ذکی نور عظیم ندوی
ربیع الاول ہجری سال کا تیسرا مہینہ ہے، یہ محض ایک تقویمی حقیقت نہیں بلکہ تاریخِ انسانیت کی متعددعظیم ساعتوں کا امین ہے، وہ مہینہ جس کے دامن کو عظمت و احترام کےمتنوع و عظیم لمحوں نےہمیشہ کیلئےیادگار اور ناقابل فراموش بنا دیا، تاریخ کے اوراق نے عظیم کرداروں اور ناقابل انکار عظمتوں سے نکھارا اور محفوظ کیا، جس کی صبح و شام کو مختلف و متنوع اسلامی حقائق نے سدا کے لیے روشن کر دیا۔ اس ماہ کے ساتھ وہ مقدس لمحات، واقعات اور کردار جڑے ہیں جنہوں نے کائنات کی تسخیرکے راستے دکھائے، ملت کے عروج کی داستانیں لکھیں، امت کے استحکام کی بنیادیں متعین کیں اور دین کی تکمیل تک کا سفر مکمل کرتے ہوئے اُمت کو منزل مقصود پر پہنچادیا۔
ربیع الاول کا سب سے بڑا اعزاز یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں وہ مبارک صبح نمودار ہوئی جب عام الفیل 571ء کو پیر کے دن نبی اکرم ؐ کی ولادت ہوئی۔ جن کی تعلیمات کے ذریعہ مکہ کی فضاؤں کا منور ہونا، کعبہ کی وادیوں کا جگمگا اٹھنا اور خود تاریخ کا اپنی رُت بدل کر کعبہ کے حقیقی کردار کو عیاں کرنا مقدر کیا گیا تھا، جن کی کاوشوں سے ایوانِ کسریٰ کا منہدم ہونا، پرانے آتش کدوں کا سرد ہونا اور کفر و ضلالت کی بنیادوں کا لرزنا یقینی بنا دیا گیا۔ زمین و آسمان بھی شاداں و فرحاں تھےکہ ہدایت کا سورج اب دنیا میںطلوع ہوچکا اور زندگی کی شاہراہ چہار طرفہ تاریکیوں کو مٹاکر پوری طرح واضح اور عیاں ہوگئی ۔ ماہ ربیع الاول کا یہی امتیاز نہیں بلکہ ہجرتِ مدینہ بھی اسی ماہ کی برکتوں میں ہے۔جب آپؐ نےمکہ کی تنگ و تاریک فضاؤں کو چھوڑ کر مدینہ میں قدم رکھا۔ 12 ربیع الاول جس کو ہجرت کے حوالے سے لوگ کم اور تاریخ پیدائش ووفات کے نام سے ہی جانتے و مانتے اور اب تو ایک بڑی تعداد میں مناتے بھی ہیں۔ حالانکہ 12 ربیع الاول کو یوم ولادت ہونا متعین نہیں اور دوسری تاریخیں زیادہ راجح وقرین قیاس، جبکہ12ربیع الاول کو ہجرت کر کے مدینہ پہنچنا، اس کی حسین وادیوں کو منور کرنا اور پھرسلسلہ رسالت کی کڑیوں کو لپیٹ کر اور نزول وحی کے مرحلہ کی تکمیل کے بعد خود نبی اکرمؐ کا اپنے مالک حقیقی سے جا ملنا یقینی اور قطعی ہے۔
ہجرت دراصل تاریخِ اسلام کا وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جس نے دینِ مبین کو نئی جہت عطا کی۔ یہ صرف ایک مقام سے دوسرے مقام کی نقل مکانی نہ تھی بلکہ تجدید ِ حیات کا اعلان تھی، جہاں مکہ کی سنگلاخ زمین پر دبے، کچلے اور مظلوم لیکن مخلص و فرمانبردار نفوس قدسیہ کو مدینہ کی نرم فضاؤں میں تازہ ہوا میسر ہوئی،اس نے بکھرے ہوئے افراد کو جوڑ کر ایک لڑی میں پرودیا، انہیں ایک باقاعدہ قوت میں ڈھال دیا، یہی وہ لمحہ تھا جس میں تشکیلِ امت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے نتیجے میں دین کو نہ صرف آزادی نصیب ہوئی بلکہ اس کے پاؤں جمتے گئے اور یوں ہجرت کا یہ سفر استحکامِ دین کا ذریعہ بنا۔
