گزشتہ د و روز سے ہو رہی برفباری نے کشمیر، پیر پنچال اور چناب خطوں میں تباہی کا جو سامان کیا ہے، اسکا اندازہ لگانا اگرچہ مشکل نہیں تھا، کیونکہ محکمہ موسمیات کی طرف سے درمیانہ سے بھاری پیمانے کی برفباری کی پیش گوئی کی گئی تھی، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ رواں برس کی خراب موسمی حالت سے کوئی سبق حاصل کرنے کی بجائے، ایسا ثابت ہوا ہے کہ انتظامیہ خواب خرگوش میں تھی۔ جبھی تو فی الوقت مذکورہ بالا تینوں خطوں میں رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے عبور و مرور کا سلسلہ بُری طرح متاثر ہوگیا ہے۔ روز مرہ زندگی کی بنیادی ضرورت بجلی کی فراہمی کا عالم یہ ہے کہ شہر اور قصبہ جات میں انتظامیہ وقفو ںوقفوں کے ساتھ اُسے برقرار رکھنے میں کسی حد تک کامیاب رہی ہے مگر دیہات اور دور دراز علاقوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ وادی کشمیر کے شمال اور جنوب میں تازہ برفباری سے برقی سپلائی کا ڈھانچہ ہی جیسے مہندم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برفباری سے بجلی کی ترسیلی ڈھانچے اور کھمبوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے، لیکن موجود ہ حکومت روز اول سے یہ دعوے کرتی رہی ہے کہ موسمیاتی خرابی سے نمٹنے کےلئے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور تمام اضلاع میں ایمر جنسی سے نمٹنے کےلئے مراکز قائم کئے گئے ہیں، لیکن جس عنوان سے بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو کر رہ گیا ہے، اُس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انتظامیہ صرف ایڈدائزریاں جاری کرنے تک سنجیدہ تھی لیکن قدرتی آفت سے نمٹنے کےلئے کوئی تیاری نہیں کی گئی ۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال بدھ کے شام کوسرینگر بارہ مولہ شاہراہ پر برفباری کے سبب ٹریفک مسدود ہونےسے دی جاسکتی ہے، جس کے دوران ہزاروں مسافر درماندہ ہوگئے اور ان میں سے بیشتر مشکلاً نصف شب کے بعد اپنےگھروں کو پہنچے ۔ایسا کیوں ہوا ؟ کیونکہ شاہراہ پر دن بھر کی جمع شدہ برف ہٹانے کےلئے کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا!۔ یہ وادی کشمیر کی کلیدی شاہراہ حال ہے، لہٰذا رابطہ سڑکوں کی حالت زار کیا ہوگی، اُسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ گورنر انتظامیہ جہاں انتظامی امور میں فوری فیصلے صادر کرنے میں پیش پیش رہتی ہے ، اور اس رجحان کے ذریعہ سابق حکومتوں کے ذمہ داروں کو نیچا دکھانے کےلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا ،لیکن مجموعی طور پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ انتظامیہ کو عوام الناس کی فکر کے بجائے دلّی سے تعلق رکھنے والے مختلف حلقوں کے مفادات کی فکر دامنگیر ہے، جو بجلی اور دیگر بنیادی معاملات کے ڈھانچوں کےلئے جدت طرازی کے نام پر خرید و فروخت کے ساتھ جُڑی ہوتی ہیں، وگرنہ اندھیرگردی کے اس عالم میں حکومت کا روز بجلی کی فراہمی کا نظام بہتر بنانے پر مرکوز ہونا چاہئے تھا نہ کہ پری پیڈ میٹر خریدنے پر، جس پر سینکڑوں کروڑ روپے صرف ہونے کا تخمینہ ہے، اور جو براہ راست اُس کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں ہے، جس کے حکومتوں کے ساتھ مخصوص رشتے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی مفادات کی روشنی میں کام کئے جاتے مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دو دن کی برفباری سے سرکار کی پول نہیں کھل جاتی۔ یہ شاید ہی بتانے کی بات ہے کہ دلی اور جموں میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں جنکا کاکوئی پرسان حال نہیں۔ گائوں دیہات میں لوگوں کو مریضوں کو کاندھوں پر اُٹھا کر علاج ومعالجہ کےلئے دسیوں میل کا سفر پیدل طے کرنا پڑرہا ہے۔ دور دراز علاقوں میں ضروری غذائی اشیاء کی ترسیل کا سلسلہ متاثر ہوگیا ہے اور فی الوقت سرینگر جموں شاہراہ کی جو صورتحال ہے، برف پگھلنے کے بعد اس پر بھاری پسیاں گرا ٓنے کا قوی اندیشہ ہے اور ایسے حالات میں آنے والے ایام کےد وران شاہراہ کے وقفے وقفے سے درماندہ ہونےکا خدشہ برقرار ہے،جس سے وادی میں سپلائی پوزیشن متاثر ہوسکتی ہے۔ مگر اس حوالے سے حکومت کی بے تعلقی نہایت ہی افسوسناک اور شرمندگی کا باعث ہے۔ ریاستی حکومت کو سیاسی مسائل اور معاملات کی بجاے عوامی مفادات کے حامل امور پر توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دینی چاہئے۔