یوں تو دہشت،خوف،لوٹ مار،عصمت دری اور قتل وغارت گذشتہ چند سالوں سے ہندوستانی اقلیتوں کا مقدر بن چکی ہے ۔وہ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب ان اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ڈھائے جاتے ہوں۔سرکاری دہشت گردی اس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے کہ مہاتما گاندھی کے ہندوستان میں اقلیتیں اپنے آپ کو خوف زدہ محسوس کررہی ہیں۔کبھی اس دہشت کا شکار مسلمان بنتے ہیں اور کبھی دلت۔آئے دن عصمت دری کے واقعات اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کا دیا ہوا نعرہ’’بیٹی پڑھاؤ،بیٹی بچاؤ‘‘صرف نعرہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔عصمت دری کی یہ وبا اب ہماری ریاست میں بھی پہنچ چکی ہے۔ہماری وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاست جموں وکشمیر کو عورتوں کے لیے ہندوستان کا سب سے محفوظ علاقہ قرار دیتے ہوئے ہندوستانی عورتوں کو جموں وکشمیر میں اکیلے سفر کرنے کی اور یہاں کی مہمان نوازی کا مشاہدہ کرنے کی دعوت بھی دی تھی لیکن اب یوں لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحبہ کا یہ دعوا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کیوں کہ گذشتہ سالوں سے اس ریاست میں بھی عورتوں پر جو ظلم وتشدد ہورہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔کبھی کشمیر میں صنف نازک سرکاری دہشت گردی کا شکار بنتی ہے تو کبھی جموں میں۔ابھی حال ہی میں ضلع کٹھوعہ سے تعلق رکھنے والی گجر قبیلہ کی ایک آٹھ سالہ معصومہ پر اسرار حالات میں گھر سے غائب ہوگئی۔10جنوری کو آصفہ نامی یہ معصومہ جو گھر سے غائب ہوئی تو کوئی یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ چند دنوں کے بعد اس کی عصمت کو تار تار کی ہوئی لاش ملے گی۔17جنوری کو آصفہ کی لاش ملی تو پوری ریاست میں کہرام مچ گیا،اخبارات اور بعض سماجی تنظیموں نے جب کافی واویلا مچایا تو دو دن کے بعد پولیس نے ایف۔آئی۔آر(F.I.R)درج کرکے تفتیش کا کام شروع کیا۔اس سلسلے میں پولیس نے پندرہ سالہ ایک کم سن کو گرفتار کرنے کا دعویٰٗ بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ مجرم نے اقرار کردیا ہے۔اسی دوران ریاستی اسمبلی کا اجلاس بھی زور وشور کے ساتھ چل رہا تھا۔اپوزیشن سے وابستہ ممبران نے جب اس مسٔلہ کو ایوان میں اٹھایا تو حکومت نے معاملے کو باریک بینی سے دیکھنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم کا قیام عمل میں لایا۔جرم دیکھنے والی اس خصوصی ٹیم نے جلد ہی اصل ملزم کے گریبان تک رسائی حاصل کرلی اور اس بات کا انکشاف کیا کہ آصفہ کی عصمت کو تار تار کرنے والا پولیس محکمہ سے وابستہ ایک ایس ۔ پی ۔ او(S.P.O) دیپک کمارکھجوریا ہے جس نے مسلم اقلیت میں خوف وہراس پیدا کرنے کے لیے معصوم آصفہ کو اغواء کیاپھر اس کی عصمت کو کئی بار لوٹا اور بعد میں بے رحمی سے قتل کر کے اس معصوم کو دور کہیں جنگل میں زمین دوز کردیا۔یہاں پولیس کرائم برانچ کی وہ خصوصی ٹیم مبارک کی مستحق ہے کہ جس نے صرف چند دنوں میں ہی اصل ملزم تک رسائی حاصل کرکے اسے سلاخوں کے پیچھے کردیا۔گجر سماجی تنظیموں کے رول کی بھی سراہنا کرنا ضروری ہے کیوں کہ انھوں نے اس معصوم کے بہ دریغ قتل پراپنی آوازبلند کرکے انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ورنہ اگر دیکھا جائے تو اس طبقے سے وابستہ سیاست دان اور موجودہ حکومت میں منسٹروں کے عہدے پر فائز گجر قوم کے خیر خواہوں نے اپنے لبوں کو خاموش رکھنا ہی بہتر سمجھا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اس کیس پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی تو غلط نہیں ہوگا۔