استنبول میں ۲ ؍ اکتوبر کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل ِعمد میں ریاستی عناصر کے ملوث ہونے کی کہانی اب زبان زد عام ہے اور سعودی عرب پر عالمی دباؤ اس قدر بڑھا ہے کہ اس صورت حال کو نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا جارہا ہے۔ سنگینی کا عالم یہ ہے کہ سعودی شاہی نظام اتھل پتھل کا شکار دکھائی پڑتا ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع مملکت کے ولی ٔ عہد محمد بن سلمان کے ہٹائے جانے کی خبریں دے رہے ہیں، جب کہ ان کے چھوٹے بھائی خالد بن سلمان کو نائب ولی عہد بنائے جانے کی اطلاعات گردش میںہیں ۔ خالداس وقت امریکا میں بطور سعودی سفیر کام کررہے ہیں۔ ریاستی امور سے لاتعلق ہوجانے والے شاہ سلمان کو ایک بار پھر معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پڑگئے ہیں کیونکہ سلمان خاندان اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھ رہا ہے۔یمن میں جنگ کا آغاز، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خواتین کارکنوں کی گرفتاری سمیت محمد بن سلمان کے کئی فیصلوں پر بین الاقوامی میڈیا نے بہت شور مچایا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل تو یمن پر شور مچاتی رہ گئی لیکن امریکا سمیت کسی عالمی طاقت نے اس پر کان نہ دھرا، لیکن شاہی خاندان کے ناقد جمال خاشقجی کے پُرا سرار قتل پر اس قدر شور مچا ہے کہ سرکش شہزادے کا مستقبل ہی داؤ پر لگ گیا ہے۔
صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والی صورت حال اور عالمی دباؤ سے پریشان شاہ سلمان نے اپنے معتمد خاص گورنر مکہ پرنس خالد الفیصل کو ترکی بھیجا تاکہ صورت حال کو کسی حد تک بہتر کیا جاسکے، مگر پرنس خالد الفیصل نے واپس آکر شاہ سلمان اور شاہی خاندان کو بتادیا کہ ان حالات سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ اُدھرپرنس خالد الفیصل شاہ سلمان کے معتمد ہونے کے ساتھ ترک صدر طیب اردوان کے بھی دوست شمار ہوتے ہیں۔ ترک حکام نے ان کے ساتھ آڈیو ریکارڈنگ شیئر کی۔ ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد الفیصل شواہد دیکھ کر اس قدر دباؤ میں آئے کہ انہوں نے تعاون کے لیے منت تک کی جو سعودی شاہی خاندان کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ پرنس خالد کی شدید پریشانی میں وطن واپسی کے بعد ہی سعودی عرب کو اعترافی بیان پر مجبور ہونا پڑا۔ سعودی عرب اس سے پہلے نہ صرف سختی سے جمال کے معاملے میں اپنے کسی رول کی تردید کر رہا تھا بلکہ پابندیوں کی صورت میں جوابی اقدامات کی دھمکی بھی دے رہا تھا۔شاہ سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کا فوری علم نہ ہوا۔ شاہی خاندان کے کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں سعودی ٹی وی چینلز کی رپورٹس سے اس کا علم ہوا، جب کہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان کو خود ولی عہد نے آگاہ کیا اور مشکل سے نکلنے کے لیے مدد مانگی۔ 2 ہفتے تک مسلسل تردید کے بعد مجبورانہ اعترافی بیان یا اقبال ِ جرم نے سعودی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے انہیںبڑھا دیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے تو اس قتل پر بات کرنے کو تیار نہ تھے پھر اس کا جرم’’بدمعاش قاتلوں‘‘کے سرڈالتے رہے۔ اعترافی بیان کے بعد اسے قابلِ اعتبار بھی کہا لیکن اگلے ہی دن’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ سے انٹرویو میں شکوک کا اظہار کیا اور کہا کہ اس معاملے میں دھوکہ دیا گیا اور جھوٹ بولے گئے۔ تاہم ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب قابلِ اعتماد اتحادی ہے اور انہیں اُمید ہے اس قتل کے احکامات ولی عہد نے نہیں دئے ہوں گے۔
سعودی فرماں رواشاہ سلمان بادشاہت سنبھالنے سے پہلے طویل عرصہ تک گورنر ریاض تھے، ان کی شہرت بحیثیت گورنر یہ تھی کہ وہ سرکش اور بھٹک جانے والے شہزادوں کو قابو کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ سعودی تحقیقات کے نتیجے میں اعلیٰ ترین عہدیداروں سمیت 18 ؍ افراد کو ملزم قرار دیا جاچکا ہے۔ تحقیقات کس قدر درست اور جامع ہیں اس بحث میں پڑے بغیر یہ واضح ہے کہ خاشقجی کے قتل کی وجہ سے محمد بن سلمان کی انتظامی صلاحیتوں پر بہت بڑا سوال اٹھ کھڑا ہے۔شاہ سلمان نے اس مشکل وقت میں معاملات دوبارہ ہاتھ میں تو لے لئے ہیں لیکن کیا وہ اس معاملے کو بالکل اسی طرح سنبھال سکیں گے جیسے وہ بحیثیت گورنر سرکش شہزادوں کو قابو کرتے رہے ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق شاہی محل سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان کی گرتی ہوئی صحت معاملات کے مکمل کنٹرول میں رکاوٹ ہے۔
1932ء سے قائم سعودی ریاست میں کئی مواقع پر شاہی خاندان میں اختلافات ہوئے، قتل و غارت گری بھی ہوئی۔ بہر نواندرونی معاملات جیسے بھی رہے سعودی عرب کو کبھی دنیا سے معاملات میں ایسے پیچیدہ اور نازک مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ اس وقت معاملہ اقتدار کی کشمکش سے زیادہ ریاست کے استحکام اور معاشی نزاکتوں کا ہے۔ اس پیچیدگی کے عوامل بیک وقت اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی ناپختگی ، حرص وہوس اور آمرانہ طبیعت کی وجہ سے سعودی عرب نے بہت کم عرصے میں اندرونی اور بیرونی سطحوں پر محاربے اور کھلبلی کے محاذ کھول دئے۔ اب جمال خاشقجی کی سرگزشت نے آل سعود کی شہرت کو پوری دنیا میں بھٹہ لگایا، اس کے کردار پر مسلمان انگشت بدنداں نظر آرہے ہیں ۔ پیچیدہ حالات کےاس پس منظر میں سعودیہ کے شاہی خاندان کے اندر بے چینی بھی ہے اورموروثی بادشاہت کے نظام میں تبدیلیوں کے آثار بھی نظر آرہے ہیں ۔
�����