Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

آم کا درخــت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: September 28, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
عرشماء کی فجر کی نماز مکمل ہوئی تو وہ اپنی تسبیح لے کر آرام کرسی پر آبیٹھی۔یہ آرام کرسی کمرے کی کھرکی کے پاس ہی رکھی ہوئی تھی ۔تبھی اس کی نظر آم کے پیڑ پر نکلے ہوئے بور پر پڑی جو اسے آنے والی بہار کی خوش خبری دے رہے تھے۔اس کے چہرے پر خود بخود ایک خوبصورت سی مسکراہٹ آگئی۔
 
سبحان اللہ یہ درخت پت جھڑ کے موسم میں اپنے سارے پرانے پتے جھاڑ دیتے ہیں ۔۔۔بالکل خالی ہوجاتے ہیں ۔پھر کچھ دنوں تک انتظار کرتے ہیں ،اداس رہتے ہیں،پھر نئے عزم و حوصلے سے آنے والی بہار کا خوشی خوشی استقبال کرتے ہیں اور خوبصورت چھوٹی چھوٹی کونپلوں کی صورت میں نکلنے والے پتوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔نئے سرے سے اپنے آپ کو سجاتے سنوارتے ہیں ۔اپنے اندر کی مٹھاس کو پھلوں کی صورت میں باہر نکالتے ہیں اور اللہ کے بندوں کی خدمت کے لئے اپنے میٹھے پھل اورگھنی چھائوں پیش کرتے ہیں۔ہر سال ،ہربار اسی طرح کرتے ہوئے یہ نہ تھکتے ہیں اور نہ ہی بے زار ہوتے ہیں ۔اپنے اندر کی تلخی کو کسی کے سامنے نہیں لاتے ۔نہ کبھی احسان جتاتے ہیں۔واقعی بڑے ہی اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں یہ درخت۔۔۔اب یہ بور چھوٹے چھوٹے کچے آموں میں تبدیل ہوگا ،پھر یہ ہرے ہرے آم کچھ بڑے ہوکر اپنا رنگ تبدیل کرنا شروع کردیں گے اور بالآخر سنہرے ،پیلے رس بھرے آموں کی شکل اختیار کرلیں گے ۔اللہ اللہ کس قدر پیار ا انداز ہے قدرت کا ،اور کتنی پیاری نعمت ہیں یہ آم۔اگر آم دنیا میں نہ ہوتے تو دنیا کتنی پھیکی ہوتی ۔یہ سب سوچتے ہوئے عرشماء کو خود اپنے ہی خیالات پر ہنسی آگئی ۔ذرا سی دیر میں کیا کیا سوچ لیتا ہے یہ ذہن۔
 
تسبیح ہاتھ سے رکھتے ہوئے وہ اٹھ کر بالکونی میں آگئی ،وہاں سے لان کا پورا منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔ابھی ابھی سورج نکلا تھا جس کی نرم دھوپ سنہری کرنوں کی صورت میں درخت کے سب سے اوپر والے حصے پر پڑ رہی تھی ۔آم کے درخت کی نئی کونپلیں اورسرخ سرخ نئے پتے گویا انگڑائی لیکر جاگ رہے تھے ۔اب یہ سرخ کونپلیں بھی آہستہ آہستہ ہری اور پھر گہرے ہرے رنگ کے پتوں میں تبدیل ہوجائیں گی ۔۔۔واقعی زندگی ہر پل بدلتے رہنے کا نام ہے ۔
 
لان میں لاین سے لگے ہوئے چیکو ،امرود ،نیم اور شریفے کے درخت بھی خوب لہلہارہے تھے ۔کیاریوں میں ہر طرح کے پودے لگے ہوئے تھے ۔اس جاتی ہوئی سردی اورآمدبہار میں گیندے کے پیلے اور تاریخی پھول خوب بہار دکھا رہے تھے اور آنکھوں کوبھلے معلوم ہورہے تھے اور پرندوں کی چہچہاہٹ دن نکلنے کی نوید دے رہی تھی۔
 
