زینے پر کھڑی تھی جہاں اکثر طفلانہ پن اور بچگانہ آرزو مندی کا رنگ غالب آجاتا ہے ، یہ رشتہ ختم کرنے کا برملا اظہار کرتے ہوئے نازنین کو بھی سمجھا بجھا کر اور دبائو بنا کر راضی کرنے کی کوشش کرنے لگے اور وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہوگئی جہاں اس کو اپنے پیاریا شفیق والدین میں سے ایک کو چننا تھا۔
’’نازنین بیٹی۔۔۔۔۔۔‘‘۔
بہت دیر تک تلخ و شرین یادوں کے تانوں بانوں میںاُلجھی نازنین کی سماعت سے دفعتًا ماں کی آواز ٹکرائی اور وہ یادوں کے خول سے باہر آکر کچن میں گئی۔اس کی سوچ کے ظلمت کدے میں نہ جانے کوں سا نیا روشن دان وا ہوگیا تھا کہ اب وہ اپنے آپ کو قدرے ہلکا پھلکا اور پر سکوں محسوس کر رہی تھی ، اس کے چہرے پر افسردگی اور مرونی کی جگہ ہلکا سا رنگ بھی چڑھ آیا تھا۔
’’ نازنین ۔۔۔۔۔۔ ہم نے بڑے نازوں سے تمہارا رشتہ ساحل کے ساتھ جوڑاتھا۔لیکن اب وہ تمہارے قابل نہیں رہا ،اب اس رشتے کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘‘۔
ماں نے رٹے رٹائے الفاظ کی گردان شروع کردی۔
’’ٹھیک ہے مما ۔۔۔۔۔۔ جیسا آپ چاہیں‘‘۔
نازنین نے چھت کو گھورتے ہوئے سرد لہجے میں کہا اور خلاف توقع اس کے چہرے کے جغرافیہ میں کوئی ہل چل بھی نہیں مچی۔ اس بدلے ہوئے رویئے پر ماں نے خوشی سے اُچھل کر اس کا ماتھا چوما ۔
’’مما ۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔پا پا کہہ رہے تھے کہ ساحل آج گھر آنے والا ہے اور پاپا اور تم اس کو دیکھنے جا ئینگے‘‘؟
’’ہاں بیٹی ۔۔۔۔۔۔ ساحل تھوڑی ہی کو ئی غیر ہے ،وہ ہمارا اپنا ہے ۔ہم آج ہی اس کو دیکھنے جائینگے‘‘۔
’’مما ۔۔۔۔۔۔اگر آپ کو برا نہ لگے تو ۔۔۔۔۔۔تومیں بھی جائوں گی آپ کے ساتھ‘‘۔
’’ٹھیک ہے ،تم تیار ہوجائو ۔تمہارے پا پا کے آتے ہی ہم نکلیں گے‘‘۔
اس نے کچھ توقف کے بعد کہا ۔
پا پا جب آیا تو وہ تیار بیٹھی تھی اور وہ گاڑی میں بیٹھ کرساحل کے گھر کی طرف چل پڑے۔آنکھوں پر کالا چشمہ پہنے ساحل ،جو شہر کے بگڑے حالات کی دھماکہ چوکڑی کا شکار ہو کرکئی ہفتوں تک دہلی کے ایک اسپتال میںزیر علاج رہنے کے بعد بے نیل ومرام آج ہی گھر لوٹا تھا ، وہاں موجود اس کی خبر گیری کرنے والوں کی بھیڑ کو اپنی روئیدار سنا رہا تھا ۔۔۔۔۔
’’ماں۔۔۔۔۔۔ نازنین آگئی!!!‘‘
نازنین کے اندر داخل ہوتے ہی وہ ماں سے مخاطب ہوا۔
’’ہاں بیٹا ۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیسے پتہ چلا‘‘۔
’’ایسے ہی‘‘۔
اس نے ہونٹوں پر تبسم بکھیرتے ہوئے دیرے سے کہا۔ نازنین جگہ بنا کر ساحل کے سرہانے بیٹھی اس کی ماں،جس کی آنکھوں میں درد کا بیکراں ساگر پنہاں تھا ، کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
’’مجھے معاف کرنا نازنین بیٹی ۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو اپنی بہو نہ بنا سکی‘‘ ۔
’’کیوں چاچی ۔۔۔۔۔؟۔‘‘
’’بیٹی ساحل کی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔ پیلٹ ۔۔۔۔۔۔ پیلٹ کے بے رحم چھروں نے اس معصوم کی آنکھوں کی روشنی چھین کر ہم سب کی زندگی میں اندھیرا کر دیا۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور اس کی ہچکی بندھ گئی جب کہ وہاں بیٹھی ساحل کی بہنوںکی آنکھوں کی نمی بھی بغاوت پر آمادہ ہوگئی ۔
نہیں چاچی ۔۔۔۔۔۔ اس میں بھلا ساحل کا کیا قصور ہے، ساحل چاہئے جیسا بھی ہو ۔۔۔۔۔۔ میں ہر حال میں آپ کی ہی بہو بنوں گی ۔
گالوں پر حیا کی سرخی غازے کی طرح پھیلنے اور آنکھوں کے گوشے بھیگنے کے باوجود بھری محفل میں وہ ایسے گرجی جیسے وہ اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کی بات سن کر ساحل کی بے نور آنکھوں سے بھی ٹپ ٹپ آنسو گر کر اس کے کپڑوں میں جذب ہونے لگے۔
رابطہ ؛ اجس بانڈی پورہ (193502) کشمیر
ای میل؛[email protected]
فون نمبر9906526432