عظمیٰ یاسمین تھنہ منڈی// آل انڈیا بیک ورڈ کلاسز یونین (رجسٹرڈ) کا ایک اہم اجلاس یونین کے چیئرمین محمد لطیف قریشی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مختلف سیاسی اور سماجی مسائل پر غور و خوض کیا گیا۔ اجلاس میں خاص طور پر جنرل کیٹیگری کے افراد کے لئے ریزرویشن کے مسئلے پر بحث کی گئی، جس میں کچھ سیاستدانوں نے جنرل کیٹیگری کے لئے 50 فیصد کوٹہ کی تجویز پیش کی۔اجلاس میں زمرہ وار ریزرویشن کوٹہ پر تبادلہ خیال ہوا، جو سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے کے مطابق شیڈول کاسٹ (SCs) کے لیے 15 فیصد، شیڈول ٹرائب (STs) کے لئے 7.5 فیصد، اور دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) کیلئے27.5 فیصد مقرر ہے۔ شرکاء نے جموں و کشمیر میں منڈل کمیشن کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے 1992 کے فیصلے کے عدم نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے وہاں ریزرویشن کا نظام صرف مخصوص علاقوں تک محدود رہا ہے، جس کا فائدہ زیادہ تر عام زمرے کے افراد کو ہوتا ہے۔ شرکاء نے یہ بھی نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں عمودی ریزرویشن کا موجودہ نظام SCs کے لئے 8 فیصد، STs کے لئے 10 فیصد اور OBCs کے لئے27 فیصد ہے، جو مجموعی طور پر 45 فیصد بنتا ہے، جبکہ باقی 55 فیصد کوٹہ عام زمرے کے لوگوں کو ملتا ہے۔ مزید برآں، EWS کے لیے 10 فیصد کوٹہ شامل کیے جانے کو غیر آئینی قرار دیا گیا، کیونکہ یہ خالصتاً عام زمرے کے لئے ہے۔یونین کے اراکین نے حکومت سے اپیل کی کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کو ہندوستانی آئین کے مطابق چلایا جائے، اور علاقوں کے نام پر ریزرویشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ شرکاء نے زور دیا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے اور تمام زمروں کے تحفظات کو متوازن کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ 1992 سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔ اجلاس کے دوران اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ریزرویشن سسٹم کو کسی دوسرے نظام سے تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں، اور یہ کہ تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن ان پسماندہ طبقات کے لئے جاری رہنا چاہیے جو صدیوں سے محرومی کا شکار ہیں۔ یونین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاسوں کا انعقاد کرے تاکہ پسماندہ طبقات کے لیے انصاف اور ان کے آئینی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔اجلاس میں شریک اراکین نے کہا کہ ہندوستانی آئین کو اس کی اصل روح میں نافذ کرنا وقت کی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتیں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے صرف سمودھن دیوس منانے تک محدود نہ رہیں۔