اتنے میں ایک سوکھا پتا ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا اس کے پیروں کے پاس آگرا ۔عرشماء نے جھک کر اسے اٹھایا اورغور سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگی یہ پتا بھی کبھی بہت ہرا بھرا اور خوبصورت رہا ہوگا ۔اب یہ اپنا وقت پورا کرکے دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے ۔
 
اچانک ہی پرندوں کے شور مچانے کی آواز پر اُس نے چونک کر دیکھا ،نیچے اشرف باباپرندوں کے کھانے کے کونڈوں میں باجرہ ڈال رہے تھے ۔یہ دیکھ کر عرشماء کو اپنا بچپن یاد آگیا ۔اسی طرح دادا جان فجر کے بعد درودشریف پڑھتے ہوئے پرندوں کودانہ پانی ڈالتے تھے۔پودوں کو پانی دیتے ،سوکھے پتے نکالتے ۔اکثر و ہ بھی ساتھ ہی ہوتی تھی۔کیونکہ بچپن سے ہی اس کو صبح خیزی کی عادت تھی ۔دادا کہتے ’’عرشی یہ پودے بھی بالکل انسانوں کی طرح احساس رکھتے ہیں۔ان کی بھی بہت پیار سے دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے ورنہ بیچارے مرجھا جاتے ہیں اورکم پھل اور پھول دیتے ہیں۔‘‘کبھی تیز ہوا سے آموں کو بور جھڑجاتا اور کبھی چھوٹی چھوٹی کیریاں (کچے آم)گرجاتیں توان کو بہت دکھ ہوتاتھا ۔انہی کے ساتھ رہ کر عرشی یعنی عرشماء کو پیڑ ،پودوں سے بہت دلچسپی ہوگئی تھی۔ان کا گھر پرانے طرز کا تھا اور اس میں بڑا صحن بھی تھا ۔اس کے درمیان میں ہی آم کا بڑا سا درخت تھا اور کناروں پر بہت سے پودے لگے ہوئے تھے۔
 
پھر یوں ہواکہ جب دادا جان کاانتقال ہوا تو چچا اورچچی ابو سے مطالبہ کرنے لگے کہ گھر کا حصہ الگ کرلیں ،جب گھر علاحیدہ ہوئے اور صحن کے بیچ دیوا ر بن گئی تو آم کے درخت کاتنا چچا کے حصے میں چلا گیا اور اس طرف کچھ شاخیں رہ گئی تھی ۔اس بات کا اس کو بہت دکھ ہوا تھا ۔اس کے بعد کسی نہ کسی بات پر لڑائی ہوجاتی ۔بچوں کی لڑائی میں بڑے بھی ملوث ہوجاتے اور گھر کا ماحول بہت خراب ہوجاتا ۔دادا کے کچھ سال بعد ابو کا بھی انتقال ہوگیا تو امی نے لڑائیوں سے بیزار ہوکر وہ گھر چچا کوبیچ دیا جو انہوں نے اونے پونے ہی خرید لیا تھا ۔پھر امی بچوں کو لے کر اپنی ماں کے گھر آگئی تھی ۔یہ گھر تین منزلہ تھا ،اوپر کی دونوں منزلوں پر دوماموں اور نیچے نانی رہتی تھیں۔دن بھر سب لوگ نیچے ہی ہوتے تھے ،کھانا وغیرہ ایک ساتھ ہی بنتا تھا ،بس سونے کے لئے سب اپنے اپنے کمروں کا رُخ کرتے تھے ۔جب وہ لوگ نانی کے گھر شفٹ ہوئے تو نانی نے انہیں نیچے کاپورشن دے دیا تھا ۔پھر دونوں ماموں اور ممانیوں کو اپنے پاس بلاکر بٹھایا اور کہا ’’دیکھو میں نے یہ نیچے کا پورشن سیما بیٹی کو دے دیا ہے ،اب تم لوگ بھی اپنے کچن الگ الگ کرو ۔یہ نیچے کا کچن سنبھال لے گی ۔اپنے بچوں کو جو کھلانا چاہے بنائے اور کھلائے ۔۔۔یوں سمجھ لو کہ یہ سیما کی وراثت کا حصہ ہے ۔۔۔کیوںٹھیک ہے نا ۔
 
