موسم سرما کے شروع ہوتے ہی وادیٔ کشمیرمیںآتش زدگی کی وارداتیں رونُماں ہونے لگی ہیں اور گذشتہ ایک ماہ کے دوران وادی کے اطراف و اکناف میں آگ کی بیسیوں وارداتوں میں بہت سے رہائشی عمارات جل کر خاک ہوئےہیں،کئی بڑے پیمانے پر اورکئی جزوی طور پر مالی نقصانات سے دوچار ہوئے ہیں اور اس طرح اُن کی زندگی تلپٹ ہوکر رہ گئی ہے۔گذشتہ سال بھی موسم سرما کے دوران آتش زدگی کی جو سینکڑوںوارداتیں رونماںہوئیں،اُن کو آج تک لوگ بھول نہیں پائے ہیں،کیونکہ آگ کی اُن وارداتوں میںجس پیمانے پر لوگوں کے اثاثے راکھ ہوگئے ،اُن کی تفصیل سامنے آنے سے عوام کے دل ہِل گئے ۔ اُن وارداتوں میں اگرچہ جانی نقصان محدود پیمانے پر ہوا ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو مالی نقصان اُٹھانا پڑا ۔ اُن میں سےزیادہ تر متاثرین کی نظام ِزندگی اس قدر مفلوج ہوکر رہ گئی کہ وہ آج بھی بے بسی کے عالم میں جی رہے ہیں جبکہ بعض متاثرین اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھتے ہیں۔
بے شک آگ زدگی کی وارداتوں میں بذات ِ خود انسان کی اپنی غفلت ، لاپرواہی اور بے حِسی بھی شامل ہوتی ہے ،تاہم پھر بھی آتش زدگی کی وارداتیں آفات ِ الٰہی کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔کیونکہ زمینی و آسمانی آفتوں کی تاریخ انسانی وجود سے ہی شروع ہوئی ہے۔جو منشائے الہٰی کے مطابق آندھی،طوفان ،سیلاب ،زلزلہ ،آتش زدگی ،وبائی بیماری، خشک سالی،بادل پھٹنے،برق گرنے یا زمین دُھسنے کی شکلوں میں نازل ہوکر انسانی آبادیوں کو یاتو صفحہ ہستی سے مٹاتی ہیںیا پھر بڑے پیمانے انسانی آبادیوں کو جانی و مالی نقصانات سے دوچار کرتی ہیں۔رواں سال کےپچھلے تین ماہ کے دوران جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں بادل پھٹنے اورشدید بارشوں کے نتیجے میںپہاڑی سیلابی ریلے آنے، زمین کھِسکنے، سڑکیں بہہ جانے،کسانوں کی کھڑی فصلوں اور میوہ باغات کی تباہی کامناظر کے ساتھ ساتھ بعض رہائشی بستیاں زمین بوس ہونے کی جو المناک و لرزہ خیزوارداتیں رونُماں ہوئیں،وہ سبھی منشائے الٰہی کے تحت آفات کی صورت میں ہی واقع ہوئیں،جبکہ جموں سرینگر شاہراہ کافی دیر تک بند رہنے کے نتیجے میں کروڑوں روپے مالیت کے سیب اور دوسرے میوے جات گَل سڑ کر رہ جانے سے مالکان باغات اور میوہ تاجربڑے پیمانے پر مالی نقصانا ت سے دوچار ہوئے،اور اس طرح وارداتوں میں جہاںبیشتر لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہیں بہت سارے لوگ مال و اسباب اور گذر بسر کےآشیانوں سے بھی محروم ہوگئے۔
بے شک ان موقعوںجہاں حکومتی ادارے متحرک ہوکر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے وہیںبعض رضاکار تنظیمیں بھی اپنا حتی المکان رول ادا کرتے رہے۔لیکن یہ سب کچھ تو وقتی طور پر ہوتا رہتا ہےاور پھر ان کا کوئی خیر خواہ مددگار نہیں رہتا۔جس کے نتیجے میںزیادہ تر آفات زدہ لوگ انتہائی غیر یقینی صورت حال میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ہاں! کسی بھی قدرتی آفت کے شکار لوگوں کی زندگی بحال کرنےمیں سب سے اہم رول حکومت کا ہی ہوتا ہے اوریہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہوتی ہےکہ وہ کسی بھی آفات کے شکار لوگوں ،جس میں آتش زدگان بھی شامل ہیں،کی متاثرہ زندگی کو بحال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑےتاکہ وہ جسم وجان کارشتہ برقرار رکھیں،زندگی کا نظام چلا سکیںاور اپنے معاشرے میںپہلے جیسے کی طرح زندگی کا گذر بسر کرسکیں،کیونکہ اسی مقصد کے تحت حکومتیں وجود میں آتی ہیںاور ایسے ہی کام سر انجام دینے سے حکومت،حکومت کہلاتی ہے ۔
لیکن جہاں تک دیکھنے اور سُننے میں آرہا ہے ، ہماری حکومت اس سلسلے میں مثبت رول نہیں نبھا رہی ہے۔ آفات زدہ لوگوں کے لئے حکومت کی طرف سے منظور شدہ ریلیف بہتر طریقے پر پہنچانے کے منظم نظام کا فقدان ہےاور نہ معلوم کن مصلحتوں کے تحت ریلیف کو متاثرین تک ایک لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں متاثرین کے اہل ِخانہ کی زندگی بَد سے بدتر ہوجاتی ہے ۔ اب جبکہ شدید سردیوں کا موسم شروع ہوچکا ہے،تو اس موسم میں متاثرین کے لئےبغیر آشیانوں کے زندگی گزارنا بہت ہی کھٹن مسئلہ ہے۔جس کے پیش ِ نظرضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اُن اداروں کو متحرک کریں ،جو آفات سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بحالی کے لئے قائم کئے گئے ہیں، تاکہ بلا تاخیر اور بر وقت متاثرین کی ہر وہ سہولت بہم ہوجائے ،جس سے وہ راحت کا سانس لے سکیں اور اپنی زندگی کو دوبارہ بحال کرنے کے قابل ہوجائیں ۔