اسی ربیع الاول کی برکتوں میںآپسی ہمدردی اور تعلق باہمی کا وہ تاریخی کردار اور عظیم اقدام بھی دنیا میں عملی شکل میںظہور پذیر ہوا جسے ’’مواخات‘‘ کہا جاتا ہے۔ نبی کریم ؐ نے مہاجرین اور انصار کو اخوت کے رشتے میں پرو کر ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا جو فقط زبانی وعدے نہیں بلکہ ایثار، قربانی، ہمدردی اور محبت کی زندہ مثال تھی، جس نے امت کو جوڑ کر دکھا دیا۔ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کو نہ صرف مال و دولت بلکہ دل میں بھی حصہ دیا۔ یہ اخوت ہی تھی جس نے مدینہ میں عدل، برابری، امن اور معاشرتی توازن کی فضا پیدا کی اور اسلام کو زندہ، چلتا پھرتا، جیتا جاگتا نظام بنا دیا۔اسی مہینے کی اٹھارہ تاریخ کو رسول اللہؐ نے مدینہ میں مسجد نبوی کی بنیاد رکھی۔ یہ صرف مسجد نہیںبلکہ انسانیت کی سب سے عظیم درسگاہ ، عدل و مساوات، علم و حکمت، مشاورت و قیادت اور سیاست و معاشرت کا مرکز بھی تھی، جہاں غلام و آقا، عرب و عجم، امیر و غریب سب ایک صف میں کھڑے ہو تے، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ بیٹھتے اور امت کے اجتماعی معاملات پر غور و خوض کیا جاتا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سے قرآن کے فیض کے چشمے پھوٹے، خلفائے راشدین کی حکمتوں کو جلا ملی اور اسلامی تہذیب نے اپنی اصل رنگت پائی۔
ربیع الاول کے اوراق ہمیں متعدد روشن منظر بھی دکھاتے ہیں، جن میں پانچ ہجری میں اسی مہینے کی پچیس تاریخ کو غزوہ دومۃ الجندل کاوقوع بھی ہے۔ یہ غزوہ اس بات کی علامت تھا کہ کبھی کبھی تلوار کے بغیر بھی فتح حاصل ہوتی ہے۔ حکمت اور امن کی قوت نے دشمن کے دلوں کو مسخر کیا اورایک اور پہلو سے اسلام کی عظمت ظاہر ہوئی۔لیکن اسی مہینے اہلِ ایمان کے لیے قیامت صغریٰ بھی پیش آیا، جب بارہ ربیع الاول، پیر کورسول اللہؐ کی وفات ہوئی اور وہ زبان خاموش ہوگئی جس نے انسانیت کو توحید کا پیغام دیا تھا، وہ چشمِ رحمت اوجھل ہوگئی جس نے امت پر رحمت کی بارش کی تھی۔اسی دن حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ بیعتِ خلافت کا یہ منظر امت کے استحکام اور اجتماعیت کی ضمانت بن گیا۔ صدیق اکبرؓ نے اپنے عزم و حوصلے سے امت کو یہ باور کرایا کہ رسول اللہؐ کی وفات دین کا خاتمہ نہیں بلکہ دین کی منزلِ نو کا آغاز ہے۔ خلافتِ راشدہ کا پہلا باب اسی مہینے میں کھلاجس نے امت کو قیامت تک قیادت و رہنمائی کی راہ دکھا دی۔یوں ربیع الاول کا ہر لمحہ رسول اللہؐ کی حیاتِ مبارکہ اور امت کی بیداری کا شاہد ہے۔ یہ مہینہ ہمیں بتاتا ہے کہ مصطفیٰ ؐ کی آمد محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو ہماری رگوں میں ایمان کی حرارت بن کر دوڑتی ہے۔ربیع الاول دراصل امت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ محمدؐ کی سنت ہی اصل زندگی ، آپ کی اطاعت ہی اصل کامیابی ہےاور کسی قسم کا جشن نہیں بلکہ آپ کا مشن ہماری ذمہ داری ہے۔