ماموں لوگوں کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔۔۔! یوں بہت محبت اور خلوص سے کچن علاحدہ ہوئے اور وہ لوگ بغیر کسی کڑواہٹ کے نانی کے گھر میں ان کے سایہ ٔ شفقت اورسرپرستی میں رہنے لگے ۔عرشی کی امی نے مکان کی فروخت سے حاصل ہونے والے پیسے ماموں کے ذریعے کسی کاروبار میں لگادئے تھے جس سے معقول آمدنی ہوجاتی تھی ۔یوں یہ لوگ نانی کے گھر میں اچھی طرح سیٹ ہوگئے تھے ۔یہ گھر بھی بہت پیار ا اور کشادہ تھا مگر یہاں آم کا درخت نہیں تھا ، بس کیاریوں میں پودے لگے ہوئے تھے ،اس کووہ گھر اور صحن بہت یا د آتا ۔
 
وقت پَر لگاکر اڑتا گیا اور عرشماء نے بی ایس سی کے پیپر دیئے تواس کی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں ۔منگنی ایک سال پہلے ہی ہوچکی تھی ۔۔۔نانی خاصی ضعیف ہوچکی تھیں ۔وہ بھی اورامی اورماموں لوگ سب بہت خوش تھے کہ بہت اچھے لوگ ہیں ،اور لڑکا بھی بہت اچھا تھا ۔پھر عرشماء آفتاب بن کر اس کے گھر میں آگئی تھی ۔شادی کے پہلے ہی دن صبح پرندوں اور چڑیوں کے چہچہانے کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی ۔جب آہستہ سے کھڑکی کا پردہ ہٹایا توسامنے ہی بڑا سا آم کا درخت اپنے پتے ہلا ہلا کر اس کو خوش آمدید کہہ رہا تھا ،وہ اس قدرخوش ہوئی تھی جیسے بہت دنوں کا بچھڑا ہوا کوئی بہت قریبی عزیز اچانک ہی مل گیا ہو ۔اس وجہ سے اس کو یہ گھر بہت ہی اپنا اپنا سا لگا تھا ۔
 
نرم دل اور خوش اخلاق تو وہ تھی ہی،کچھ ہی دنوں میں آفتاب سمیت سب گھر والوں کو اپنے محبت بھرے رویے سے اپنا گرویدہ بنالیا تھا ۔پھر قدرتی ماحول اور پودوں سے اس کی دلچسپی دیکھ کر آفتاب نے اپنے لان میں مختلف پودوں کا اضافہ کردیا تھا اور ایک کونے میں مصنوعی آبشار بنائی تھی جس کے پانی میں پرندے دن بھر نہاتے اور پانی بھی پیتے تھے ۔اس طرح اس خوب صورت گھر اور پیارے مکینوں کے ساتھ عرشماء کا خوب دل لگ گیا تھا ،اور اب تو زدواجی زندگی کے تیس سال مکمل ہوگئے تھے ۔آج ان کی شادی کی تیسویں سالگرہ تھی ۔بچوں اور آفتاب نے مل کر شام کو آئوٹنگ کا پروگرام بنایا تھا ۔شام میں سمندر کی سیر،ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ اور پھر رات کا کھانا بھی باہر ہی کھانا تھا ۔گزشتہ رات آفتاب نے اس سے کہا تھا کہ شام میں اچھی طرح سے تیار ہوکر چلنا ،تمہارے لئے سرپرائز ہے ۔وہ بس مسکراکررہ گئی تھی ۔اتنے میں ماسی نے آکر ناشتا لگنے کی اطلاع دی۔۔۔عرشماء کو پتا ہی نہ چلا اورپورا گھنٹہ بس ماضی کی سیر میں گزر چکا تھا ۔
 
پھر شام میں جب وہ تیار ہونے لگی تواس نے موتیا کلر کاسلک کا سوٹ نکالا جس پرہلکے فیروزی اورگلابی رنگ کی نفیس کڑھائی تھی ۔موتیوں کی مالا،ٹاپس اور بریسلٹ بھی پہنا اور ہلکا سا میک اپ کرکے جب وہ نیچے اترنے لگی تو آفتاب کمرے میں داخل ہوئے ’’واہ بھئی زبردست ۔۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو ۔‘‘وہ ایک دم شرما گئی تھی۔
 
