دنیائے انسانیت پریشانی کے عالم میں جکڑی ہوئی تھی ۔ چین و سکون کی راہیں مسدود تھی ۔ افراتفری کی گھٹائیں چار سو پھیلی ہوئی تھی ۔ہواؤں میں تازگی باقی نہ تھی۔یمین و یسار میں کہرام بپا تھا ۔ شرم و حیا کا دامن تار تار ، جبر و اسبتداد کی زنجیریں زور پکڑ چکی تھی ، عدل و انصاف کی میزان ریزہ ریزہ ، اُداسیوں کی بہتات اور فرحت کا کہیں پر نام و نشان نہ تھا۔ گھروں میں عجیب و غریب نوعیت کی ہنگامہ آرائیاں تھی۔ طاقتورں نے کمزوروں کی دُرگت بنائی ہوئی تھی۔ ظلم اپنی انتہا کو پنہچ چکا تھا۔ خباثت کا دور دورہ تھا۔ ظلمت کے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔بحر و بر میں فساد بپا تھا۔انسان اپنے آپنی ذات سے غیر واقف ہوچکا تھا اور اپنے خالق کو بھول بیٹھا تھا۔
ایسے میں وادئے فاراں کی بخت آور خاتون حضرتِ آمنہ سے محبوبِ دوجہاں ؐ تشریف آور ہوئے۔ بحر و بر کی وسعتوں میں ایک
بے نظیر انقلاب بپا ہوا ۔ تازگی ہر سو چھاگئی۔ ظلمتیں چھٹ گئی، رونقیں جلوہ افروز ہوئی، پاکیزہ جذبات حوصلہ پاگئے۔ بنتِ حوا کا مقدر چمک اٹھا۔ اس کے چہرے عزت و عظمت کی رعنائی سے کھل اُٹھے۔ غلامی کی زنجیریں گر گئی۔ خباثت کی عمارتیں زمین بوس ہوگئی ۔ بدکاری کے ابواب مقفل ہوگئے۔ ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا ۔ انصاف کی میزان نے تبسم کرنا شروع کردیا۔ پاکیزگی کے چشمے نرالے ترنم کے ساتھ پھوٹ گئے اور یوں کاینات کی تقدیر رسولِ رحمت ؐ کی آمد کے ساتھ ہی چمک اُٹھی۔
رابطہ: گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر۔600608165