ریحانہ شجر ؔ
بہو اور بیٹے کے گزر جانے کے بعد زلیخا ساٹھ سال کی عمر میں پوتا پوتی کی تعلیم و تربیت کے لیے گاؤں چھوڑ کر شہر کے ایک بہت بڑے شاپنگ مال میں جی جان سے کام کررہی تھی۔ کئی سالوں میں ایک آدھ بار ہی گھر جاتی تھی۔ اچانک اس بار مال کو اّپ گریڈ کرنے کے لئے مینجمنٹ نے ملازمین کےلئے مہینے بھر کی چھٹی کا اعلان کردیا۔ اتنی بڑی خوشخبری سن کر زلیخا کی جان میں جان آگئی اور گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگی ۔اس نے بچوں اور اپنی پرانی سہیلیوں کے لئے تحائف خرید لئے۔
مہینے کے آخر میں وہ ٹرین میں بیٹھ کر شوق سے اپنے گاؤں کے لئے روانہ ہوگئی۔ بچوں کی چھٹیاں ہونے میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔ اسکی سہیلی کلثوم نے اس کے رات کے کھانے کا انتظام کیا تھا، اسلئے رات کا کھانا کلثوم اور اس کے گھر والوں کے ساتھ کھالیا۔ دوسرے دن زلیخا گھر سنبھالنے میں مصروف ہوگئی اور بعد میں دوسری سہیلی جمیلہ کے ساتھ تحفے لیکر باقی پڑوسیوں سے ملنے گئی ۔
رات کے دس کب بج گئے اس کو پتہ نہیں چلا۔ اتنے میں باہر شور سنائی دیا۔ وہ باہر نکلی تو دیکھا کلثوم اور اس کے گھر کے لوگوں کی لاشیں لائی جا رہی تھی ۔ گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔ زلیخا کو صدمہ لگ گیا ۔ ابھی ایک روز قبل ہی زلیخا ان لوگوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہی تھی ۔
ابھی سارا گاؤں ماتم میں ڈوبا ہوا تھا کہ دو دن بعد ایک اور پڑوسی اور اس کے گھر والوں کو لوگ ہسپتال لے گئے اور شام تک ان کی بھی لاشیں آگئی۔
پورے گاؤں میں دہشت کی لہر دوڑ گئی۔ سبھی نذر و نیاز کر نے لگے کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
دو تین گزر گئے پھر سے ایک اور گھر کے افراد خانہ اچانک فوت ہوگئے۔
ہر دوسرے یا تیسرے روز کسی کے مرنے کی خبر نے پورے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اگلے روز جمیلہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئی ۔
جمیلہ کے جنازے میں ایک بندہ بہ آواز بلند کہنے لگا مجھے لگتا ہے کہ زلیخا نے آتے ہی گاؤں کے جس گھر میں قدم رکھا ہے اس گھر کے لوگ دوسرے یا تیسرے دن مر جاتے ہیں۔
سارے گاؤں کے لوگ ایک آواز میں کہنے لگے ہاں واقعی یہ سب کچھ زلیخا کے گاؤں میں قدم رکھنے کے بعد ہی ہوا۔
ایک اور بندے نے کہا اب ہم اور جانیں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ڈائین ہے، اس کو مار ڈالو یا گاؤں سے باہر نکال دو۔ ایک اور آواز آئی اس کو مارنا بہتر ہے اگر یہ کسی دوسرے گاؤں میں رہے گی وہاں بھی لوگ مر جائیں گے، اسلئے بہتر یہی ہے اس کو ختم کر دو ۔
زلیخا جان بچانے کیلئے وہاں سے آہستہ سے نکل آئی ۔ پیچھے سے کسی نے آواز لگائی وہ بھاگ رہی ہے۔ سب نے پتھر مار کر زلیخا کے قدم مجروح کردئیے۔
زلیخا کو مارنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے کہ اچانک ہوا میں گولی چلی۔ سارے لوگ پیچھے ہٹ گئے ۔ یہ پولیس اہلکار تھے جنہوں نے وقت پر آکر زلیخا کی جان بچائی۔ گاؤں کے سر پنچ نے کہا انسپکٹر صاحب یہ عورت ڈائن ہے، جس گھر میں اس نے قدم رکھا وہ گھر خالی ہوگیا۔
انسپکٹر نے پہلے زخمی زلیخا کو ہسپتال منتقل کردیا۔ پھر گاؤں والوں کو سمجھایا کہ زلیخا نے ہی ہمیں بلایا ہے ۔ اور جو آپ کہہ رہے ہیں وہ سب کچھ ہم زلیخا سے فون پر سن چکے ہیں۔
پولیس نے گاؤں کے سرپنج اور دو لوگوں کے سامنے ڈاکٹروں سے پوچھا کہ زلیخا کے آنے کے بعد ہی یکے بعد دیگرے گاؤں میں اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا زلیخا واقعی ڈائین ہے۔
ڈاکٹر نے مسکراتے ہوے کہا نہیں، زلیخا غیر علامتی (Asymptomatic) کووڑ پازیٹیو ہے۔
���
وزیر باغ سرینگر، [email protected]
آفت ِناگہانی افسانہ