گوجروں کے یہ خیر خواہ سیاست دان آصفہ کے والدین کو دلاسہ دینے کے لیے کئی دن تک اُن کے دولت کدہ پر نہیں گئے اور اگر پھر گئے بھی تو رسمی طور پر اوروزیر اعلیٰ سے مالی مدد کروانے کا وعدہ کرکے واپس چلے آئے۔آصفہ کے لواحقین کو بعد میں وزیر اعلیٰ سے بھی ملاقات کرائی گئی جنھوں نے متاثرہ کنبے کو پوری مدد کرنے کا وعدہ کیا(جیسا کہ عام سیاست دان اکثر ایسے واقعات میں کرتے چلے آتے ہیں)خیر ملزم کی جب شناخت ہوئی اور وہ بھی خاکی وردی میں ملبوس ایک ایسے درندے کی کہ جس نے اقلیتوں کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی سازش رچی تو اُسے سلاخوں کے پیچھے بند کردیا گیا۔ملزم نے اقرار جرم بھی قبول کیا لیکن حالات نے اُس وقت ایک نئی کروٹ لی جب ہندو ایکتا منچ نے ملزم کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے ایک بڑے جلوس کا انعقاد کیا۔حیرت کن بات یہ ہے کہ اس جلوس کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک ممبر اسمبلی کررہا تھا۔اُس بھارتیہ جنتا پارٹی کا جو ہماری ریاست میںحکومت کا ایک حصہ ہے۔ اُس حکومت کی جس کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ہیں جو خود ایک عورت ہیں اور جموں وکشمیر کو عورتوں کے لیے بار بار ایک محفوظ مقام قرار دیتی ہیں۔حد دیکھئے جب ملزم کے حق میں یہ جلوس نکالا جا رہا تھا اُس وقت ہندوستانی ترنگے کو بار بار لہرایا جارہا تھا گویا یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ملزم کی اس حرکت پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا جھنڈا بھی خوشی سے سرشار ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ان جلوس نکالنے والوں پر فوری کاروائی کرتی ،پولیس انہیں تتر بتر کرتی لیکن ہوا اس کے برعکس جلوس ملزم کے حق میں نعرے بلند کرتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ملک کا جھنڈا ہوا میں اور تیزی سے لہراتا گیا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سرکار کے ٹھیکیداروں کے خاکی وردی میں ملبوس اہلکار اس جلوس کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ یہ دل خراش منظر فیس بُک پر موجود ہے جسے دیکھنے کے بعد انسان شرمسار ہوجاتا ہے۔کیا ہماری حکومت انتہا پسندوں کے سامنے اپنے گھٹنے اس قدر ٹیک چکی ہے کہ آصفہ کی اگر نہیں تو ہندوستانی جھنڈے کی عزت کی خاطر ملزموں پر کاروائی کرتی؟معصوم بچی کے قتل میں ملوث ملزم کی حمایت کرنا نہ صرف ایک شرم ناک عمل ہے بلکہ اس معاملے کو مذہبی رنگ دے کر جموں کی قومی یکجہتی کو بھی درہم برہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور موجودہ سرکار اس کے لئے عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔
وزیر اعظم صاحب ’’بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ‘‘ کے حق میں بڑی بڑی تقرریں کرتے ہیں، ان کے لیے مختلف اسکیموں کا علان کرتے ہیں ،کشمیر ی نوجوانوں کو گلے سے لگانے کی بات بھی کرچکے ہیں لیکن جس بے دردی اور منظم سازش کے تحت آصفہ کی عزت لوٹی گئی اور پھر بے رحمی سے اُسے قتل کیا گیا،وزیر اعظم صاحب اور ان کی پارٹی کے اراکین اس پر چپ کیوں ہیں؟چپ ہی نہیں بلکہ ایک بھاجپا رُکن ہندوستانی جھنڈے کی آڑ میں ملزم کو جس طرح بچانے کی کوشش کررہا ہے یہ مرکزی اور خاص کر ریاستی حکومت کے سامنے ایک بڑا سوال کھڑا کردیتی ہے اور اس سوال کا جواب دینا مرکزی اور ریاستی حکومت کا فرض بن جاتا ہے۔
رابطہ :صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی
فون نمبر 9419181351