’’آفتاب آپ نے مجھے تیار ہونے کا کہا تھا لیکن بچوں کے سامنے شرم آئے گی مجھے۔‘‘
 
’’ارے بھئی اس میں شرمانے والی کیا بات ہے ! یہ تو خوش ہونے کی بات ہے کہ اتنے سارے سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہم ایک دوسرے کی پہلے دن کی طرح قدر کرتے ہیں اور اسی لئے ہماری کامیاب ازدواجی زندگی کا جشن منانا ہے ۔چلو دیر ہورہی ہے ،بچے نیچے انتظار کررہے ہیں۔‘‘
 
’’اچھا دوسر اسرپرائز کیا ہے ؟‘‘
 
’’اونہو۔۔۔ابھی نہیں ۔۔۔تھوڑی دیر اور انتظار کرو۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے دونوں نیچے اترے ۔دونوں بیٹے اور بہوئیں تیار کھڑی تھیں۔سب نے خوب شور مچایا ’’امی آج تو آپ کمال لگ رہی ہیں۔‘‘پھر سب  سمندر پر پہنچے ۔ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ کر اس کا دل اداس ہوگیا تھا ۔اس کو اپنی بیٹیاں یاد آرہی تھیں۔وہ دونوں ملک سے باہر تھیںاور عید پر ہی آتی تھیں۔پھر کچھ دور بنی ہوئی مسجد میں سب نے نماز ادا کی اور بعد میں ایک مشہور ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا ۔کھانے کے بعد واپسی کا سفر کسی دوسرے راستے سے ہورہا تھا ۔عرشماء نے پوچھا ۔’’یہ کہاں جارہے ہیں؟‘‘’’ارے بھئی گھر جارہے ہیں اور کہاں!‘‘تھوڑی دیر بعد ایک بڑے لکڑی کے گیٹ کے سامنے گاڑی رکی۔سب گاڑی سے اترے اور جب اس نے گیٹ کو دیکھا تو ’’عرشما ء آفتاب ولا‘‘کی تختی بہت خوب صورتی سے آویزاں تھی اور اس کے دونوں کونوں پر چاند اورسورج بنا ہوا تھا ۔کیوں کہ عرشماء کا مطلب آسماں کا چاند اور آفتاب کا مطلب سورج۔۔۔واقعی ان کی جوڑی چاند ،سورج کی جوڑی تھی۔
 
’’وہ حیران سی دیکھتی رہ گئی ‘‘یہ کیا ۔۔۔؟
 
’’یہ تمہارا گفٹ ہے۔۔۔ہاںعرشی ہم سب نے مل کر اس کو سنوارا اور اس کو میں نے تمہارے نام کردیا ہے ۔چلو اندر سے دیکھو ،چل کر کہ کیسا لگ رہا ہے ۔ویسے تویہ مکمل ہوچکا ہے لیکن اگر تم کچھ تبدیلی کروانا چاہو تو کروا سکتی ہو۔‘‘
 
وہ سحر زدہ سی چلتی ہوئی سب کے ساتھ ایک ایک کمرہ دیکھتی رہی،پھر اوپر کی منزل اور چھت۔۔۔واقعی اس وسیع وعریض بنگلے کی ہر چیز شان دار تھی ،فرش کے ٹائلز ،دروازہ ،کھڑکیاں ، پردے ،کچن ،لاوئنج اور اس میں سے اوپر جاتی سیڑھیاں ،اس کی ریلنگ ۔۔۔۔ہر چند عمدہ تھی۔یہ محبتیں دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں ۔۔۔’’ارے امی! پلیز یہ والا پروگرام ابھی ملتوی کردیں۔۔۔ابھی آپ کو اپنا اپنا کمرہ اورلان بھی تو دیکھنا ہے ،آئیں۔۔۔‘‘
 
