کٹھوعہ ضلع کے رسانہ علاقہ میں 17جنوری کو پیش آئے ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کی آبروریزی اور قتل کے واقعےکو لیکر جموں خطہ میں جس بڑے پیمانے پرہنگامہ آرائی کا مظاہرہ ہوا ہے اور دائیں بازو کی کچھ جماعتوں اور سول سوسائٹی کے کئی گروپوں کی جانب سے جس پیمانے پہ حکومت پر اس کیس کی تحقیقات کرائم برانچ سے سی بی آئی کو منتقل کرنے کےلئے دبائو پید اکرنے کی کوشش کی گئی ہے، انتظامیہ نے اُسکو مسترد کرکے ملزموں کےخلاف چالان پیش کرکے ایک ایسا قدم اُٹھایا ہے جو عوام الناس کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، اس لئے قابل تعریف اقدام قرار دیا جاسکتا ۔ یہ کیس ایک ایسے انتہائی سنگین معاملہ سے تعلق رکھتاہے ، جس میں انسانیت کی قبا کو تار تا ر کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس وحشیانہ اور بہیمانہ حرکت کے پس پردہ کیا مقاصد ہوسکتے ہیں یہ دیکھنا اب عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس سارے معاملے میں کچھ انتہا پسند گروپوں نے جس مربوط طریقے پر جلسے جلوسوں ، احتجاج اور بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا اور ان تقاریب میں جس طریقے سے صوبے میں فرقہ وارانہ جذبات اُبھارنے کی کوششیں کی گئیں وہ انتہائی تشویشناک اور خطرناک ہے۔ اگر چہ سنجیدہ فکر طبقوں اور انسانیت کا دور رکھنےوالے کئی سماجی وتجارتی حلقوںنے ان مجرمانہ زہنیت رکھنے والے عناصر کو نہ صرف یہ کہ تعاون دینے سے انکا رکیا بلکہ انکی مخالفت بھی کی، لیکن ان حالات میں بھی کچھ وکلاء کی جانب سے کیس کو تحقیقات کےلئے کرائم برانچ سے سی بی آئی کو سپرد کرنے کے مطالبے کی حمایت کرنے اور کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چالان پیش کرنے میں روکاوٹیں پید اکرنے کی کوشش نے معاملے کی سنگینی کے ایک حساس پہلو کو سامنے لایا ہے۔ وکلاء برادری، جو عمومی طور پر سماج کا دکھ درد رکھنے والا طبقہ مانا جاتا ہے اور عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے، میں سے ہی کچھ افراد اس نوعیت کی حرکت کے مرتکب ہوں تو یہ ایک ذمہ دار سماج کیلئے صدمے سے کچھ کم نہیں ہے۔ کیونکہ آصفہ کیس ہماری سماجی اقدار اور قانونی تقاضوں کےلئے فی الوقت ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اگر ایسے سنگین اور بہیمانہ جرم کے مرتکب افراد تعزیزسے بچ نکلیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے وقت میں ہمارے سماج کو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، نیز جس سماج میں جرائم کو توثیق اور مجرموں کو امداد و اعانت فراہم ہو اُس میں کسی قسم کی انسانیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ان حالات میں کرائم برانچ نے دھونس اور دبائو کی صورتحال کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مقررہ وقت کے اند ر تفتیش وتحقیقات کا کام مکمل کرکے جرم کا ارتکاب کرنے والے ملزمین کے خلاف چالان عدالت میں پیش کرکے ایک ایسا قابل قدر کام انجام دیا ہے، جس کےلئے محکمہ کی جس پیمانے پر تعریف و توصیف کی جائے کم ہوگی،کیونکہ دبائو کی اس لہر کو متنوع حلقوں کے ساتھ ساتھ حکمران اتحادی جماعت کے کئی قائدین کی کھلم کھلا حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ صورتحال اس سطح پر پہنچ چکی تھی جہاں مجرموں کی بلاوا سطہ حمایت کےلئے جمو ں بھر میں بند کال بھی دی گئی، جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔ چالان پیش عدالت ہونےسے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ حکومت اس معاملے میں کسی قسم کے دبائو کو تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عناصر کی طرف جموں خطہ میں امن عامہ بگاڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوششوں کا توڑ کرنے کےلئے ہمت و حوصلے اور ربط سے کام کرے۔