اسکا کمرہ سب سے اچھا تھا ۔کھڑکی کھولی توسامنے دور سمندر اٹھکھلیاں کرتا ہو ا نظر آرہا تھا اور کمرے میں خوب ہوا آرہی تھی ۔اس کے بعد لان کی باری تھی،آفتاب نے باہر کی سار ی لائنیں کھولدی تھیں ۔۔۔کیاریاں خوب لہلہارہی تھیں اور رات کی رانی کی مہک ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔مختلف پھلوں کے درخت بھی لگے ہوئے تھے مگر ابھی چھوتے تھے ۔کچھ ہی عرصے پہلے لگائے تھے ۔آفتاب نے خوشی سے اطلاع دی ۔۔۔’’ہم بہت جلد یہاں شفٹ ہوجائیں گے ۔۔۔۔‘‘یہ سن کر عرشماء نے بہت عجیب نظروں سے آفتاب کو دیکھا  ’’اور وہ گھر ۔۔۔۔؟‘‘
 
’’ارے وہ تو سیل ہوجائے گا کچھ ہی دنوں میں۔۔۔۔؟عرشماء کے دل میں ایک ہُوک سی اٹھی ۔میرے پودے ،وہ سارے درخت اور خاص کر آم کا درخت ۔۔۔اُف بہت کچھ چھوڑنا ہوگا۔
 
گھر واپسی کے سفر میں وہ بالکل خاموش تھی۔۔۔سب سمجھ رہے تھے کہ تھک گئی ہوگی ،مگر اس کے دل پر بوجھ سا آپڑا تھا کہ اگر اس گھر سے نہ جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو کہیں آفتاب کا دل نہ ٹوٹ جائے ۔۔۔اتنے ارمانوں سے انہوں نے وہ گھر بنایا ہے اور اگر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرے تو یہ سب چھوڑنا ہوگا۔۔۔۔رات میں نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی ۔ آفتاب توسکون سے سو رہے تھے ۔’’یااللہ ان کو ہمیشہ اسی طرح پُر سکون رکھنا ۔۔۔‘‘پھر وہ چپکے سے اٹھی اور وضو کرکے جائے نماز پر کھڑی ہوگئی ۔آنکھیں خود بخود برسنے لگی تھیں سجدے میں بھی اللہ سے خوب راز و نیاز کئے اور کافی دیر بعد مطمئن ہوکر اٹھی اور بستر پر لیٹ گئی۔اس کا دل شکر سے لبریز تھا۔
صبح جب اٹھی تو بہت پُر سکون تھی ۔اس نے آفتاب کا فیصلہ ماننے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔زندگی میں حالات اور مقامات تو بدلتے ہی رہتے ہیں ،ہمارا اصل گھر تو اگلے جہاں میں ملے گا ۔۔۔ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے ۔جس کے جیسے اعمال ہوں گے ویسا ہی ٹھکانہ اس کو ملے گا ۔پھر اس عارضی ٹھکانے سے کیا دل لگانا ۔اللہ میرے سر پر آفتاب کا سایہ سلامت رکھے اور ان کا ساتھ قائم رکھے اور مجھے کیا چاہئے ! بس یہ کروں گی کہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے نیچے کی طرف بھی آم کا درخت لگالوں گی ۔زندگی رہی تو بڑا ہوتا ہوا دیکھ لوں گی ورنہ دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے ۔وہ یہی سوچ کر ہلکی پھلکی ہوگئی تھی ،پھر وہ بالکونی میں جاکر ایک نئی نظر سے اپنے پودوں کو دیکھنے لگی۔ 

 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اے ای ای جل شکتی پرویز احمد وانی لاپتہ، گاڑی دریائے چناب کے قریب برآمد
تازہ ترین
گاندھی نگر جموں سب ڈویژن میں متعدد چوری کے معاملات حل ،نقب زنی میں ملوث 13افراد گرفتار ، تقریباً 27 لاکھ روپے کی مسروقہ املاک برآمد / ایس پی جموں
تازہ ترین
نیٹ یوجی 2025کے نتائج کو چیلنج کرنے والی درخواست پر غور کرنے سے عدالت عظمیٰ کا انکار
برصغیر
ملک کی سالمیت کی جب بات آتی ہے تو آپریشن سندور ایک واضح مثال ،سوراج کو بچانے کیلئے لڑنے کی ضرورت ہے تو ہم لڑیں گے:امیت شاہ
برصغیر

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?